اسلامی جمہوریہ۔مزدوروں کے حقوق

ہندوؤں میں ذات پات کا نظام بھی بادشاہت کے لیے فائدہ مند ہی تھا۔



شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

شاعرنے مزدوروں کی حالت پر اپنے دردکا اظہار قیام پاکستان سے بارہ پندرہ سال پہلے کیا تھا۔ اقبال نے غالباً ہندوستان کے ان سیٹھوں اورصنعت کاروں کی طرف اشارہ کیا ہے جنھوں نے اپنے کارخانوں میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کو اچھوت اور اپنا غلام سمجھا ہوا تھا۔ ہندوستان میں صدیوں سے جاری ذات پات کے نظام کے پس منظر میں اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے صنعت کار اور سرمایہ دارکمزور اور نچلی ذات والوں سے خدمت یا بیگار لینا اپنا حق سمجھتے تھے۔ نچلی ذاتوں کے افراد خصوصاً اچھوت، دلِت وغیرہ نے بھی اپنی محرومی وغلامی کو قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر صدیوں سے قبول کیا ہوا تھا۔ برصغیر پر مغلوں کی حکمرانی مطلق العنان بادشاہت کی شکل میں تھی۔

ہندوؤں میں ذات پات کا نظام بھی بادشاہت کے لیے فائدہ مند ہی تھا۔ اس نظام کے ذریعے اعلی ٰذات کی ایک چھوٹی سی اقلیت کے ذریعے ہندوؤں کی نوے فیصد آبادی کو خوش دلی کے ساتھ غلام بنا کر رکھنا آسان تھا۔ اسلام کے نام لیوا ہونے کے باوجود مسلم بادشاہوں نے ہندوؤں میں نچلی ذاتوں کو حقوق دینے اور ان کی سماجی بہتری کے لیے کچھ نہ کیا بلکہ انگریز اور دیگر یورپین بادشاہوں کی طرح ہندوستان کے بادشاہوں نے بھی خود کوظل الٰہی کہلوانا شروع کردیا۔ مغل بادشاہوں کے بعد برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا۔ اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد انگریزوں نے انسانی حقوق کے احترام کا ڈول بھی ڈالا۔ یورپ کے بعد برصغیر میں بھی صنعتی دور شروع ہو چکا تھا۔ صنعت کار اور صنعتی مزدوروں پر مشتمل طبقات یہاں وجود میں آنے لگے تھے۔ بیشتر صنعت کار اونچی ذات کے ہندو تھے اور مزدور طبقہ زیادہ تراچھوتوں، دلتوں یا دوسرے طبقات پر مشتمل تھا۔

بیرسٹر محمد علی جناح نے انڈین نیشنل کانگریس میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے محسوس کیا کہ ہندو اشرافیہ مسلمانوں کو کبھی بھی آگے بڑھنے نہیں دے گی۔ برصغیر کی اکثریتی قوم میں ذات پات کے نظام، ہندو اشرافیہ میں مسلمانوں کے خلاف جذبات، مسلمانوں کی بہت کم شرح خواندگی اور دیگر شعبوں میں کمزور حالت محمد علی جناح کے سامنے تھی۔ قائد اعظم بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ برصغیر میں مسلمان اقلیت کا ہندو اکثریت کے ساتھ گزارا نہیں ہوسکے گا۔ قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کی حصول پاکستان کی تحریک کو مسلمانوں کی اکثریت کی تائید حاصل ہوئی۔ اس کی بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک خود مختار ملک میں مسلمان اپنے سیاسی، معاشی، سماجی اور دیگر فیصلے خود کریں گے۔

مسلمانوں کے ملک میں ذات پات کا کوئی نظام نہیں ہوگا۔ غریب ہو یا امیر، افسر ہو یا ماتحت، زمیندار ہو یا مزارعہ، صنعت کار ہو یا مزدور، سب کے حقوق یہاں محفوظ ہوں گے۔لیکن۔۔۔۔۔۔ قیام پاکستان کے بعد واضح ہوا کہ وڈیرے ہوں یا سرمایہ دار اپنے مزارعوں اور مزدوروں کے بارے میں ہر جگہ ان کی سوچ کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔

ہندوستان میں ایک سیکولر جمہوری آئین کی موجودگی کے باوجود آج بھی ذات پات کا نظام مذہبی چھتری کے سائے میں ہے۔ وہاں نچلی ذات کے مردوں، عورتوں اور مزدوروں کے ساتھ زیادتی کی کئی تاویلیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن مسلمانوں کے ملک پاکستان میں غریبوں، مزدوروں، مزارعوں کی حق تلفی کا کوئی جواز قابل قبول نہیں۔ کم آمدنی والے سب طبقات کا معیار زندگی بہتر بنانا ریاست اور حکومت کی ذمے داری اور معاشرے کے خوش حال طبقات کا فرض ہے۔ غریبوں کی حالت بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالنا خوش حال طبقات کا غریبوں پر کوئی احسان نہیں بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی ان کی ذمے داری ہے۔

گڈانی میں یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں کام کے دوران جاں بحق ہوجانے والے ، جھلس جانے والے، زخمی یا معذور ہو جانے والے سب مزدور اسلامی جمہوریہ کے آگے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ دین اسلام انسان کے احترام کی تاکید کرتا ہے۔ خادموں کی عزت کی تلقین کرتا ہے۔ غریب کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے۔ مسلمانوں کے ایک ملک میں ، ایک اسلامی جمہوریہ میں مزدوروں کے حقوق کا احترام قانونی ہی نہیں مذہبی پابندی بھی ہے۔

اسلامی جمہوریہ میں فلاحی ریاست کا تصور از خود پنہاں ہے۔ آبادی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو روزگار، صحت، تعلیم، سماجی امور میں شرکت کے مواقعے فراہم کرناریاست اور حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ بلوچستان ہو، خیبر پختون خوا کے نظر انداز کردہ علاقے ہوں، جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور محروم اضلاع ہوں، سندھ کے میدانی یا صحرائی علاقوں میں غربت کے مارے خطے ہوں یا پاکستان میں کہیں بھی شہریوں کے ساتھ ناانصافی اور حق تلفیوں کے واقعات ہوں۔ یہ سب اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہونے یا پھر جانتے بوجھتے ذمے داریوں سے چشم پوشی کی علامتیں ہیں۔

دین اسلام انسانی معاشروں میں استحصال کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ کسی ریاست میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطلب ہے احترام آدمیت، انسانی مساوات، حقوق کی ادائیگی اور انصاف کی فراہمی۔پاکستان میں انتخابی سیاست کرنے والی جماعتوں کو دو زمروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ لبرل سیاسی جماعتیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں۔ ان جماعتوں کی ترجیحات اور مطالبات کے جائزہ سے چند دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔مزدوروں اور کمزور طبقات کی بحالی کے مطالبات زیادہ تر لبرل سیاسی جماعتوں کی طرف سے کیے گئے۔ علاوہ ازیں ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے مزدور کے حقوق کو اپنی نثر یا شاعری کا موضوع بنایا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں نے پاکستانی معاشرے میں مزدور کو حقوق اور احترام دلوانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔لبرل سیاسی جماعتوں نے بھی مزدوروں اور غریبوں کے حقوق پر زیادہ تر زبانی کلامی ہی زور دیا ہے۔

مشاہدہ بتاتا ہے کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر کئی مسلم ملکوں میں بھی مزدور طبقے کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں امیر،امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ اشتراکی نظام تو استحصال کے خاتمے کے دعوے کرتا کرتا ختم ہوگیا۔ اب دنیا بھر میں معیشت سرمایہ دارانہ نظام پر چل رہی ہے۔ یہ نظام سرمایہ کار کے منافع پر یقین رکھتا ہے۔ انسانی فلاح، مزدور کے حقوق، کمزور طبقات کا خیال رکھنا اس نظام میں فضول باتیں سمجھی جاتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ امیروں کو زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ سرمایہ کاری کرکے نئی ملازمتیں فراہم کریں۔ اس پالیسی میں منافع کا حصول انسانی وسائل کے لیے کسی بہتری یا فلاح کا پابند نہیں ہے۔

مسلمانوں کی ایک ریاست، ایک اسلامی جمہوریہ میں اس سوچ کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ سرمایہ کار کا منافع کمانے کا حق اس کے ہاں کام کرنے والے کارکنوں کے مالی تحفظ سے منسلک ہونا لازمی ہو،گراس پرافٹ کا تعین کارخانوں، سڑکوں، کھیتوں، سمندر، دریاؤں اور کسی بھی جگہ پیداوار میں شریک کارکنوں کی زندگی، صحت اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کے اخراجات منہا کرنے کے بعد ہو۔

2018 پاکستان میں عام انتخابات کا سال ہے۔ پاکستانی ووٹرز کی اکثریت غریب طبقات پر مشتمل ہے۔ ان غریب و پسماندہ ووٹرز کی معاشی اور سماجی حالت بہتر بنانا سب سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے۔ ایک افسوس ناک مشاہدہ ہے کہ کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں قومی معاملات پر اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کی آگہی اور تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

بہتر ہوگا کہ پاکستان کی سب سیاسی جماعتیں مزدور، کسان اور کم آمدنی والے دیگر طبقات کی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنی پارٹی کے اندر تربیتی پروگرام منعقد کریں۔ قومی مسائل کے حل کے لیے اہلیتوں میں اضافے کا اہتمام کیا جائے۔ کارکنوں اور رہنماؤں کو آئین، قانون کا پابند بنانے کے ساتھ اللہ کے سامنے جوابدہ بنانے کی تعلیم دی جائے۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہمارے ملک میں مزدور، غریب کسان اور کم آمدنی والے دیگر طبقات کی بہتری کی کوششوں کو دنیا کے دوسرے ملکوں کے لیے ایک روشن مثال بننا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں پیش کرنے کے لیے نہیں بلکہ ہمیں اپنے معاشی و سماجی اشاریے اللہ کے آگے جواب دہی کے احساس کے ساتھ مرتب کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |