شفاف انتخابات مگرکیسے
حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اب بھارت کو ایک دوست ملک کے طور پر دیکھنا پسند کرتے ہیں
مولانا کوثر نیازی مرحوم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جماعت اسلامی سے کیا، پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر اطلاعات اور پیپلزپارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری بھی رہے، مارچ 1977میں بھٹو صاحب نے قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے فیصلہ کن اکثریت حاصل کی تاہم اپوزیشن اتحاد پی این اے نے نتائج مسترد کرتے ہوئے ملک گیر تحریک کا آغاز کر دیا۔ مولانا کوثر نیازی نے سن 77کے انتخابات سے جنرل ضیاء الحق کے اقتدار حاصل کرنے تک کی تفصیلات اپنی کتاب ''اور لائن کٹ گئی'' میں تحریر کی ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ:
''اس وقت تک مسٹر بھٹو کا آپریشن وکٹری نامی منصوبہ میرے علم میں نہ تھا۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ وہ بسا اوقات کسی بھی ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی تک سے براہ راست معلومات حاصل کرتے تھے۔ لیکن مجھے اس کا کوئی علم نہ تھا کہ انتخابات میں رگنگ (دھاندلی) کا کوئی طے شدہ منصوبہ بھی راؤ رشید اینڈ کمپنی وضع کر چکی تھی۔ یہ پس منظر کے لوگ تھے اور ہم پیش منظر میں سیاسی جنگ سیاسی طریقوں کے مطابق لڑ رہے تھے۔ انتخابات میں رگنگ کا سب سے پہلا انکشاف مجھ پر 7 مارچ کے دو ہی روز بعد اس وقت ہوا جب پی این اے اپنا ایجی ٹیشن شروع کر چکی تھی، اس نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ ایک شام پی ایم ہاؤس میں وزیر اعظم بھٹو، میں، حفیظ پیرزادہ، رفیع پاشا اور ایک دو اور احباب موجود تھے کہ وزیر اعظم نے پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوئے۔
''حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہو گی؟''
''سر... تیس سے چالیس تک'' حفیظ نے مختصر جواب دیا۔
''کیا ہم پی این اے والوں سے یہ بات نہیں کر سکتے کہ وہ اتنی سیٹوں پر اپنے نمایندے کامیاب کرا لیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے؟''
''وزیر اعظم کی بات سن کر میرا کیا حال تھا؟ بس اتنا جان لیں کہ میں ان کے چہرے کی طرف دیکھتے کا دیکھتا ہی رہ گیا اور اپنے آپ کو اچانک ہی بہت بے خبر اور احمق سا محسوس کرنے لگا۔''
ظاہر ہے کوثر نیازی مرحوم کو حیرت تو ہوئی ہو گی، اس لیے کہ پیپلزپارٹی اپنے آپ کو آج بھی جمہوریت پسند جماعت قرار دیتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس دور میں جس طرح جمہوری ضابطوں اور انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس اقتباس کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں انتخابات میں دھاندلی کوئی نئی بات نہیں۔ بھٹو صاحب کے بعد گیارہ سالہ طویل فوجی دور ملک کا نصیب ٹھہرا۔ ضیاء الحق کے بعد اچانک آئی جے آئی وجود میں لائی گئی۔ آ ئی جے آئی کیوں، کیسے اور کن مقاصد کے لیے تشکیل دی گئی اس حوالے سے اب اتنا کچھ سامنے آ چکا ہے کہ تفصیلات کی ضرورت نہیں۔ اگلے بارہ سال تک ملک میں کبھی بی بی اور کبھی شریفوں کی حکومت بنتی اور ٹوٹتی رہی۔
اس دوران کبھی احتساب اور کبھی مقروض سیاستدانوں کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کا مطالبہ بھی ہوتا رہا۔ 1997 کے عام انتخابات میں ن لیگ نے اس قدر ہیوی مینڈیٹ حاصل کیا کہ میاں صاحب کے جیالے سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے اور پھر جنرل مشرف نواز حکومت پر۔ جنرل مشرف کے دور میں ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات کس قدر شفاف تھا اس کا اندازہ الیکشن کمیشن کے اس اعتراف سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2008کے عام انتخابات میں انتخابی فہرستوں میں شامل 45 فیصد یعنی ساڑھے تین کروڑ ووٹ بوگس تھے۔ یہ تو رہا پاکستان میں انتخابی عمل کی شفافیت کا احوال۔ اب ذرا پڑوسی بھارت کی بات کرتے ہیں جس کی تیز رفتار ترقی سے ہمارے سیاستدان بڑے متاثر ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اب بھارت کو ایک دوست ملک کے طور پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف تو اکثر اپنی تقریروں میں بھارت کی ترقی کی مثال دیتے ہیں اور اس کی وجہ وہ وہاں جمہوریت کے تسلسل کو قرار دیتے ہیں، لیکن شاید ان کے علم میں یہ بات نہیں کہ بھارت کا انتخابی نظام ہمارے مقابلے میں کس قدر شفاف ہے۔ رواں سال کے آغاز میں بھارت کے ریاستی انتخابات میں حکمران کانگریس، اپوزیشن بی جے پی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی تینوں ہی کو اتر پردیش میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس کے حصے میں403 میں سے محض 28 سیٹیں آئیں، اتر پردیش میں انتخابات کی خاص بات یہ تھی کے 70 سے زائد مسلمان ارکان بھی ریاستی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔ دراصل بھارت میں ووٹرز کو اب اپنی قوت کا اندازہ ہو چکا ہے اور شفاف انتخابی عمل کے باعث بڑی سیاسی جماعتیں بھارتی ووٹرز کے آگے مجبور ہیں۔ آئیے اب ایک نظر بھارت میں عام انتخابات کے طریقہ کار پر ڈالتے ہیں۔
1۔ بھارتی لوک سبھا میں نشستوں کی تعداد 543 ہے جب کہ ووٹرز کی کل تعداد 714 ملین ہے، انتخابات عموماً پانچ مراحل میں ہوتے ہیں۔
2۔ 2009کے عام انتخابات میں ووٹرز ٹرن آؤٹ 60 فیصد تھا، جب کہ پاکستان میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بمشکل 30 سے 40 فیصد ہوتا ہے اور اس میں بھی تقریباً آدھے ووٹ بوگس ہوتے ہیں۔
3۔ بھارت میں عام انتخابات میں دھاندلی سے بچنے کیلیے اب الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) کا استعمال ہو رہا ہے۔ ووٹرز ا ب روایتی طریقہ کار کے بجائے الیکٹرونک مشین کے ذریعے ووٹ ڈالتے ہیں، اس مشین کا استعمال اس قدر سادہ ہے کہ ان پڑھ ووٹر بھی صرف ایک نیلے رنگ کا بٹن دبا کر اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ ڈال دیتا ہے اور ووٹنگ کے اختتام پر جیسے ہی نتائج کا بٹن دبایا جاتا ہے تو مشین ہر امیدوار کے حصے میں آنے والے ووٹس کی تعداد بتا دیتی ہے۔ بھارت میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مشین کے استعمال کے بعد سے انتخابات میں دھاندلی کے امکانات ختم اور انتخابی عمل ماضی کے مقابلے میں زیادہ آسان اور تیز رفتار ہو گیا ہے۔
4۔ انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کے جانب سے مبصرین کی بڑی تعداد انتخابی عمل کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ مبصرین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ غیر جمہوری ہتھکنڈے انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہوں۔
5۔ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کیلیے خصوصی الیکٹورل کارڈز جاری کیے جاتے ہیں، یہ کارڈز شناخت کا کام دیتے ہیں، اس طرح کوئی شخص کسی دوسرے کا ووٹ نہیں ڈال سکتا۔
6۔ بھارتی الیکشن کمیشن اب نو ووٹ (ووٹ نہیں) کا آپشن متعارف کرانے پر بھی غور کر رہا ہے۔ اس آپشن کے تحت ووٹر ووٹ تو ڈالے گا مگر اس کا ووٹ کسی امیدوار کے حق میں نہیں بلکہ ان سب پر اظہار عدم اعتماد ہو گا۔
