اپوزیشن جماعتوں میں محاذ آرائی

اپنے دور میں اکرم درانی اپوزیشن کو رام کیے رکھتے تھے اور آج امیر حیدر ہوتی ان سے دو قدم آگے ہیں۔

خیبرپختونخوا کی موجودہ اسمبلی کے پورے دور میں اپوزیشن ایک اجلاس بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق ریکوزٹ نہ کرسکی۔ فوٹو : اے پی پی /فائل

خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی سانجھے کی ہانڈی نے چوراہے میں پھوٹنا ہی تھا جس کی توقع اب سے نہیں بلکہ اس وقت سے کی جارہی تھی جب سے یہ متحدہ اپوزیشن وجود میں آئی تھی۔

کیونکہ جب چار جماعتیں اکھٹی ہوکر متحدہ اپوزیشن بنانے جارہی تھیں اس وقت سے ہی مسلم لیگ(ن)اور جے یو آئی کے درمیان اپوزیشن لیڈری کے معاملے پرمخاصمت موجود تھی جس کی وجہ اپوزیشن لیڈر کے عہدہ کا حصول تھا ،کیونکہ مسلم لیگ(ن)کا خیال تھا کہ اس عہدہ پر ان کا حق ہے، تاہم جے یو آئی اکثریت کے بل بوتے پر یہ عہدہ لے اڑی ، دلوں میں موجود رنجشوں کا نتیجہ یہ نکلا۔

موجودہ اسمبلی کے پورے دور میں اپوزیشن ایک اجلاس بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق ریکوزٹ نہ کرسکی اور اب ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے ، جس میں مسلم لیگ(ن)اجلاس ریکوزٹ نہ کرنے کے لیے جے یو آئی کو مورد الزام ٹھہرارہی ہے جبکہ جے یو آئی سارا ملبہ مسلم لیگ(ن)کے سر پر ڈال رہی ہے تاہم وجہ کوئی بھی ہو موجودہ اپوزیشن اس اعتبار سے انتہائی کمزور ثابت ہوئی ہے کہ یہ سارا وقت حکومت کی وکٹ پر ہی کھیلتی رہی اور حکومت کو پورے دورانیے میں اپنی وکٹ پر کھیلنے پر مجبور نہ کرسکی ۔


صوبائی اسمبلی میں وزراء کی ایوان میں عدم موجودگی کے حوالے سے اپوزیشن کا واک آئوٹ بالکل ہی اچانک ہوا جس کے لیے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی اور جے یوآئی کے مفتی کفایت اللہ نے بالکل اچانک ہی واک آئوٹ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان کو ایوان سے باہر جانے پر مجبور کردیا ،تاہم اپوزیشن جماعتوں کے ارکان مختلف جگہوں پر موجود ہونے کے باعث واک آئوٹ ختم ہونے کے باوجود دو جماعتیں ایوان کے اندر اور دو باہر رہیں اور یہیں سے اپوزیشن کی تقسیم کا عمل شروع ہوگیا جس میں مسلم لیگ(ن)اور مسلم لیگ(ق)نے اپنا الگ اپوزیشن لیڈر لانے کا اعلان کیا۔

تاہم یہ دونوں جماعتیں عددی اعتبار سے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ اکرم خان درانی کے مقابلے میں اپنا الگ اپوزیشن لیڈر لائیں کیونکہ اگر مسلم لیگ(ن)میں مسلم لیگ (ق) کے تین ارکان شامل ہوئے ہیں تو دوسری جانب دو ارکان ان سے کھسک بھی گئے ہیں اس لیے وہ دس کی تعداد کے ساتھ ایوان میں موجود ہیں، جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ(ق)جس کے کبھی سات ارکان ہوا کرتے تھے ،تین مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کے بعد باقی بچنے والے بھی اپنے راستے پر چل رہے ہیں، اس لیے الگ اپوزیشن کا راگ صرف مسلم لیگ(ن)تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

اپنے دور حکومت میں اکرم خان درانی اپوزیشن کو رام کیے رکھتے تھے اور آج امیر حیدر ہوتی اس معاملے میں ان سے دو قدم آگے ہیں اور وہ اپوزیشن کو جس طریقہ سے ڈیل کررہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپوزیشن کو اپنی جیب میں لیے پھرتے ہیں ،ایسے میں اگر عام انتخابات کے قریب آنے پر مسلم لیگ(ن)کے ارکان فرینڈلی سے ''حقیقی''اپوزیشن کا روپ دھارنا چاہتے بھی ہیں تو شاید انھیں دیگر پارٹیوں سے ہم سفر میسر نہ آسکیں اوراس اہم ترین معاملہ پر خود مسلم لیگ(ن)کے صوبائی صدر اور پارلیمانی لیڈر پیر صابر شاہ کی رائے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہوگی کیونکہ اپوزیشن کی تقسیم کے اعلانات کے موقع پر وہ موجود نہیں تھے اور یقینی بات ہے کہ مسلم لیگ(ن)کی اس سلسلے میں جو بھی پالیسی وضع ہوگی وہ پیر صابر شاہ کی رائے اور رہنمائی ہی سے وضع کی جائے گی ۔

جماعت اسلامی ،متحدہ مجلس عمل کے مقابلے میں مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں نئے بننے والے دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ دینی محاذ میں بھی شامل نہیں ہوئی حالانکہ جب مذکورہ اتحاد کے قیام کے سلسلے میں ابتدائی نشست ہوئی تو اس میں جماعت اسلامی شریک تھی اور اس نے نئے اتحاد کے قیام اور اس میں شمولیت پر اتفاق بھی کیا تھا تاہم جماعت اسلامی نے اپنا فیصلہ اچانک تبدیل کرلیا ہے جس کی بڑی وجہ تو یہی نظر آرہی ہے کہ جماعت اسلامی کسی بھی اتحاد کا حصہ بن کر اپنے ہاتھ نہیں بندھوانا چاہتی اور آزاد رہتے ہوئے مختلف جماعتوں کے ساتھ گفت وشنید کے راستے کھلے رکھنا چاہتی ہے جبکہ دوسری وجہ نئے اتحاد میں شامل کچھ ایسی جماعتیں ہوسکتی ہیں جن پر مختلف اور بین الاقوامی طرف سے اعتراضات ہورہے ہیں جن کے ساتھ دفاع پاکستان کونسل کے اسٹیج پر تو بیٹھا جاسکتا ہے تاہم انتخابی سیاست میں ساتھ چلنا مشکلات بھی پیدا کرسکتا ہے اسی لیے جماعت اسلامی نے بال اپنی مرکزی شوریٰ کی طرف پھینکتے ہوئے متحدہ دینی محاذ میں شرکت نہیں کی ۔
Load Next Story