کرپشن اورجمہوری ادارے
عوام کے جاننے کے حق کے ذریعے تبدیل ہونے والی رائے عامہ ہی ریاستی اداروں کی شفافیت کو یقینی بنائے گی۔
پاکستان میں منتخب اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت انکم ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ ملک میں ''روزانہ 15ارب روپے'' کی مجموعی کرپشن ہورہی ہے۔ ملک کی آبادی کا 18 فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ 58 فیصد آبادی کم غذائیت کا شکار ہے، ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ منتخب اراکین کو کرپشن کے الزامات پر سخت تشویش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف سیاستدانوںکو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سیاستدانوں نے یہ ملک بنایا، ان کی کردار کشی کرکے نادیدہ قوتوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
قومی احتساب کے قومی ادارے نیب NAB کے سربراہ ایڈمرل سید فصیح بخاری کا کہنا ہے کہ 10 سے 12 ارب روپے کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے، اگر ٹیکس چوری سرکاری وسائل کے ضیاع اور بینکنگ شعبے میں کرپشن ہوتی ہے تو ڈاکٹر، وکیل، صنعتکاروں، دکانداروں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد بھی ٹیکس چور ہے۔ ادارہ جاتی ناکامیوں اور خرابیوں نے ریاست، مقننہ اور عدلیہ کی ریاستی تکون کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کرپشن اور اچھی طرز حکومت پاکستانی ریاست کے سنگین بحران ہیں۔ بعض ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ نیب کے سربراہ روزانہ ہونے والی کرپشن کے جو اعداد و شمار بتا رہے ہیں وہ درست نہیں ہیں کیونکہ پاکستانی معیشت کا حجم اس سے کم ہے۔
معاشیات کے استاد ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کا کہنا ہے کہ نیب اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار مفروضے کی بنیاد پر ہیں کیونکہ شماریات کے مسلمہ اصولوں کے تحت تحقیق نہیں کی گئی، یہ اعدا د و شمار کم یا زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی وصولی، اخراجات اور مراعات کی مد میں کرپشن ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کی شرح 45 فیصد ہے اور ٹیکس جی ڈی پی 9.5 فیصد ہے، یہ شرح تشویش ناک حد تک کم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں کی کارکردگی پر عدم اعتماد کی بنا پر بہت سے لوگ ٹیکس نہیں دیتے، یہ لوگ یہ رقم فیاضی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔
آغا خان یونیورسٹی میں چند سال پہلے ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں فیاضی کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر سلیمان ڈی محمد کی یہ بات حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ ریاستی اداروں کی کارکردگی کو شفاف بنا کر لوگوں کو ٹیکس دینے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بحث کے باوجود کہ روزانہ ہونے والی کرپشن کا حجم کتنا ہے یہ حقیقت ہے کہ کرپشن ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کی جڑیں معاشرے میں پیوست ہیں۔ کرپشن کرنے والے صرف سیاستدان ہی نہیں ہیں، اس ملک میں کرپشن کو جِلا دینے میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی اہم کردار ہے۔
پاکستان میںکرپشن کے معاملے کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جب قائد اعظم نے امریکی صدر کو لکھے گئے ایک خط کے ذریعے انھیں ریاست کے مالیاتی معاملات کے استحکام کے لیے قرضے کی درخوست کی تو امریکا کی سول بیوروکریسی سے رابطوں کا آغاز ہوا۔ بیوروکریسی کو ملنے والی ''غیبی امداد'' سے جھولیاں بھرنے کا موقع ملا۔ جب امریکا نے سوویت یونین کے خلاف پاکستان کو فرنٹ اسٹیٹ بنانے کے لیے PL480 کے تحت امداد دینا شروع کی تو اس امداد سے بیوروکریٹس، سیاستدانوں، صنعتکاروں نے فائدہ اٹھانا شروع کیا، یوں ایک مصنوعی کمرشل معاشرے کی بنیادیں پڑنا شروع ہوئیں، حکومت کے ہر پروجیکٹ کی منظوری کے لیے کمیشن ادا کرنے کی روایت شروع ہوئی۔
