میر ِستار نوازی پنڈت روی شنکر۔۔۔۔ ایک یاد
پنڈت روی شنکر نے دو تین گھنٹے تک حاضرین و سامعین کو ستار کی خوبصورت دُھنوں سے مسحور و مبہوت رکھا۔
پنڈت روی شنکر انتقال کر گئے۔ اُن کی عمر 92 سال تھی۔ صبح گھر سے نکل رہا تھا کہ ایک ٹی وی چینل نے ٹِکر (Ticker) چلا دیا۔ سیاق و سباق میں کچھ نہ تھا۔ نیوز پروڈیوسر نے غالباً سوچ لیا تھا کہ پٹی دیکھنے والوں کو معلوم ہو گا کہ روی شنکر برصغیرِ کے نامور اور بے بدل ستار نواز تھے اور اگر نہیں معلوم تو مرکھپ کے خود ہی پتہ کر لیں گے۔ اتفاق ہے کہ میری برسوں پہلے کی اپنی ایک خوبصورت یاد پنڈت روی شنکر سے وابستہ ہے اس لیے مَیں نے خبر کا کچھ زیادہ ہی اثر لیا۔
مَیں موسیقی یا آلاتِ موسیقی کا نقاد یا ماہر نہیں اور نہ اس میں کوئی درک ہے۔ بس اچھی موسیقی کانوں کو بھلی لگتی ہے اور پھر رس گھولتی دل و دماغ میں اُترتی چلی جاتی ہے۔ پچاس کے عشرے کے اواخر اور ساٹھ کے عشرے کے اوائل کا زمانہ لیں تو تب صرف ریڈیو پاکستان اور بھارتی ریڈیو آکاش وانی ہی تھے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے حوالے سے آج کے ''گلوبل ولیج'' (Global Village) کا تصور تک نہ تھا۔ اسی زمانے میں آکاش وانی یا آل انڈیا ریڈیو سے روی شنکر کی مسحور کن ستار نوازی کا آغاز ہوتا ہے۔
مَیں 1964 میں راولپنڈی سے گریجویشن اور پیشۂ صحافت سے وابستگی کے بعد شہر شہر گھومتا کراچی آیا اور یہاں سے 1967 میں بحیثیت اردو مترجم، حکومتِ چین کی دعوت پر وہاں جانے کا سلسلہ شروع ہوا جو وقفے وقفے سے 1989 تک جاری رہا۔ اس میں دس برس کا عرصہ ایسا بھی تھا جب چین ثقافتی انقلاب کے ''شکنجے'' میں تھا۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ چین کی ثقافتی سرگرمیاں خال خال تھیں۔ چیئرمین مائوزے تنگ کی تحریروں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ اور اشاعت انتہائی ترجیحی بنیادوں پر ہو رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ کہ ہندوستان کے ساتھ چین کے تعلقات، جو 1962کی ہندوستان، چین سرحدی جھڑپوں کے بعد سے کشیدہ چلے آ رہے تھے، کی وجہ سے ہندی اور بنگالی زبانوں کے لیے مترجم ہندوستان سے نہیں آ پا رہے تھے اور ''پیکنگ یونیورسٹی، ریڈیو پیکنگ، چین باتصویر اور غیرملکی زبانوں کے اشاعت گھر'' کی یہ ضرورت بھی پاکستان ہی پوری کر رہا تھا۔
اس تحریر کا بنیادی یا مرکزی خیال موسیقی، بنگال اور روی شنکر کے گرد گھومتا ہے۔ لہٰذا، اپنے وقت کے معروف و ممتاز صحافی اور ادیب ایم جے زاہدی کا ذِکر کیے بغیر بات نہیں بنتی۔ اپنے پورے نام محبوب جمال زاہدی کے ساتھ وہ بہت سے لوگوں کے لیے اجنبی تھے۔ ہر کوئی انھیں ایم جے زاہدی کے نام ہی سے جانتا تھا اور آج پیشے سے وابستہ نسل ایم جے زاہدی ہی کیا، بہت سے پرانے لوگوں سے بھی ناواقف ہے۔ وہ بنگالی تھے لیکن کراچی میں رچ بس گئے تھے۔ رائٹرز گلڈ کے اچھے زمانوں میں بڑے فعال رہے۔ ایک انگریزی اخبار سے وابستہ تھے۔ ''سقوطِ ڈھاکا'' کا پہاڑ ٹوٹا تو ایم جے زاہدی کو کِرچی کِرچی کر گیا۔ وہ ٹوٹ پھوٹ گئے لیکن اپنی ایک دھرتی کی جگہ اپنی ہی دوسری دھرتی نہ اپنانے کا اعصاب شکن فیصلہ کر گزرے۔
ان ہی دنوں کی بات ہے ریڈیو پیکنگ کو بنگالی شعبے کے لیے مترجم کی ضرورت تھی۔ ممتاز ادیب شوکت صدیقی مرحوم کے توسط سے جن کے چینیوں سے قریبی تعلقات تھے، ایم جے زاہدی پیکنگ چلے گئے کیوں کہ ایسے حالات میں کراچی میں رہنا بھی اُن کے لیے آسان نہ تھا۔ میرے اور اُن کے قریبی ساتھ کا آغاز اُس وقت ہوا جب چینیوں نے 1972 میں مجھے دوسری بار بلایا۔ میری آمدنی کا اچھا خاصا حصہ پرانا کلاسیکی میوزک جمع کرنے میں خرچ ہو جاتا تھا۔ پیکنگ میں ایم جے زاہدی کا ایک نیا روپ سامنے آیا۔ وہ بنگالی تھے اور موسیقی اُن کی گھُٹی میں پڑی تھی۔ اُن کے پاس ریکارڈوں اور اسپول ٹیپس (Spool Tapes) کی صورت میں موسیقی کا نایاب کلیکشن تھا۔
اور یہ کلیکشن جتنا نایاب تھا اتنے ہی وہ اس کا کوئی حصہ کسی اور کو دینے کے حوالے سے ''کنجوس'' تھے۔ مجھے اُن سے یہ موسیقی (ریکارڈنگ) حاصل کرنے کے حوالے سے'' پتھر کو موم'' کرنے میں خاصا وقت لگا، وہ بھی اس شرط پر کہ وہ کوئی ریکارڈ یا ٹیپ مجھے دیں گے نہیں بلکہ مَیں اُن کے ہاں جا کر ریکارڈ کروں گا۔ ان کی رہائش خاصے فاصلے پر تھی۔ زاہدی صاحب دو سال پیکنگ میں رہ کر کراچی لوٹ آئے، یہاں سے خلیج ٹائمز میں چلے گئے۔ برسوں بعد کراچی لوٹے اور پھر کئی برس کی ''خاموشی'' کے بعد یہیں مٹی کے ساتھ مٹی ہو گئے، بنگلہ دیش نہ گئے۔
تذکرہ کچھ طویل ہو گیا، تاہم یہ موضوع کے تسلسل کی ایک کڑی تھا۔ 1975 میں مَیں بھی پاکستان لوٹ آیا۔ اُدھر رنگ بدلتے سیاسی حالات و واقعات کے نتیجے میں ہندوستان اور چین کے تعلقات کی برف پگھلنا شروع ہوئی۔ چین نے بھی ''ثقافتی انقلاب کا تنگ چولا'' اتارنا شروع کر دیا تھا۔ اب دوسرے ملکوں کے ساتھ اُس کے ثقافتی روابط بڑھ رہے تھے۔ مَیں 1977 میں تیسری بار چین بسیرے کو پہنچا تو ہندی اور بنگالی شعبوں کے لیے ہندوستان سے دو تین حضرات پیکنگ آ چکے تھے اور چند ایک کی آمد متوقع تھی۔ ان ہی میں ہمارے ایک بنگالی دوست نارائن سین دادا اور ہندی کے معروف مترجم ولبھ جانکی شامل تھے۔ دونوں سے آج تیس پینتیس سال گزرنے اور سرحدی دُوریوں کے با وصف دوستانہ قربتوں میں کمی نہیں آئی۔ کوئی بنگالی ہو اور موسیقی سے لگائو نہ رکھتا ہو، یہ ممکن نہیں اور سین دادا سے قربتوں میں اِس ہم آہنگی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔
1979 کے اواخر یا 1980 کے اوائل کی بات ہے۔ ایک دن ہمارے اُردو شعبے کے چینی ساتھیوں نے بتایا کہ ہندوستان کے معروف ستار نواز پنڈت روی شنکر چین آ رہے ہیں اور ان کا پروگرام گریٹ ہال میں ہو گا۔ گریٹ ہال چین کی اُن دس عظیم عمارتوں میں سے ہے جو 1949 میں حاصل ہونے والی آزادی کی دسویں سالگرہ یعنی 1959 میں دس مہینوں میں تیار کی گئی تھیں۔ وسیع و عریض گیلریوں سمیت اس ہال میں پانچ ہزار نشستیں ہیں۔ روی شنکر کے پروگرام والے دن یہ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہم چونکہ ''غیرملکی'' تھے اس لیے ہمیں اسٹیج سے قریب کی نشستوں پر جگہ دی گئی۔ پنڈت روی شنکر کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ لہٰذا، ہندوستانی سفارت خانے کے لوگ بھی بڑے اہتمام سے آئے تھے۔
پنڈت روی شنکر نے دو تین گھنٹے تک حاضرین و سامعین کو ستار کی خوبصورت دُھنوں سے مسحور و مبہوت رکھا۔ اب ایک ڈرامائی موڑ آیا۔ جو نہی پروگرام ختم ہوا، ہندوستانی سفارت خانے کے ایک رکن، ایک آڈیوکیسٹ لیے اسٹیج پر پہنچے، روی شنکر کو مخاطب کرتے ہوئے احتراماً جھک کر کیسٹ ان کی طرف بڑھایا اور بولے، مَیں نے اِس میں آپ کا یہ پروگرام ریکارڈ کر لیا ہے۔ براہ مہربانی، اس پر اپنے آٹوگراف دے دیں۔ عمومی حالات میں یہ کسی فنکار کے لیے خوشی کی بات تھی لیکن پنڈت روی شنکر کے چہرے پر ایک جلال سا اُمڈ آیا اور بولے؛ ''پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ میری اجازت کے بغیر آپ نے یہ پروگرام ریکارڈ کیسے کر لیا؟ آپ کو کاپی رائٹ کا کچھ علم ہے؟'' یہ کہتے ہوئے کیسٹ انھوں نے جیب میں ڈال لیا اور وہ صاحب خالی ہاتھ جُھلاتے اسٹیج سے اتر آئے۔ تب ریکارڈنگ ٹیکنالوجی اسپول سے ترقی کر کے کیسٹ تک آ چکی تھی۔''
بعد میں مَیں نے اِدھر اُدھر سے کچھ معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ پنڈت روی شنکر شاید پہلے والے روی شنکر نہیں رہے تھے۔ انھوں نے یورپ اور امریکا کو برصغیر کی موسیقی سے روشناس کرایا تھا۔ یورپ اور امریکا جہاں کاپی رائٹ ایک مسلّمہ قانون ہے۔ 1960کے عشرے میں یورپ اور امریکا Beatles) ( طائفے خصوصاً اس کے ایک اہم راک فنکار (Rock Artist) جارج ہیریسن (George Harrison) کے بینڈز اور نغموں سے گونج رہا تھا۔ ان ہی دنوں شہرۂ آفاق وائلن نواز یہودی مینوہن (Yehudi Menuhin) نے بھی موسیقی کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا تھا۔ اور ان سب کی کامیابیوں میں پنڈت روی شنکر کے ستار اور من موہنی دُھنوں کا بڑا ہاتھ تھا۔
آپ جانیں، ہم جیسے ملکوں میں کسی بھی چیز کی چوری چل جاتی ہے، یورپ اور امریکا میں نہیں۔ پنڈت روی شنکر کاپی رائٹ (Copyright) کے اسرار و رموز اور اہمیت سے آگاہ تھے۔پنڈت روی شنکر بنگالی تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر مَیں نے کولکتہ میں اپنے موسیقی کے دل دادہ بنگالی دوست نارائن سین سے رابطہ کیا کہ پنڈت روی شنکر کے بارے میں کچھ معلومات دیں۔ (یہ سب انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ''گلو بل ولیج'' میں بسنے کا ایک شاخسانہ ہے)۔ اُن کا پہلا فقرہ یا تبصرہ یہ تھا کہ ''دنیا میں ستار نوازی کے حوالے سے ایک ہی میر ِموسیقی تھا جو چلا گیا۔