آئی ایم ایف اور عالمی معیشت
ترقی یافتہ ممالک ہوں,ترقی پذیریاپھرپسماندہ ممالک سب کسی نہ کسی حوالے سے آئی ایم ایف کی معاشی پالیسیوں پرعمل پیرا ہیں.
ئی ایم ایف انٹرنیشنل کیپٹل ازم کا نگہبان ادارہ ہے. فوٹو: رائٹرز/فائل
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹائن لاگرڈ ے نے لاطینی امریکا کے ملک چلی کے دارالحکومت سان تیاگو میں کہا ہے کہ 2013میں ترقی یافتہ ممالک کی معیشت 1.6 فیصد تک ترقی کرے گی۔ اسی برس میں دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی معاشی ترقی کی رفتار 5.6 فیصد جب کہ پوری دنیا کی معاشی ترقی کی رفتار مجموعی طور پر 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
آئی ایم ایف انٹرنیشنل کیپٹل ازم کا نگہبان ادارہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر یا پھر پسماندہ ممالک سب کسی نہ کسی حوالے سے آئی ایم ایف کے ماہرین کی تیار کردہ معاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ بلاشبہ اس ادارے نے عالمی معاشی نظام کو سہارا دینے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن دنیا کے کئی معاشی و اقتصادی ماہرین آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں جو معاشی کساد بازاری پیدا ہوئی ہے' اس کا سبب آئی ایم ایف کی پالیسیاں ہی ہیں۔
اس ادارے کی پالیسیوں کا بنیادی نکتہ آزاد منڈی کی معیشت کو فروغ دینا ہے جو اب نئے دور میں داخل ہو رہی ہے' ان پالیسیوں سے ترقی یافتہ ممالک تو فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن ترقی پذیر ملکوں کو زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا۔ آئی ایم ایف کے ماہرین کی دن رات کی عرق ریزی کے باوجود حالیہ چند برسوں سے ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ یورپ میں یونان اور اٹلی کا معاشی بحران سب کے سامنے ہے۔ ان ممالک پر قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امریکا میں بھی معاشی کساد بازاری ابھی تک موجود ہے۔ایک خبر کے مطابق دنیا کی مجموعی آبادی کا ہر فرد اوسطاً 8 ہزار ڈالر کا مقروض ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ قرضہ حاصل کرنے والا ملک جاپان ہے جس کے سرکاری قرضوں کی کل مالیت 126 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
یوں 12 کروڑ آبادی کے اس ملک کا ہر شہری لگ بھگ ایک لاکھ ڈالر کا مقروض ہے جب کہ جاپان کی قومی شرح نمو کے تقابل میں قرضوں کی شرح 222 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ اس فہرست میں دوسرا نمبر دنیا کی سب سے بڑی معیشت سمجھا جانے والا ملک امریکا ہے جس کے قرضوں کی مالیت 114 کھرب 63ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ امریکا کے 31 کروڑ لوگوں میں ہر شہری تقریباً ساڑھے 36 ہزار ڈالر کا مقروض ہے اور امریکا کے سرکاری قرضوں کی شرح نمو کے مقابلے میں شرح 73 فیصد ہے جس میں ہر سال اوسطاً 14.2 فیصد کی شرح سے افزائش ہو رہی ہے۔
دنیا کے تیسرے سے پانچویں نمبر پر آنے والے ملکوں میں یورپ کی تین بڑی معیشتیں جرمنی، فرانس اور برطانیہ شامل ہیں جن کے حکومتی قرضے بالترتیب 27 کھرب ڈالر، 23 کھرب ڈالر اور 22 کھرب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں، اسی طرح چھٹے ساتویں اور آٹھویں نمبر پر برازیل، چین اور بھارت آتے ہیں جن میں سے پہلے 2 ملکوں کے بیرونی قرضوں کی مالیت 13 کھرب ڈالر جب کہ بھارت کے بیرونی قرضوں کی مالیت 10 کھرب ڈالر کے قریب ہے۔ یہ دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں کا حال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی معیشت قرضوں کے نظام پر کھڑی ہے۔ دنیا بھر میں اسی وقت جو جنگیں لڑی جا رہی ہیں' اس کی وجہ بھی یہی قرضوں کی معیشت ہے۔
طاقتور ممالک اپنے نظام کو بچانے کے لیے کمزور ممالک کے وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ادھر ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے رہے ہیں۔ وہ اپنے ذمے قرضے واپس بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود قرضوں سے ان کی جان نہیں چھوٹ رہی۔دنیا کی طاقتور کرنسیوں کے ریٹ کے اتار چڑھائو غریب اور پسماندہ ممالک کے تجارتی توازن کو متاثر کررہے ہیں۔ پاکستان کی مثال سب کے سامنے ہے۔ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے سے ادائیگیوں کا توازن متاثر ہورہا ہے۔ پاکستان پر اربوں ڈالر کا غیرممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کا قرضہ ہے۔ گزشتہ 60 برس میں پاکستان اربوں ڈالر ادائیگی کر چکا ہے۔ اس کے باوجود قرضوں کا حجم بڑھ رہا ہے۔
ایک اخباری خبر کے مطابق موجودہ حکومت نے گزشتہ چار سال کے دوران مجموعی طور پر 2867 ارب روپے مالیت کا ملکی و غیر ملکی قرضہ واپس کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال 2008-09سے مالی سال 2011-12تک کے گزشتہ چار سال کے عرصے کے دوران 2 ہزار 588 ارب (روپے کا ملکی قرضہ واپس کیا جب کہ غیر ملکی قرضہ کی مد میں صرف دو کھرب 79 ارب روپے واپس کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کی طرف سے سب سے زیادہ قرضہ گزشتہ مالی سال سے2011-12 کے دوران واپس کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے واپس کیے جانے والے ملکی و غیر ملکی قرضہ کی تفصیلات کے مطابق مالی سال 2008-09 کے دوران مجموعی طور پر چھ کھرب 38 ارب روپے مالیت کا ملکی و غیر ملکی قرضہ واپس کیا گیا جس میں 79 ارب روپے غیر ملکی قرضہ کی مد میں اور پانچ کھرب 59 ارب روپے ملکی قرضہ کی مد میں واپس کیے گئے ہیں۔
مالی سال 2009-10کے دوران مجموعی طور پر چھ کھرب 42 ارب روپے مالیت کا ملکی و غیر ملکی قرضہ واپس کیا گیا جس میں 64 ارب روپے غیر ملکی قرضہ کی مد میں اور پانچ کھرب 78 روپے ملکی قرضہ کی مد میں واپس کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2010-11کے دوران مجموعی طور پر چھ کھرب 98 ارب روپے مالیت کا ملکی و غیر ملکی قرضہ واپس کیا گیا جس میں 68 ارب روپے غیر ملکی قرضہ کی مد میں اور چھ کھرب 30 ارب روپے ملکی قرضہ کی مد میں واپس کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2011-12 کے دوران مجموعی طور پر آٹھ کھرب 89 ارب روپے مالیت کا ملکی و غیر ملکی قرضہ واپس کیا گیا جس میں 68 ارب روپے غیر ملکی قرضہ کی مد میں اور آٹھ کھرب 21 ارب روپے ملکی قرضہ کی مد میں واپس کیے گئے ہیں۔ پاکستان نے اتنی بڑی رقم یقیناً اپنے وسائل سے ادا کی ہے لیکن اس کے باوجود ملکی معیشت بحران کا شکار ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ماہرین کا علم' تجربہ اور ذہانت ترقی یافتہ ممالک کے ماحول کے مطابق پروان چڑھی ہے۔ انھوں نے جو نصاب پڑھا' وہ بھی سرمایہ دارانہ اور آزاد منڈی کی معیشت پر مبنی ہے' انھیں دنیا کے غریب ممالک کی ثقافت' مذاہب اور سماجی اقدار سے آگاہی نہیں ہے۔ اس لیے ان کی پالیسیاں مسلسل ناکام ہو رہی ہیںجس کے باعث عالمی سطح پر معاشی بحران پیدا ہورہے ہیں اور غریب ممالک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔دنیا کے ترقی پذیر خصوصاً پاکستان کے پالیسی سازوں کو اپنے ملک کے ماحول' ثقافت اور اقدار کے مطابق معیشت کو استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طریقے سے ملک کی معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