ہم قاتل نہ تھے
پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد پرانی نسل یہی کہتی ہے کہ یہ ہندوستان، سابق سوویت یونین، امریکا اور اسرائیل کی سازش تھی۔
KARACHI:
سردی کا موسم، خزاں کا عالم۔ دلوں کو اداسی کے رنگ سے رنگتا ہے۔ دسمبر کی سولہویں تاریخ دل میں خنجر اتارتی ہے۔ وہ جو چلے گئے ان کا ماتم ایک طرف، جو رہ گئے انھوں نے آشوب زمانہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ آج بھی طرم خانی کا وہی عالم ہے۔ کوئی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا انتقام ہندوستان سے لینا چاہتا ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ ہندوستان سے دوستی کی جو باتیں چل رہی ہیں، ہم اس کی صرف مذمت پر ہی بس نہیں کریں گے، ہندوستان کی مرمت کریں گے۔
ایک مذہبی رہنما فرماتے ہیں کہ مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے طاقت کا بے دریغ استعمال کیاگیا اور بے گناہ لوگوں کو مارا گیا۔ باہر کی طاقت کو خوش کرنے کے لیے ملک توڑا گیا اور فوج سے سنگین غلطیاں ہوئیں۔ جی چاہتا ہے کہ ان محترم و مکرم رہنما سے دست بستہ معذرت کرتے ہوئے یہ سوال کرنے کی جسارت کی جائے کہ حضور کیا اس تمام صورتحال میں آپ کے ہمدردوں اور حمایتیوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا؟ کیا آپ کے اس وقت کے رہنما فوج کو سنگین غلطیوں سے نہیں روک سکتے تھے؟
مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے دو ٹکڑے ہوجانے کے باوجود پرانی نسل یہی دہرائے جارہی ہے کہ یہ ہندوستان، سابق سوویت یونین، امریکا اور اسرائیل کی سازش تھی۔ کوئی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد زبان کے مسئلے پر جو فرمان جاری کیا گیا تھا، اس نے بنگالیوں کو ششدر کردیا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جس مسلم لیگ کی بنیاد نواب صاحب ڈھاکا نے 1906میں رکھی تھی اورجو پاکستان ،بنگالیوں کے اکثریتی ووٹ سے وجود میں آیا تھا، ان ہی بنگالیوں سے ان کی زبان، ثقافت اور تہذیب چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
اکثریت یہ نہیں مانتی کہ بنگلہ زبان کو اس کا جائز حق نہ ملنے پر مشرقی بنگال کے لوگوں کے اندر پھیلتا ہوا اشتعال 1952 میں چار نوجوانوں کی بھینٹ لے گیا۔ آخر کار ان کا مطالبہ تسلیم کیا گیا، لیکن درمیان میں وہ خلیج پیدا ہو ئی جسے ''ہم مذہب'' ہونے کا نعرہ بھی پاٹ نہیں سکا۔ یوں بھی اس کے بعد بھلا کس نے بنگالیوں کی شکایتیں سنیں۔ وہ جو اکثریت میں تھے اقلیت ان پر فراعنہ کی طرح حکومت کرتی رہی۔
1970کے انتخابات کے نتائج آئے۔ وزارت عظمیٰ شیخ مجیب الرحمان کا حق ٹھہری لیکن یہ حق بنگالیوں کو نہیں ملا۔ جنرل یحییٰ خان نے اپنی مغرور آواز میں یکم مارچ 1971 کو نئی پارلیمنٹ کا پہلا سیشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ اسی کے چند دنوں بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں وہ آرمی ایکشن ہوا جس میں عوام تو ایک طرف رہے بنگلہ کے متعدد ادیب، شاعر، مصور اور متحرک طلبہ ''قابل دار'' ٹھہرے۔
اس کے بعد تاریخ نے وہ رخ اختیار کیا جو الم ناک بھی ہے اور شرمناک بھی۔تاریخ کے اس خونیں باب کی جھلکیاں ڈھاکا کے''لبریشن وار میوزیم'' میں نظر آتی ہیں۔ 25 مارچ 1971 سے دسمبر 71 میں ہتھیار ڈالنے کے لمحے تک مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ جس سفاکی کا سلوک ہوا، اس کی روداد تصویروں، اخباری صفحوں، کھوپڑیوں اور بازوئوں کی ہڈیوں کے ڈھیر کی صورت میں موجود ہے۔ عورتیں، مرد، بچے، کٹی پھٹی لاشیں، ان استادوں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، فنکاروںکی تصویریں جو اس خطا میں مار دیے گئے کہ وہ اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں فوجی جنتا کے مخالف تھے۔ وہ انورا بیبی جو اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لے کر حکومت مخالف جلسے میں شرکت کے لیے نکلی تھی اور دودھ پلاتے ہوئے قتل کی گئی تھی۔ ماں کو گولی مارنے والے نے بچے پر رحم کیا اور دوسری گولی اسے بھی ماردی۔ بن ماں کا بچہ در بہ در بھٹکتا رہتا۔ اچھا ہے کہ وہ بھی ماں کے ساتھ سلا دیا گیا۔
مقتولین کے دربار میں ہم بہ چشم نم ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑے رہے۔ ہم قاتل نہ تھے لیکن قاتلوں کے قبیلے سے تو تھے۔
اسی ڈھاکا میں ایک زندہ قبرستان بھی ہے جسے دنیا بہاریوں کے کیمپ کے نام سے جانتی ہے۔ میرپور، محمد پور۔ جہاں رہنے والے 1971کی جنگ آزادی کے دوران دھرتی کے بیٹوں اور بیٹیوں کا ساتھ دینے کے بجائے ''الشمس'' اور ''البدر'' کی سیاست میں ملوث ہوئے ، بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی کے دوران اور اس کے بعد ایک موج خون ان کے سر سے گزری۔ اب ان کی تیسری نسل اپنے بڑوں کے غلط سیاسی فیصلوں کی فصل کاٹتی ہے۔
بنگلہ دیش کی آزادی کے بارے میں ہمارے یہاں کم لیکن وہاں بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ جہاں آراء امام کی ڈائری ''بلڈ اینڈ سینڈ'' کے نام سے جلد ہی شایع ہوگئی تھی۔ انھوںنے ڈھاکا میں لوگوں پر گزرنے والے دسمبر 71 کے دنوں کا احوال ڈائری کے انداز میں لکھا ہے۔ اب اس کا اردو ترجمہ ''71کے وہ دن'' کے نام سے شایع ہوگیا ہے۔ شاہین اختر کا ناول جو انگریزی میں 'سرچ' کے نام سے سامنے آیا، بنگالی لڑکیوں اور عورتوں پر گزرنے والی داستان ستم سناتا ہے۔ ہمارے یہاں ام عمارہ اور کئی دوسرے افسانہ نگاروں نے اس سانحے پر قلم اٹھایا۔ ہماری منفرد اور مشہور ادیب الطاف فاطمہ نے ''چلتا مسافر'' کے نام سے ایک یادگار ناول لکھا۔ کیمپوں میں زندگی بسر کرنے والا ایک نوجوان مصائب جھیل کر کھٹمنڈو کے راستے اسلام آباد پہنچ گیا ہے جو میرپور، محمد پور کے کیمپوں میں زندگی گزارنے والوں کے لیے ''ارض موعود'' ہے۔ وہ نوجوان کیمپ میں رہنے والے اپنے باپ کو خط لکھتا ہے
''اسلام آباد واقعی روشنیوں کا شہر ہے۔ بڑے رونق میلے ہیں۔ یہاں منسٹروں کے گھر اور گاڑیاں دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ جس خطے میں آکر ہم نے قیام کیا ہے وہ بڑا آسودہ ہے اور بہت باوقار ہے۔ بڑی شان و شکوہ ہے۔ لوگ ہنستے بولتے۔ خوب رج کر کھاتے پیتے۔ دیس دیس کی چیزوں کی خریداری کرتے اور خوب خوش رہتے ہیں۔ابو! پتہ نہیں چلتا کہ اس قوم کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا ہے۔ کسی کا بازو کٹ گیا ہے۔ یہاں پہنچ کر لگتا ہے کہ ہم جس تجربے اور واردات سے گزرے تھے، وہ سب ایک وہم اورخیال تھا۔ اچھا خیر، جو کچھ بھی ہوا ٹھیک ہوا۔ شاید اب انسان بھاری بوجھ اٹھانے کا اہل ہی نہیں رہا۔''
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد الطاف فاطمہ کے قلم سے نکلنے والا یہ نوجوان کردار خون کے دریا سے گزر کر پاکستان پہنچا ہے، وہ یہاں والوں کے سکون اور اتنے بڑے سانحے سے ان کی بے اعتنائی پر بس یہی کہہ کر صبر کرتا ہے کہ ''پتہ نہیں چلتا کہ اس قوم کے ساتھ کوئی حادثہ ہوگیا ہے۔''
بنگلہ دیش کی آزادی کے کئی چہرے ہیں۔ ان میں وہ ہیں جنہوں نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی اور ایک طویل خونیں جدوجہد کے بعد کامیاب ہوئے، ان میں وہ ہیں جنہوں نے اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈالا جو ناراض اور گلہ کرنے والوں کے دل جیتنے نہیں آئے تھے۔ان لوگوں نے اس کی کیسی بھاری قیمت ادا کی یہ ان ہی کے دل سے پوچھیے۔ مغربی پاکستان سے آنے والے بہ زور بازو ایک ایسی زمین فتح کرنا چاہتے تھے جو ان کی نہیں تھی۔ وہ نہ دل جیت سکے اور نہ دوسروں کی زمین کو اپنے قبضے میں رکھ سکے۔ انھوں نے بنگالیوں کی جائز جمہوری خواہشوں کے سامنے سر جھکانے سے کہیں بہتر یہی جانا کہ ہندوستانی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں۔
آج جب شیخ حسینہ واجد پاکستان سے بنگالیوں پر ہونیو الے ظلم و ستم کا حساب مانگتی ہیں اورمعذرت کا مطالبہ کرتی ہیں تو کچھ لوگوں کو شیخ مجیب الرحمان یاد آتے ہیں جو پاکستان کی ایک کال کوٹھری میں موت کی گھڑیاں گنتے رہے تھے۔پھر جب واپس گئے تھے تو بنگلہ بندھو، نے خون کا دریا پار کرنے والے بنگالیوں کی ناراضگی کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت قبول کی تھی اور74میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور چلے آئے تھے۔ لاہور آنے سے پہلے انھوں نے شرط رکھی تھی کہ پاکستان، بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرے، یوں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے صرف 3 برس بعد پاکستان اور بنگلہ دیش نے ایک دوسرے کو تسلیم کرلیا تھا۔
سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے اور آج اس کے 38 برس بعد شیخ مجیب کی بیٹی پاکستان کی ریاست سے معذرت کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہم میں سے بہت سے ان کے اس کے مطالبے پر چراغ پا ہیں۔ ہماری سمجھ میں پہلے بھی کچھ نہیں آیا تھا اور اب بھی کچھ نہیں آیا۔ ہمیں جاپان سے امریکا کی اورجاپان کی چین سے معذرت یاد نہیں آئی۔ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ خود دار اور خود مختار قومیں دیر سے سہی اپنی غلطیوں پر معافی کی طلب گار ہونے کو انا کا مسئلہ نہیں بناتیں۔ پاکستان کے دو لخت ہوجانے سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ اس حوالے سے آج بھی ہمیں اپنی غلطیاں نظر نہیںآتیں۔ اپنے تباہ کن رویوں کو دوسروں کی سازش کہہ کر ہم اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ ہم بلوچستان اور دوسرے ناراض علاقوں پر نظر نہیں ڈالتے۔ ان کی ناراضی کو بین الاقوامی سازش کہتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ نئے قومی سانحے ہماری بداعمالیوںکے سبب ہمارے انتظار میں ہیں۔