سینئر شہری کہتے ہیں کہ 1958 میں کرپشن کی شرح کم تھی، جو لوگ ناجائز دولت کماتے تھے وہ مضبوط سماجی روایات اور تعلقات کی بنا پر اپنی دولت کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ پہلے فوجی حکمراں جنرل ایوب خان کے دور میں کرپشن کو ادارہ جاتی شکل دی گئی، اس کی سب سے بڑی مثال خود جنرل ایوب خان کا خاندان تھا۔ جن کا شمار ملک کے بڑے صنعتکاروں میں ہونے لگا۔ معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق نے ملک کے 22 امیر خاندانوں کی فہرست تیار کی تو ایوب خان کا خاندان اس فہرست میں شامل ہوگیا۔ ایوب خان کے دور میں بدعنوانی کے نت نئے طریقوں سے دولت کمانے کے کلچر کا آغاز ہوا، پھر ہر دور حکومت میں کرپشن کا حجم بڑھتا چلاگیا۔
اگر چہ پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی کابینہ پر بدعنوانی کے الزامات نہیں لگے، ان کے وزیر صحت بابائے سوشلزم شیخ رشید نے جب ادویات کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے جنرک ناموں کی پالیسی نافذ کی تو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اس پالیسی کو ترک کرنے کے لیے کروڑوں روپے کمیشن کی پیشکش کی تھی، ان کمپنیوں کے ایجنٹوں نے یہ پیشکش قبول نہ کرنے پر لاطینی امریکا کے ملک چلی کے صدر ڈاکٹر ایلنڈے جیسا حشر کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد ہائی کورٹ کے جج کے ساتھ فوجی بریگیڈیئر کو بٹھاکر پیپلزپارٹی کے اہم رہنمائوں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کی سماعت کرائی مگر کسی بڑے رہنما کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکی تعاون سے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف پروجیکٹ شروع کیا گیا۔ اس وقت کے بعض جنرلوں، مذہبی رہنماؤں اور دائیں بازو کے سیاستدانوں اور ان کے شریک صحافیوں نے خوب دولت کمائی۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگا جب کہ ان کے سرپرستوں سمیت وفاقی اور صوبائی رہنمائوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اقتدار کی بہتی گنگا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ 1988 سے 1999 تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی دونوں حکومتوں میں کرپشن کو اہم مسئلہ نہیں سمجھا گیا لیکن بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور ان کے قریبی عزیزوں کے بارے میں کرپشن کے الزامات سامنے آتے رہے۔
کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھیوں کی کرپشن کا اظہار ان کے لواحقین کی خوش حال زندگیوں سے ہوتا ہے مگر ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہوا۔ منتخب حکومتیں 1988 سے اقتدار میں آئیں وہ بھی اس بارے میں خاموش رہیں، یہی صورتحال جنرل پرویز مشرف کے دور کی ہے۔ جنرل مشرف کا قیام لندن اور دبئی کے امراء کے علاقوں میں ولاز میں ہے، انھوں نے لاکھوں پونڈ کی ضمانت ظاہر کرکے برطانیہ میں قیام کا پرمٹ حاصل کیا ہے۔یوں ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں ہوئی ۔ ایسی ہی صورتحال عدلیہ کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ملک میں غربت کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے، ریاست اپنے محدود وسائل کی بنا پر فلاحی اسکیموں پر توجہ نہیں دے سکی اور جو فلاحی اسکیمیں شروع کی جاتی ہیں وہ کرپشن کی بنا پر موثر نتائج کی حامل نہیں ہوتیں۔ تجزیہ نگار ہما یوسف کا کہنا ہے کہ بنیادی بات یہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ریاست کی اعلیٰ ترین سطح سے لے کر ادارے تک کی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی، اس کے ساتھ عوام کے جاننے کے حق Right to know کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوگا، عوام کے جاننے کے حق کے ذریعے تبدیل ہونے والی رائے عامہ ہی ریاستی اداروں کی شفافیت کو یقینی بنائے گی۔