تبدیلی اور سندھ
سنا ہے کہ جیسی حکومت ویسا نصیب ۔ جیسا راجہ ویسی رعایا
سنا ہے کہ جیسی حکومت ویسا نصیب ۔ جیسا راجہ ویسی رعایا۔ سندھ کی رعایا کے نصیب ذرا ٹرن لے چکے ہیں۔ قائم علی شاہ کے زمانے میں بھی سندھ میں ہوائیں چلتی تھیں اور مراد علی شاہ کے زمانے میں بھی ہوائیں چل رہی ہیں لیکن کچھ خوشگواری کے ساتھ فرق صاف ظاہر ہے کہ قائم علی شاہ اپنی زندگی کی تمام بہاریں دیکھ چکے تھے۔ ریٹائرمنٹ میں وزارت کے مزے لے رہے تھے ان کا وژن کچھ بھی تھا لیکن جس یتیمی کی زندگی سندھ کے عوام نے گزاری اس کا اندازہ وہ ہی لگاسکتی ہے لیکن اب محسوس ہورہاہے کہ کوئی تو نگرانی کررہاہے۔
کھل جا سِم سِم کی اب کیا صورت حال ہے اس بارے میں ہم جیسے لوگ کیا جانیں البتہ شرجیل میمن بھی ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوئے، بہر حال مراد صاحب پانی کے معاملے میں خاصے سنجیدہ ہیں کہ عوام کو پانی کی فراہمی کا مسئلہ ایک بڑا جن بن چکا تھا جسے نئے وزیراعلیٰ نے اپنی بوتل میں بند کردیا۔ خدا کرے یہ بوتل کبھی نہ کھلے کچھ معاملات اب بھی خاصے توجہ طلب ہیں ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ سپر ہائی وے کے نزدیک سندھ میں ایک گاؤں کے نزدیک روڈ پر کسی رکشے میں سوار چند حضرات آئے اور ڈھیر ساری ادویات کوڑے کی مانند اُنڈیل کر چلے گئے یہ ادویات مہنگی اور انسانی صحت کے لیے ضروری تھیں ان پر درج شدہ تاریخ ظاہر کررہی تھیں کہ وہ ابھی قابل استعمال ہیں لیکن ہائے رے بے دردی کے حق دار ترے انگار برے۔ بہرحال امید ہے کہ صحت کے شعبے میں بھی جلد ہی کسی طاقت ور بوتل کی فراہمی سامنے آجائے گی کہ امید پر دنیا قائم ہے۔
مسائل کا انبار اگر سندھ کے حوالے سے چھانٹا جائے تو بات بہت دور تک چلی جائے گی جس میں ناگواری بھی شامل ہوجائے گی لہٰذا کراچی سے شروع کریں کہ یہاں بات ایک حد سے کسی حد تک ختم ہوجاتی ہے۔ بے چاری کراچی جو کولاچی سے شروع ہوئی تھی اسے کوئی سونے کی چڑیا کہہ دے یا سونے کا انڈا دینے والی مرغی لیکن یہ وہی شہر ہے جہاں پہلے کبھی اتنی روشنیاں جلتی تھیں کہ اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا اب رات کو سڑک پر گاڑی لے کر نکلیے یہاں تو بہت اندھیرا ہے ... ہاں یہیں سے گھر کا راستہ شروع ہوتا ہے کچھ اسی قسم کے تبصرے سننے کو ملتے ہیں ۔
البتہ وزیراعلیٰ کا یہ اعلان کہ جلدی بازار کھلیںگے اور جلد بند ہوجائیںگے سننے میں بہت بھلا لگا دل خوش ہوگیا بالکل اسی طرح جب سننے میں آیا تھا کہ اسکولز میں رقص اور اسی طرح کی تفریحات پر پابندی بہت اچھا لگا تھا لیکن پھر بڑی زور کی ٹرن آئی خیر کوئی بات نہیں البتہ اسکولز، کالجز اور دوسرے تعلیمی اداروں میں پڑھایا ضرور جائے یہ بات یقینی ہونی چاہیے، بازاروں کے جلد کھلنے پر اعتراض کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے اس میں صرف تاجران حضرات ہی شامل نہیں ہیں گھر سے جلے بھنے بھی شامل ہیں جو دن بھر آفس میں سر کھپاتے ہیں پھر اپنے گھروں میں بھی اپنی بیگمات کا ہاتھ بٹاتے ہیں ان تمام مصروفیات میں ان دن کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے کچھ پتا نہیں چلتا تو پھر خریداری کے لیے وقت کیسے ملے۔
''کوئی چار پانچ برس پہلے ہم تھائی لینڈ گئے تھے وہاں تو شام کو چھ بجے بازار بند ہوجاتے ہیں۔ وہاں اتنے بڑے بڑے خوبصورت شاپنگ مالز ہیں جہاں زیادہ تر خواتین کام کرتی ہیں صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک سارے بازار کھلے رہتے ہیں پھر شام چھ بجے کے بعد سب بند ہوجاتے ہیں۔ پھر وہاں کلب وغیرہ بھی ہیں سب لوگ اپنی زندگی کو انجوائے کرنے نکل جاتے ہیں وہاں کھانا اپنے گھروں میں پکانے کا بھی رواج نہیں ہے لوگ بھرپور لائف انجوائے کرتے ہیں''
ابھی چند روز قبل ہی وہ خاتون بتارہی تھیں جو اپنی بہن (ایئر ہوسٹس) کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتی رہتی ہیں ان کے لہجے میں استعجاب نمایاں تھا ان کا کہناتھا کہ جب دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں بازاروں کے اوقات کار یہ ہیں تو پھر ہمارے ملک میں تعامل کیسا۔
کراچی میں چائنا کٹنگ تا حال جاری ہے یہ ہے بورڈ آف ریونیو کی رپورٹ کہ جس کے مطابق کراچی میں غیر قانونی طور پر زمینوں کے قبضے کی تاریخ رقم ہے کہ جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ ملوث ہیں ان میں وہ زمینیں زیادہ ہیں جو تفریحی اور فلاحی مقاصد کے لیے مختص کی گئی تھیں یہ ایک ایسا مافیا ہے کہ جس نے کراچی میں دیمک لگادی ہے۔
اس دیمک کا اگر تدارک نہ کیا گیا تو یہ سندھ سے ہوتی ہوئی پورے ملک میں پھیل سکتی ہے اس دیمک نے بہت سی انسانی جانوں کو نگلا ہے بہت سے لوگوں کی خون پسینے کی کمائی اس میں شامل ہے۔ بہت سے درد، آنسو اور آہیں ہیں لیکن اس زنگ آلود تالے کی چابی جیسے کہیں کھوگئی ہے، خدا کرے کہ وزیراعلیٰ اس تالے میں ایسی چابی لگائیں کہ پھر اسے مقفل کرنے کی کسی میں ہمت بھی نہ ہو۔ سرکاری اراضی پر قبضہ کرنا کوئی آسان کھیر سمجھ کر کھانے کی جرأت نہ کرے۔ اسی طرح بہت سی رہائشی اسکیمیں بھی ان ہی قبضوں کی نظر ہیں خدا خدا کرکے گلستان جوہر کے ایک بلاک میں اس قبضے سے نجات دلوانے کی خبر اخبار میں پڑھی تو بہت اچھا لگا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کہ عوام کی نظریں اب حکومت پر مرکوز ہیں کہ کام ہوتے رہنا چاہیے۔
چند ہفتے قبل وزیراعلیٰ کو کسی نجی یونی ورسٹی جانا تھا لہٰذا اس سلسلے میں انتظامیہ (مذکورہ علاقے کی) پوری شد و مد سے جت گئی، سڑکوں کی صفائی ستھرائی، سڑکوں کے ارد گرد چھوٹے موٹے کیبن ڈھادیے گئے، سڑکوں کے گرد کوڑا کرکٹ ٹرالیوں اور بڑے بڑے ٹرالرز کے ذریعے سمیٹا گیا سب کچھ صاف، سب کچھ اچھا، بہت ہی زبردست ہونا چاہیے اور ایسا ہوا بھی سیکیورٹی کی بڑی بڑی گاڑیاں، باوردی گنیں تھامے اہلکار پھر سے آئے اور تھوڑی دیر میں آکر چلے بھی گئے۔
یہ سب بہت اچھا ہے لیکن ہمارے وزیراعلیٰ سے کیا چھپانا انھیں پتا تو ہونا چاہیے ناں کہ ہم اس طرح ہی اس علاقے میں رہتے ہیں اس طرح ان کی سیکیورٹی اور ان پر اپنی صفائی کا رعب جھاڑنے کا کیا فائدہ کیوں ہے ایسا؟ وہ ہمارے اعلیٰ حکام ہیں انھیں نہیں بتائیںگے تو اور کس کو بتائیںگے۔ یہ کس طرح حکومتی کارندے کرتے ہیں ایک شہری سوالیہ نشان چہرے پر سجائے پریشان تھا۔
سندھ میں وزارت نے جو نئی کروٹ لی ہے اس تبدیلی کے اثرات اب ابھر کر سامنے آرہے ہیں یہ اثرات مثبت سے منفی کی جانب نہ بڑھیں بلکہ مثبت انداز میں عوام کے لیے بہتر سے بہتر انداز میں کام کریں۔ ہمیں اپنی شناخت کے چرچے کے لیے موئن جو داڑو میں ٹینٹ لگاکر جشن نہ کرنا پڑے بلکہ اپنی سخاوت، فیاضی، انصاف اور مساوات کے رویے سے دلوں میں گھر کریں کہ یہی ہماری دیہی روایت کا تقاضا ہے۔
کھل جا سِم سِم کی اب کیا صورت حال ہے اس بارے میں ہم جیسے لوگ کیا جانیں البتہ شرجیل میمن بھی ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوئے، بہر حال مراد صاحب پانی کے معاملے میں خاصے سنجیدہ ہیں کہ عوام کو پانی کی فراہمی کا مسئلہ ایک بڑا جن بن چکا تھا جسے نئے وزیراعلیٰ نے اپنی بوتل میں بند کردیا۔ خدا کرے یہ بوتل کبھی نہ کھلے کچھ معاملات اب بھی خاصے توجہ طلب ہیں ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ سپر ہائی وے کے نزدیک سندھ میں ایک گاؤں کے نزدیک روڈ پر کسی رکشے میں سوار چند حضرات آئے اور ڈھیر ساری ادویات کوڑے کی مانند اُنڈیل کر چلے گئے یہ ادویات مہنگی اور انسانی صحت کے لیے ضروری تھیں ان پر درج شدہ تاریخ ظاہر کررہی تھیں کہ وہ ابھی قابل استعمال ہیں لیکن ہائے رے بے دردی کے حق دار ترے انگار برے۔ بہرحال امید ہے کہ صحت کے شعبے میں بھی جلد ہی کسی طاقت ور بوتل کی فراہمی سامنے آجائے گی کہ امید پر دنیا قائم ہے۔
مسائل کا انبار اگر سندھ کے حوالے سے چھانٹا جائے تو بات بہت دور تک چلی جائے گی جس میں ناگواری بھی شامل ہوجائے گی لہٰذا کراچی سے شروع کریں کہ یہاں بات ایک حد سے کسی حد تک ختم ہوجاتی ہے۔ بے چاری کراچی جو کولاچی سے شروع ہوئی تھی اسے کوئی سونے کی چڑیا کہہ دے یا سونے کا انڈا دینے والی مرغی لیکن یہ وہی شہر ہے جہاں پہلے کبھی اتنی روشنیاں جلتی تھیں کہ اسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا اب رات کو سڑک پر گاڑی لے کر نکلیے یہاں تو بہت اندھیرا ہے ... ہاں یہیں سے گھر کا راستہ شروع ہوتا ہے کچھ اسی قسم کے تبصرے سننے کو ملتے ہیں ۔
البتہ وزیراعلیٰ کا یہ اعلان کہ جلدی بازار کھلیںگے اور جلد بند ہوجائیںگے سننے میں بہت بھلا لگا دل خوش ہوگیا بالکل اسی طرح جب سننے میں آیا تھا کہ اسکولز میں رقص اور اسی طرح کی تفریحات پر پابندی بہت اچھا لگا تھا لیکن پھر بڑی زور کی ٹرن آئی خیر کوئی بات نہیں البتہ اسکولز، کالجز اور دوسرے تعلیمی اداروں میں پڑھایا ضرور جائے یہ بات یقینی ہونی چاہیے، بازاروں کے جلد کھلنے پر اعتراض کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے اس میں صرف تاجران حضرات ہی شامل نہیں ہیں گھر سے جلے بھنے بھی شامل ہیں جو دن بھر آفس میں سر کھپاتے ہیں پھر اپنے گھروں میں بھی اپنی بیگمات کا ہاتھ بٹاتے ہیں ان تمام مصروفیات میں ان دن کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے کچھ پتا نہیں چلتا تو پھر خریداری کے لیے وقت کیسے ملے۔
''کوئی چار پانچ برس پہلے ہم تھائی لینڈ گئے تھے وہاں تو شام کو چھ بجے بازار بند ہوجاتے ہیں۔ وہاں اتنے بڑے بڑے خوبصورت شاپنگ مالز ہیں جہاں زیادہ تر خواتین کام کرتی ہیں صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک سارے بازار کھلے رہتے ہیں پھر شام چھ بجے کے بعد سب بند ہوجاتے ہیں۔ پھر وہاں کلب وغیرہ بھی ہیں سب لوگ اپنی زندگی کو انجوائے کرنے نکل جاتے ہیں وہاں کھانا اپنے گھروں میں پکانے کا بھی رواج نہیں ہے لوگ بھرپور لائف انجوائے کرتے ہیں''
ابھی چند روز قبل ہی وہ خاتون بتارہی تھیں جو اپنی بہن (ایئر ہوسٹس) کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتی رہتی ہیں ان کے لہجے میں استعجاب نمایاں تھا ان کا کہناتھا کہ جب دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں بازاروں کے اوقات کار یہ ہیں تو پھر ہمارے ملک میں تعامل کیسا۔
کراچی میں چائنا کٹنگ تا حال جاری ہے یہ ہے بورڈ آف ریونیو کی رپورٹ کہ جس کے مطابق کراچی میں غیر قانونی طور پر زمینوں کے قبضے کی تاریخ رقم ہے کہ جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ ملوث ہیں ان میں وہ زمینیں زیادہ ہیں جو تفریحی اور فلاحی مقاصد کے لیے مختص کی گئی تھیں یہ ایک ایسا مافیا ہے کہ جس نے کراچی میں دیمک لگادی ہے۔
اس دیمک کا اگر تدارک نہ کیا گیا تو یہ سندھ سے ہوتی ہوئی پورے ملک میں پھیل سکتی ہے اس دیمک نے بہت سی انسانی جانوں کو نگلا ہے بہت سے لوگوں کی خون پسینے کی کمائی اس میں شامل ہے۔ بہت سے درد، آنسو اور آہیں ہیں لیکن اس زنگ آلود تالے کی چابی جیسے کہیں کھوگئی ہے، خدا کرے کہ وزیراعلیٰ اس تالے میں ایسی چابی لگائیں کہ پھر اسے مقفل کرنے کی کسی میں ہمت بھی نہ ہو۔ سرکاری اراضی پر قبضہ کرنا کوئی آسان کھیر سمجھ کر کھانے کی جرأت نہ کرے۔ اسی طرح بہت سی رہائشی اسکیمیں بھی ان ہی قبضوں کی نظر ہیں خدا خدا کرکے گلستان جوہر کے ایک بلاک میں اس قبضے سے نجات دلوانے کی خبر اخبار میں پڑھی تو بہت اچھا لگا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے کہ عوام کی نظریں اب حکومت پر مرکوز ہیں کہ کام ہوتے رہنا چاہیے۔
چند ہفتے قبل وزیراعلیٰ کو کسی نجی یونی ورسٹی جانا تھا لہٰذا اس سلسلے میں انتظامیہ (مذکورہ علاقے کی) پوری شد و مد سے جت گئی، سڑکوں کی صفائی ستھرائی، سڑکوں کے ارد گرد چھوٹے موٹے کیبن ڈھادیے گئے، سڑکوں کے گرد کوڑا کرکٹ ٹرالیوں اور بڑے بڑے ٹرالرز کے ذریعے سمیٹا گیا سب کچھ صاف، سب کچھ اچھا، بہت ہی زبردست ہونا چاہیے اور ایسا ہوا بھی سیکیورٹی کی بڑی بڑی گاڑیاں، باوردی گنیں تھامے اہلکار پھر سے آئے اور تھوڑی دیر میں آکر چلے بھی گئے۔
یہ سب بہت اچھا ہے لیکن ہمارے وزیراعلیٰ سے کیا چھپانا انھیں پتا تو ہونا چاہیے ناں کہ ہم اس طرح ہی اس علاقے میں رہتے ہیں اس طرح ان کی سیکیورٹی اور ان پر اپنی صفائی کا رعب جھاڑنے کا کیا فائدہ کیوں ہے ایسا؟ وہ ہمارے اعلیٰ حکام ہیں انھیں نہیں بتائیںگے تو اور کس کو بتائیںگے۔ یہ کس طرح حکومتی کارندے کرتے ہیں ایک شہری سوالیہ نشان چہرے پر سجائے پریشان تھا۔
سندھ میں وزارت نے جو نئی کروٹ لی ہے اس تبدیلی کے اثرات اب ابھر کر سامنے آرہے ہیں یہ اثرات مثبت سے منفی کی جانب نہ بڑھیں بلکہ مثبت انداز میں عوام کے لیے بہتر سے بہتر انداز میں کام کریں۔ ہمیں اپنی شناخت کے چرچے کے لیے موئن جو داڑو میں ٹینٹ لگاکر جشن نہ کرنا پڑے بلکہ اپنی سخاوت، فیاضی، انصاف اور مساوات کے رویے سے دلوں میں گھر کریں کہ یہی ہماری دیہی روایت کا تقاضا ہے۔