یہ تو ایک روب سے زائد آبادی والے پڑوسی ملک کا حال ہے، مگر پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے انعقاد میں زیادہ سے زیادہ6ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے، چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم شفاف انتخابات کے انعقاد کے دعوے تو کر رہے ہیں مگر عملًا وہ ایک بھی ایسا ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکے جس سے ووٹر یقین کر سکیں کہ ہمارا ووٹ کوئی اور نہیں ڈال سکے گا۔
''اس وقت تک مسٹر بھٹو کا آپریشن وکٹری نامی منصوبہ میرے علم میں نہ تھا۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ وہ بسا اوقات کسی بھی ضلع کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی تک سے براہ راست معلومات حاصل کرتے تھے۔ لیکن مجھے اس کا کوئی علم نہ تھا کہ انتخابات میں رگنگ (دھاندلی) کا کوئی طے شدہ منصوبہ بھی راؤ رشید اینڈ کمپنی وضع کر چکی تھی۔ یہ پس منظر کے لوگ تھے اور ہم پیش منظر میں سیاسی جنگ سیاسی طریقوں کے مطابق لڑ رہے تھے۔ انتخابات میں رگنگ کا سب سے پہلا انکشاف مجھ پر 7 مارچ کے دو ہی روز بعد اس وقت ہوا جب پی این اے اپنا ایجی ٹیشن شروع کر چکی تھی، اس نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ ایک شام پی ایم ہاؤس میں وزیر اعظم بھٹو، میں، حفیظ پیرزادہ، رفیع پاشا اور ایک دو اور احباب موجود تھے کہ وزیر اعظم نے پیرزادہ کی طرف دیکھا اور گویا ہوئے۔
''حفیظ کتنی سیٹوں پر گڑ بڑ ہوئی ہو گی؟''
''سر... تیس سے چالیس تک'' حفیظ نے مختصر جواب دیا۔
''کیا ہم پی این اے والوں سے یہ بات نہیں کر سکتے کہ وہ اتنی سیٹوں پر اپنے نمایندے کامیاب کرا لیں ہم ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے؟''
''وزیر اعظم کی بات سن کر میرا کیا حال تھا؟ بس اتنا جان لیں کہ میں ان کے چہرے کی طرف دیکھتے کا دیکھتا ہی رہ گیا اور اپنے آپ کو اچانک ہی بہت بے خبر اور احمق سا محسوس کرنے لگا۔''
ظاہر ہے کوثر نیازی مرحوم کو حیرت تو ہوئی ہو گی، اس لیے کہ پیپلزپارٹی اپنے آپ کو آج بھی جمہوریت پسند جماعت قرار دیتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس دور میں جس طرح جمہوری ضابطوں اور انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس اقتباس کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہاں انتخابات میں دھاندلی کوئی نئی بات نہیں۔ بھٹو صاحب کے بعد گیارہ سالہ طویل فوجی دور ملک کا نصیب ٹھہرا۔ ضیاء الحق کے بعد اچانک آئی جے آئی وجود میں لائی گئی۔ آ ئی جے آئی کیوں، کیسے اور کن مقاصد کے لیے تشکیل دی گئی اس حوالے سے اب اتنا کچھ سامنے آ چکا ہے کہ تفصیلات کی ضرورت نہیں۔ اگلے بارہ سال تک ملک میں کبھی بی بی اور کبھی شریفوں کی حکومت بنتی اور ٹوٹتی رہی۔
اس دوران کبھی احتساب اور کبھی مقروض سیاستدانوں کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کا مطالبہ بھی ہوتا رہا۔ 1997 کے عام انتخابات میں ن لیگ نے اس قدر ہیوی مینڈیٹ حاصل کیا کہ میاں صاحب کے جیالے سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑے اور پھر جنرل مشرف نواز حکومت پر۔ جنرل مشرف کے دور میں ہونے والے بلدیاتی اور عام انتخابات کس قدر شفاف تھا اس کا اندازہ الیکشن کمیشن کے اس اعتراف سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2008کے عام انتخابات میں انتخابی فہرستوں میں شامل 45 فیصد یعنی ساڑھے تین کروڑ ووٹ بوگس تھے۔ یہ تو رہا پاکستان میں انتخابی عمل کی شفافیت کا احوال۔ اب ذرا پڑوسی بھارت کی بات کرتے ہیں جس کی تیز رفتار ترقی سے ہمارے سیاستدان بڑے متاثر ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اب بھارت کو ایک دوست ملک کے طور پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف تو اکثر اپنی تقریروں میں بھارت کی ترقی کی مثال دیتے ہیں اور اس کی وجہ وہ وہاں جمہوریت کے تسلسل کو قرار دیتے ہیں، لیکن شاید ان کے علم میں یہ بات نہیں کہ بھارت کا انتخابی نظام ہمارے مقابلے میں کس قدر شفاف ہے۔ رواں سال کے آغاز میں بھارت کے ریاستی انتخابات میں حکمران کانگریس، اپوزیشن بی جے پی اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی تینوں ہی کو اتر پردیش میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس کے حصے میں403 میں سے محض 28 سیٹیں آئیں، اتر پردیش میں انتخابات کی خاص بات یہ تھی کے 70 سے زائد مسلمان ارکان بھی ریاستی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب رہے۔ دراصل بھارت میں ووٹرز کو اب اپنی قوت کا اندازہ ہو چکا ہے اور شفاف انتخابی عمل کے باعث بڑی سیاسی جماعتیں بھارتی ووٹرز کے آگے مجبور ہیں۔ آئیے اب ایک نظر بھارت میں عام انتخابات کے طریقہ کار پر ڈالتے ہیں۔
1۔ بھارتی لوک سبھا میں نشستوں کی تعداد 543 ہے جب کہ ووٹرز کی کل تعداد 714 ملین ہے، انتخابات عموماً پانچ مراحل میں ہوتے ہیں۔
2۔ 2009کے عام انتخابات میں ووٹرز ٹرن آؤٹ 60 فیصد تھا، جب کہ پاکستان میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بمشکل 30 سے 40 فیصد ہوتا ہے اور اس میں بھی تقریباً آدھے ووٹ بوگس ہوتے ہیں۔
3۔ بھارت میں عام انتخابات میں دھاندلی سے بچنے کیلیے اب الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم ) کا استعمال ہو رہا ہے۔ ووٹرز ا ب روایتی طریقہ کار کے بجائے الیکٹرونک مشین کے ذریعے ووٹ ڈالتے ہیں، اس مشین کا استعمال اس قدر سادہ ہے کہ ان پڑھ ووٹر بھی صرف ایک نیلے رنگ کا بٹن دبا کر اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ ڈال دیتا ہے اور ووٹنگ کے اختتام پر جیسے ہی نتائج کا بٹن دبایا جاتا ہے تو مشین ہر امیدوار کے حصے میں آنے والے ووٹس کی تعداد بتا دیتی ہے۔ بھارت میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مشین کے استعمال کے بعد سے انتخابات میں دھاندلی کے امکانات ختم اور انتخابی عمل ماضی کے مقابلے میں زیادہ آسان اور تیز رفتار ہو گیا ہے۔
4۔ انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کے جانب سے مبصرین کی بڑی تعداد انتخابی عمل کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ مبصرین اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ غیر جمہوری ہتھکنڈے انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہوں۔
5۔ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کیلیے خصوصی الیکٹورل کارڈز جاری کیے جاتے ہیں، یہ کارڈز شناخت کا کام دیتے ہیں، اس طرح کوئی شخص کسی دوسرے کا ووٹ نہیں ڈال سکتا۔
6۔ بھارتی الیکشن کمیشن اب نو ووٹ (ووٹ نہیں) کا آپشن متعارف کرانے پر بھی غور کر رہا ہے۔ اس آپشن کے تحت ووٹر ووٹ تو ڈالے گا مگر اس کا ووٹ کسی امیدوار کے حق میں نہیں بلکہ ان سب پر اظہار عدم اعتماد ہو گا۔
یہ تو ایک روب سے زائد آبادی والے پڑوسی ملک کا حال ہے، مگر پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے انعقاد میں زیادہ سے زیادہ6ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے، چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم شفاف انتخابات کے انعقاد کے دعوے تو کر رہے ہیں مگر عملًا وہ ایک بھی ایسا ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکے جس سے ووٹر یقین کر سکیں کہ ہمارا ووٹ کوئی اور نہیں ڈال سکے گا۔