دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

موبائل ایس ایم ایس کی وجہ سے ایڈز کے مریضوں کے علاج معالجے میں بہت بہتری آئی ہے۔


Nighat Farman December 18, 2012

سائنس کی عظیم ایجادات نے انسانی زندگی کو پر آسائش بنایا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ ان ایجادات سے جو نقصانات ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں ان پر بحث و مباحثہ بھی جاری ہے اور تحقیق بھی۔ دور جدید کی ایجادات میں اگر یہ کہا جائے کہ سیلولر فون سب سے زیادہ انسانی استعمال میں ہے، اس نے جہاں رابطوں کی دنیا ہی بدل ڈالی ہے وہاں نت نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

خیر یہ الگ بحث ہے۔ موبائل فون کے ڈیٹا پر تحقیق اور نظر رکھنے والی عالمی شہرت یافتہ نیٹ ورک کمپنی ''سسکو'' کے مطابق رواں سال 2012 میں دنیا بھر میں انسانوں سے زیادہ سیلولر فونز ہوں گے، کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ 2000میں جب سیلولر فونز کا ابتدائی دور تھا اور یہ ہر کسی کے استعمال میں نہیں تھا اس وقت سے 2011 تک موبائل ٹریفک میں آٹھ گنا اضافہ ہو گیا ہے، کمپنی نے پیش گوئی کی ہے کہ 2016تک موبائل فون سے منسلک ہونے والے آلات دس بلین تک پہنچ جائیں گے جس میں ہر سال 130 ایگزابائٹس کا ڈیٹا موجود ہو گا۔

اس وقت ایک موبائل فون 150 میگا بائٹس ماہانہ استعمال کرتا ہے، لیکن 2016 میں ایک اسمارٹ فون 2.6 گیگا بائٹس استعمال کرے گا، موبائل فون ٹریفک میں اضافے کی وجہ ''ٹیبلٹ'' ہے جوکہ ہر اسمارٹ فون سے زیادہ ٹریفک استعمال کرتا ہے۔ گزشتہ سال ''ٹیبلٹ'' کے استعمال میں تیزی آئی ہے اور اس کا استعمال تین گنا بڑھ کر 34 ملین پر پہنچ گیا ہے۔ جیسے ابتدا میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ سائنسی ایجادات سے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے ایک سڑک پر اگر 50 مزدور کھدائی کرتے تھے، اب ایک چھوٹی مشین یہ کام کر سکتی ہے، لیکن سرِ دست یہ بھی الگ موضوع ہے، ہم اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں، موبائل فون آنے کی وجہ سے کیمروں کی فروخت شدید متاثر ہوئی ہے۔

اس لیے کہ اب تقریباً ہر موبائل فون کیمرہ بلکہ ویڈیو کیمرہ اور وائس ریکارڈر سے لیس ہے۔ امریکا میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق گزشتہ 11 ماہ میں ڈیجیٹل کیمروں کے 17 فیصد یونٹ کم فروخت ہوئے۔ سروے کرنے والی مشہور کمپنی این ڈی پی نے نوجوانوں سے کیے گئے سروے میں بتایا ہے کہ اب نوجوان اپنی زندگی کے اہم دن، لمحات یادگار بنانے کے لیے اپنا موبائل فون ہی استعمال کرتے ہیں۔ این ڈی پی نے انکشاف کیا ہے کہ کیمرے سے لی جانے والی تصاویر میں پچاس فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ پورے سال میں بیشتر لوگوں نے 44 فیصد فوٹو اپنے کیمروں سے کھینچے جب کہ گزشتہ برس یہ 52 فیصد تھی۔ اس طرح موبائل فون سے تصویر کشی میں 27 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمارٹ فون سے تصویر کشی کر کے اسے سوشل نیٹ ورک پر منتقل کرنا کیمرے کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ موبائل فون کی وجہ سے رابطوں کی دنیا تو بے حد آسان ہو گئی ہے لیکن یہ ہمارے لیے نئے مسائل کا باعث بھی بنے ہیں۔ امریکا میں ہی کیے گئے ایک سروے میں ہر تین میں سے ایک شخص سڑک عبور کرتے ہوئے موبائل فون پر بات کرتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ ''انجری پری ونشن'' نامی تحقیقی جریدے کے جائزے کے مطابق سڑک پر چلنے والے ایک ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا، جس میں سے دس فیصد لوگ اپنے موبائل فون پر گانے سن رہے تھے، سات فیصد میسیج اور چھ فیصد لوگ بات کرتے پائے گئے رپورٹ کے مطابق چلتے چلتے موبائل فون پر پیغامات لکھنے والے افراد چار فیصد تھے جنہوں نے سرخ بتی کو نظرانداز کیا تھا، سڑک عبور کرتے ہوئے گانا سننے والے بھی اکثر اتنے محو پائے گئے کہ انھوں نے اپنے آس پاس دیکھا تک نہیں۔

''رائل سوسائٹی فار دی پری ونشن آف ایکسیڈنٹ'' کی کوئین کلنٹن کا کہنا ہے کہ چلتے وقت سڑک پر نظر رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کار ڈرائیور کرتے ہوئے۔ کار چلاتے وقت سڑک عبور کرتے وقت فون پر بات کرنا، میسیج لکھنا یا گانے سننا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس لیے کہ یہ آپ کا دھیان تقسیم کر دیتا ہے اور آپ حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ ٹرانسپورٹ کے مطابق 2011میں ان کی وجہ سے حادثات میں پانچ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کوئی بھی سائنسی ایجاد اپنے تئیں نقصان دہ نہیں ہوتی اس کا بے جا استعمال اسے ضرر رساں بناتا ہے۔ ملاوی جیسے ملک میں موبائل ایس ایم ایس فلاحی کاموں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملاوی جو اپنی خوبصورت اور صاف پانی کی جھیلوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے وہیں ایچ آئی وی ایڈز جیسی بیماریوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ جہاں پر دنیا میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ لوگ بستے ہیں۔

ملک کی 11 فیصد بالغ آبادی ایچ آئی وی ایڈز جیسے موذی مرض کا شکار ہے۔ تقریباً سوا لاکھ معصوم بچے اس عفریت کا نشانہ بنے ہیں۔ اگر ٹیسٹ میں کوئی بچہ ایچ آئی وی پازیٹیو پایا جائے تو اس کا علاج بھی فوری طور پر شروع کرنا پڑتا ہے۔ تاہم دور دراز علاقوں میں مواصلاتی نظام کی کمی کے سبب اس کے علاج میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ ملاوی میں ایڈز ٹیسٹ کرنے والی لیب کی شدید کمی ہے۔ اس ٹیسٹ میں مہینوں لگ سکتے ہیں، اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اور معلومات کو تیزی سے پہنچانے کے لیے اقوام متحدہ کے مشن نے موبائل ایس ایم ایس کا سہارا لیا ہے۔ یونیسیف کی ایک اسپیشل ٹیم نے ریپڈ ایس ایم ایس کے نام سے ایک پروگرام تیار کیا ہے۔ اس سے پہلے ساری معلومات جمع کی جاتی ہیں اور پھر اسے بڑے گروپ کے ماہرین تک پہنچایا جاتا ہے۔ موبائل ایس ایم ایس کی وجہ سے ایڈز کے مریضوں کے علاج معالجے میں بہت بہتری آئی ہے اور ماہرین مریض کے متعلق ایس ایم ایس پر رابطے میں رہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں