شام قومی مفاہمت اور دہشت گردی کے درمیان

حماس نے واضح کردیا ہے کہ وہ اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اوراس موقف کی تائید کرنے والا تنہا عرب ملک شام ہے۔

سیاسی نما چہروں کے علاوہ ایک فری سیرین آرمی (الجیش السوری الحر) بھی 27 جولائی 2011 سے شام میں دہشت گردی میں مصروف ہے۔ شام کے اعلیٰ سطح کے فوجی افسران، سیاستدان، دیگر عہدوں پر کام کرنے والے اہم افراد اور ان کے رشتے داروں سمیت عام شہریوں کو ہدف بنا کر قتل کیا جا چکا ہے۔ 25 اگست 2012 کو برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ شام میں دہشت گردی کے لیے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے برطانوی نژاد نوجوانوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔ ان نوجوانوں یا ان کے آبائو اجداد کا اصل تعلق پاکستان، سوڈان اور افغانستان سے ہے۔

سال 2010میں ایک امریکی اخبار میں خبر شایع ہوئی تھی کہ امریکا میں مقیم عربوں اور ایرانیوں کو امریکی سی آئی اے اپنے مقاصد کے لیے بھرتی کر رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے 28 ستمبر 2012 کو نیویارک میں نام نہاد فرینڈز آف سیریا کے اجلاس میں شام میں دہشت گردی کے لیے مزید ساڑھے چار کروڑ ڈالر اضافی رقم مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکا پہلے ہی کمیونیکیشن آلات کی خریداری کے لیے دہشت گردوں کو ڈھائی کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کر چکا ہے۔ فرانس کے صدر فرانکوس ہولینڈ نے فرانس 24 چینل اور ٹی وی 5 مونڈے چینل کو اکتوبر میں د یے گئے انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ شام کے دہشت گردوں میں فرانسیسی شہری بھی شامل ہیں۔

شام کی حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی کثیر تعداد کا تعلق مصر، الجزائر، سعودی عرب اور افغانستان سے ہے۔ بی بی سی کے شام میں مقیم نمایندے کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک اسلحہ ساز کمپنی نے سعودی عرب کے لیے جو اسلحہ روانہ کیا تھا، وہ شام میں دہشت گردی کرنے والے گروہ کے اڈے پر پہنچ گیا ہے۔ شامی وزیر خارجہ ولید معلم کے مطابق شام کے خلاف سازشوں میں قائدانہ کردار امریکا کا ہے۔

شام کے اندر بھی اپوزیشن کے کئی گروہ موجود ہیں اور آزادانہ اپنی پر امن سیاسی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک نکتہ عرض کر دیں کہ وہ اسی طرح کی جماعتیں ہیں جیسے کسی بھی ملک میں اپوزیشن جماعتیں ہوتی ہیں۔ ان کی جانب سے قومی مکالمے کا عمل جاری ہے۔ الجبھتہ الوطنیہ التقدیمیہ یعنی نیشنل پروگریسیو فرنٹ ایک بڑا سیاسی اتحاد ہے۔ اس میں دس ایسی پارٹیاں شامل ہیں جو عرب قوم پرستی اور سوشلسٹ نظریات کی حامل ہیں۔ ان جماعتوں نے تھک ہار کر اکتوبر کے مہینے میں ''سیاسی مکالمہ اور قومی مفاہمت: استحکام و سلامتی کا راستہ'' کے عنوان سے دو روزہ کانفرنس منعقد کی تھی۔ نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی فار ڈیمو کریٹک چینج بھی سرگرم عمل ہے اور اس کے رہنما ہیثم منّا نے حال ہی میں شام کے مسئلے پر ایران کا دورہ کیا ہے۔


شام کے علوی صدر بشار الاسد کے حوالے سے یہ بات یاد رہے کہ وہ ایک سیکولر ذہنیت کے قوم پرست عرب رہنما ہیں۔ ان کی بیوی شام کے ایک سنی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ شام کے مفتی اعظم شیخ احمد بدرالدین حسون بھی ایک سنی عالم ہیں اور وہ بھی بشارالاسد اور ان کی حکومت کے کٹر حامی ہیں۔ لہذا شام کے واقعات کو کسی اور پس منظر میں دیکھنا یا پیش کرنا حقیقت کے منافی ہے۔ مفتی اعظم حسون نے خبردار کیا ہے کہ جمہوریت اور آزادی کی آڑ میں امریکا، یورپ اور دیگر ممالک جو کھیل کھیل رہے ہیں، یہ برڈ فلو کی بیماری کی طرح ہے جو ان ممالک تک بھی پھیل جائے گی۔ یہ بات درست ثابت ہوئی۔ لبنان کے سیاستدان رفعت عید کے مطابق اب لبنانی فوج لبنان کے شہر تریپولی میں فری سیرین آرمی سے لڑ رہی ہے۔ شامی حکومت نے لبنان کے سعد حریری، عقاب سکر اور دیگر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں اور انٹرپول سے رابطہ بھی کر لیا ہے۔

بشار الاسد کی وسیع عوامی حمایت کا ثبوت شام کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہونے والے مظاہرے اور ان میں عوام کی اکثریت کی شرکت ہے۔ یہی نہیں بلکہ تیونس، مصر، اردن، لبنان، یونان، اور ایران سمیت کئی ممالک کی عوامی اور مزاحمتی تنظیموں نے بھی شام کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مقبوضہ فلسطین میں کمیٹی برائے یکجہتی شام نے اسرائیلی مخالفت کے باوجود شام کی حکومت اور بشار الاسد کی حمایت میں مظاہرے کیے ہیں۔ آسٹریلیا اور بھارت کے شہریوں کے علاوہ بیرونی ممالک میں مقیم شامی شہریوں، عربوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد کے حامیوں نے بھی بشار الاسد سے یکجہتی کے اظہار کے لیے اجتماعات اور مظاہرے کیے ہیں۔ شام کے خلاف سازش کرنے والے ترکی کی حالت یہ ہے کہ وہاں مسلمان خواتین کو اسلامی حجاب کے لیے کئی مرتبہ سڑکوں پر آ کر مظاہرے کرنا پڑے ہیں۔

انقرہ اور استنبول سمیت کئی شہروں میں رجب طیب اردگان کی شام کے بارے میں پالیسی کے خلاف مظاہرے کیے جا چکے ہیں۔ ترکی کے اپوزیشن رہنما بھی اردگان کی شام پالیسی کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ترکی کے اخبار آء ڈینلیک نے انکشاف کیا کہ اردگان حکومت نے شام میں دہشت گردی کی تربیت کے لیے ریٹائرڈ بریگیڈیئر ادنان تنیرا وردی کی سربراہی میں ڈیفینس کمپنی فار انٹر نیشنل ایڈوائزری اینڈ کنسٹرکشن قائم کی ہے۔ آسٹریا کے اخبار ڈائی پریس، امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور دیگر کئی اخبارات یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ ترکی، قطر اور سعودی عرب شام میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ترکی واحد غیر عرب مسلمان ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔

مصر کے صدر مرسی نے بھی تا حال اسرائیل سے روابط منقطع نہیں کیے ہیں بلکہ وہ اسرائیل کے صدر شمعون پیریز کو تل ابیب میں نئے مصری سفیر کی تقرری کا خط بھی لکھ چکے ہیں۔ ان حالات میں لبنان کے معروف مارونی عیسائی سیاستدان مشعل عون کا یہ تبصرہ درست لگتا ہے کہ در حقیقت شام وہ واحد ملک ہے جو جمہوریت کی طرف گامزن ہے جب کہ وہ عرب حکومتیں جو شامی حکومت کو گرانا چاہتی ہیں، ان میں جمہوریت کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ خود متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین، قطر اور دیگر بادشاہتیں پر امن جمہوری جدوجہد کو کس طرح کچل رہی ہیں، پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہے۔

یہ ایک کھلی اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شام کو صہیونیت اور اسرائیل کی عملی مخالفت اور فلسطین اور لبنان کی قومی، اسلامی اور عرب مزاحمت کی عملی مدد و معاونت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ افسوس ہے کہ ایک ہی عرب ملک نے فلسطین اور لبنان پر اسرائیلی حملوں اور جنگ کے خلاف عربوں اور مسلمانوں کا ساتھ دیا اور اسی کے خلاف نام نہاد مسلمان حکمران امریکا کی محبت میں اسرائیلی جنگ اور سازشوں کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عرب اور مسلمان عوام کی غالب اکثریت اور ان کی نمایندہ تنظیمیں شام کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ رہ گئی حماس، تو خالد مشعل نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے اور اس موقف کی تائید کرنے والا تنہا عرب ملک شام ہے۔
Load Next Story