چلو واہگے کی سرحد پر

چلو واہگہ کی سرحد پر، وطن پر وقت آیا ہے، وطن پہ کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے۔


Asadullah Ghalib December 18, 2012
[email protected]

سولہ دسمبر سے دو دن پہلے دوپہر کو قاضی حسین احمد کے ایک پینل انٹرویو میں شرکت کرنا تھی، یہی وقت تھا جب چوبرجی میں حافظ محمد سعید نے بھی یاد فرمایا تھا۔ ان کے ہاں پہنچے تو وہ اخبار نویسوں کے ایک ہجوم میں گھرے ہوئے تھے اور اپنی گفتگو ختم کر چکے تھے، ہمیں مولانا امیر حمزہ کے کمرے میں بٹھا دیا گیا، کچھ ہی دیر میں طلحہ سعید بھی آ گئے، یہاں آنے کے لیے انھی نے فون کیا تھا۔ کہنے لگے بزرگ ا بھی آتے ہیں۔ والد کے بارے میں بزرگ کا لفظ ان کی زبان سے اچھا لگا۔

حافظ صاحب بھی تشریف کے آئے اور تناول ماحضر کا دور شروع ہوا، بات چیت بھی چلتی رہی۔ سولہ دسمبر کو دفاع پاکستان نے واہگہ کی طرف مارچ کیا، اس کا مقصد بعض پالیسیوں کے خلاف احتجاج تھا، بھارت کو پسندیدہ ملک کیوں قرار دیا گیا ہے، کشمیر کو فراموش کر کے اس کے ساتھ محبت کا راگ کیوں الاپا جا رہا ہے۔ اس مارچ کو لوگ آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، کہتے ہیں لاکھوں کا مجمع تھا اور دفاع پاکستان کے تمام اہم لیڈر اس میں شامل تھے۔

جنرل حمید گل اپنی علالت کے باوجود اس میں پورا وقت شریک ہوئے۔ چند کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں سارا دن لگ گیا۔ ہمارے وزیر داخلہ اس روز بھارت میں تھے اور ان سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ حافظ سعید کو بھارت کے حوالے کیا جائے، رحمٰن ملک نے تو جواب دیا، سو دیا لیکن حافظ سعید عملی طور پر بھارتیوں کے قریب پہنچ گئے، وہ بھارت جو ممبئی حملوں کے بعد حافظ سعید کے گھر، ان کی مسجد، یا مریدکے میں ان کے مدرسے پر سرجیکل اسٹرائیک کے لیے بے تاب تھا، وہ سولہ دسمبر کو پیچ و تاب کھاتا رہا، حافظ سعید بھارت کی سرحد پر کھڑے تھے، مگر بھارت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر سکا، کیوں نہ کر سکا، اس کی وجہ بھارت کے علم میں ہو گی مگر اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حافظ سعید نے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا، اس لیے وہ نہ تب گبھرائے، نہ سولہ دسمبر کو واہگہ کی سرحد پر پہنچ کر ان کے قدم لڑ کھڑائے۔

سولہ دسمبر کو ان کے ارد گرد لاکھوں نوجوانوں کا حصار تھا، ممبئی حملوں کے بعد جب بھارت سرجیکل اسٹرائیک کے لیے تلا ہوا تھا تو پاکستان جانتا تھا کہ اس کا کوئی شہری اس سانحے میں ملوث نہیں، اس لیے پاکستان ایئر فورس کے جہاز فضا ئوں میں گشت کرتے رہے، ہو سکتا ہے وہ ایٹم بموں سے لیس ہوں، بھارت زیادہ بہتر جانتا تھا کہ اسے سرجیکل اسٹرائیک کا جواب کس زبان اور کس انداز سے مل سکتا ہے، اس لیے اس کے ہوا باز چوکڑی بھول کر اپنے اڈوں کو لوٹ گئے۔ بھارت نے ہمارے وزیر داخلہ سے جب دوبارہ مطالبہ کیا کہ حافظ سعید اس کے حوالے کیا جائے تو اسے جواب ملا کہ ہم نے آپ کی عدالتوں کا احترام کیا، آپ نے اجمل قصاب کو پاکستانی قرار دے کر پھانسی دے دی، ہم نے اف تک نہیں کی، آپ بھی ہماری عدالتوں کا اعتبار کریں جو تین مرتبہ حافظ سعید کو بری کر چکی ہیں۔ اگر بحث برائے بحث کرنی ہے تو پاکستان کرنل پروہت کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے جو سمجھوتہ ایکسپریس کی دہشت گرد ی میں ملوث تھا۔

دفاع پاکستان کے واہگہ مارچ نے جو پیغام دیا، وہی پیغام بوڑھے علی گیلانی نے سری نگر سے دیا، اس کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کشمیر کو بھول کر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر جو پیغام کشمیریوں کو دیا ہے، وہ ہماری سمجھ میں آ گیا ہے لیکن پاکستان یہ جوا زیادہ دیر نہ کھیلے، ورنہ کشمیری پاکستان سے بدک جائیں گے، وہ کشمیری جو کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگاتے گردنیں کٹوا رہے ہیں۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ قاضی حسین احمد نے انٹرویو کے دوران میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر بھارت کشمیر پر بات چیت کے لیے تیار ہو تو وہ خود مذاکرات کے لیے بھارت جانے کو تیار ہیں۔ قاضی حسین احمد کے جواب سے ثابت ہو تا ہے کہ پاکستان میں کوئی شخص بھارت فوبیا کا شکار نہیں، بھارت اگر ڈھنگ سے چلنے کو تیار ہو تو ہر پاکستانی علاقے میں پیار محبت کے گیت گانے کو تیار ہے۔

لیکن بھارت بغل میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی اپنائے تو پھر کہاں کا امن، کہاں امن کی آشا۔ کون نہیں جانتا کہ آزادی کے فارمولے کے تحت کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا تھا مگر بھارت نے فوجی جارحیت کر کے اس علاقے پر قبضہ کر لیا، اس قبضے کو مستحکم بنانے کے لیے ریڈ کلف ایوارڈ میں دھاندلی کے ذریعے گورداسپور کو بھارت کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ پاکستانی مجاہدین نے بھارتی فوج سے ٹکر لی تو بھار ت خود بھاگ کر سلامتی کونسل میں پہنچ گیا جہاں سیز فائر کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور ہوئی کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا مگر بھارت نے اس قرارداد پر آج تک عمل نہیں ہونے دیا اور اس نے کشمیر کو اٹوٹ انگ بنا لیا۔ کہا گیا ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ نے بھارت کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ نہیں اٹھایا، لیکن وزیر داخلہ نے جو مسئلہ اٹھایا، وہ بھی تو غور طلب ہے۔

انھوں نے بھارت کی سر زمیں پر کھڑے ہو کر کہا کہ بلوچستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے، اس کے لیے ہدایات بھارت سے موبائل فون سے دی جاتی ہیں۔ بھارت نے قندھار میں قونصل خانہ قائم کر رکھا ہے، اس کا کام کیا ہے، کیا قندھار کوئی سیر و سیاحت کی جگہ ہے۔ جس شہر میں امریکی اور اتحادی افواج کو چین نصیب نہیں وہاں بھارت کی موجودگی کیوں۔ اس کا جواب بلوچستان کی صورت حال سے ملتا ہے جہاں روز لاشیں گرتی ہیں، اغوا کی وارداتیں ہوتی ہیں اور ہم ان کا الزام بڑے شوق سے اپنی افواج کو دے رہے ہیں۔ طوائف الملوکی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ہم ہر حد پار کر چکے۔ ہمیں وہ بھارت عزیز ہے جس کو ہمارے وزیر داخلہ نے الزام دیا ہے کہ وہ بلوچستان کی شورش میں ملوث ہے۔ اور ہمیں وہ بھارت عزیز ہے جو کشمیریوں کی نسل کُشی کر رہا ہے۔

ہٹلر پر الزام ہے کہ اس نے یہودیوں کی نسل کُشی کی، کوئی شخص اس الزام کی تردید کرے تو وہ مردود، مگر بھارت کشمیریوں کی نسل کُشی کرے تو ہمارے لیے مرغوب۔ دفاع پاکستان کونسل کیا اس پر خاموش رہے۔ کیا اسے اپنے رد عمل کا حق نہیں، کیوں نہیں، اس نے اپنا یہ حق استعمال کیا اور بھارت کو بتا دیا کہ کشمیر پر سمجھوتہ کیے بغیر بات نہیں بنے گی، نواز شریف نے کوشش کر دیکھی، واجپائی کی بس کو واہگہ پر خوش آمدید کہا، اسے مینار پاکستان پارک میں جلسہ کرنے دیا۔ لیکن جن لوگوں کے دل میں کشمیر کا درد ہے، انھوں نے نواز شریف کے اس اقدام کی مذمت کی حالانکہ انھیں سیاسی طور پر نواز کا حامی اور گرو سمجھا جاتا ہے۔ جنرل مشرف آگرہ گیا، بڑے ڈھول پیٹے گئے کہ دونوں ملک شیر و شکر ہو گئے مگر مشرف کو بھی واضح کرنا پڑا کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرو، پھر دوستی ہو گی۔ ایڈوانی ایسا کیوں کرتا۔ مشرف منہ لٹکائے واپس آ گئے، اب بھی واہگہ پر شمعیں روشن کی جاتی ہیں، امن کی آشائوں کا اظہار اور پرچار کیا جاتا ہے مگر دفاع پاکستان کے ایک مارچ نے ان شمعوں کو گل کر دیا ہے اور ان آشائوں کی ہوا نکال دی ہے۔

لوگ اپنے مقدر کے بارے میں مضطرب ہیں، ہر ایک کو یہ فکر لاحق ہے کہ چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو جو آزادی حاصل کی تھی، کیا وہ چھن جائے گی، کیا کوئی اور سولہ دسمبر تو مقدر میں نہیں لکھ دیا گیا۔ دفاع پاکستان نے اپنے انداز میں اس تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لگتا ہے ڈاکٹر طاہرالقادری با نداز دگر اسی اضطراب کو مینار پاکستان کی زبان بنا دیں گے۔ مجھے چھ ستمبر سن پینسٹھ کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب لاہور کی مال روڈ پر شاعروں، ادیبوں اور دانش وروں کے ہجوم کے آگے صفدر میر کی آواز گونج رہی تھی: چلو واہگہ کی سرحد پر، وطن پر وقت آیا ہے، وطن پہ کٹ کے مر جانے کا یارو وقت آیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں