کراچی سہولتوں کا فقدان
کراچی میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی شہر کا بڑا مسئلہ ہے
عالمی بینک کی کراچی میں جاری کردہ پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ میں (کراچی سٹی ڈائیگنوسٹک) کے عنوان سے خصوصی تجزیے میں کراچی کو درپیش سنگین چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے اس دنیا کے دس ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں آبادی کے تیز ترین پھیلاؤ کے مقابلے میں شہری سہولتوں کی فراہمی اور اربن پلاننگ کے لیے خاطر خواہ اور بروقت اقدامات نہیں کیے جارہے۔ کراچی کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کچی آبادیوں پر مشتمل ہے، جہاں آبادی میں دگنی رفتار سے اضافہ ہورہا ہے۔
شہر میں بے ہنگم اور مخصوص علاقوں میں کی جانے والی تعمیرات مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ کراچی کے سب سے بڑے مسئلے پانی کی قلت کو حل کرنے کے لیے نہ تو کراچی اور نہ ہی صوبہ سندھ کی سطح پر کوئی پالیسی موجود ہے۔ شہری نظام یومیہ طلب کا صرف 55 فیصد پانی ہی فراہم کر پارہا ہے، پانی کا ضیاع اور بڑے پیمانے پر چوری عام ہے۔ پانی کی قلت کا شکار صوبے کے سب سے بڑے شہر میں 43 فیصد پانی کی قیمت وصول نہیں کی جاتی، جس کی مقدار 192 ملین گیلن یومیہ ہے۔ کراچی میں سیوریج کے پانی کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بھی سہولتوں کا فقدان ہے اور یومیہ 475 ملین گیلن فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے براہ راست سمندر میں گرایا جا رہا ہے۔
اسی طرح کچرے کی صرف 50 فیصد سے بھی کم مقدار کو لینڈفل سائٹس میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے، باقی کچرا غیر محفوظ طریقوں کی بنا پر ماحول کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ کراچی میں قدرتی آفات اور حادثات سے نمٹنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ کراچی میں ناکافی ایمرجنسی اور ریسکیو اقدامات اور پلاننگ کے بغیر ہونے والی تعمیرات کی کثرت، ایمرجنسی اور ریسکیو اقدامات کے فقدان کی وجہ زیادہ تر شدت کے زلزلے کی صورت میں عمارتوں کی بڑی تعداد ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔
کراچی میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی شہر کا بڑا مسئلہ ہے، جس میں فضائی آلودگی کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ کراچی میں کچرے میں فضلے کو جلائے جانے اور مایع فضلے کو بغیر ٹریٹمنٹ ڈسچارج کیے جانے سے آلودگی کا مسئلہ تیزی سے شدت اختیار کررہا ہے۔ پینے کے پانی میں سیسے کی زائد مقدار سے بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔ آلودگی کی وجہ سے شہریوں کو معاشی نقصان کا بھی سامنا ہے۔ کراچی میں ٹریفک کی بدنظمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان بھی شہر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
کراچی میں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور موثر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے مستقل ٹریفک جام کا سامنا ہے۔ شہر میں کوئی سرکاری پبلک ٹرانزٹ سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کراچی میں کاروبار کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے کراچی کی کاروباری مسابقت بھی ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کم ہورہی ہے۔ کاروبار پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں انفرااسٹرکچر کے مسائل کے ساتھ سیاسی بے یقینی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، کرپشن اور بھتہ خوری جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔
ان سب مسائل کی وجہ سے کراچی میں کاروبار کرنا بھی دشوار ہورہا ہے۔ کراچی کی معیشت سندھ کے دیگر شہروں سے جڑی ہوئی ہے، تاہم کراچی کا سندھ کے دیگر شہروں سے مضبوط تعلق ترقی اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ کراچی کو سندھ کے دیگر شہروں کے ساتھ جوڑنے کے لیے سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کراچی اب بھی ترقی کے لحاظ سے دنیا کے میگا سٹیز کا ہم پلہ ہوسکتا ہے، تاہم اس کے لیے کراچی سٹی ڈیولپمنٹ پلان 2020 پر مرحلہ وار اور تسلسل کے ساتھ عمل درآمد کرنا ہوگا۔
بلاشبہ کراچی اب ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، لیکن یہ شہر جن بنیادی مسائل سے دوچار ہے یہ آپ نے ملاحظہ کرلیا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام مسائل راتوں رات پیدا ہوئے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ بلکہ بتدریج ان کا ظہور ہوا ہے۔ اب یہ کہا جائے کہ ان مسائل کو جلد از جلد حل کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جادو کی چھڑی کسی کے پاس نہیں، جنھیں یک دم ختم کیا جاسکے۔ سچی بات یہ ہے کہ جس طرح ہم سب نے مل کر کراچی کو مسائلستان بنایا ہے اسی طرح ہم سب کو مل کر اس شہر کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔
یہ شہر ہم سب کا ہے، ملک کے ہر اس شہری کی ذمے داری ہے جو یہاں بستا ہے اور روزگار کماتا ہے، وہ شہر کراچی کی ہنستی مسکراتی اور چمکتی دمکتی زندگی کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ واضح رہے کہ یہ شہر صدیوں پہلے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی ساحلی بستی تھی، جو ایک بہادر عورت مائی کلاچی کے نام سے منسوب تھی، جس نے طوفان میں گھرے سمندر میں اپنے شوہر کو تلاش کیا اور اسے زندہ سلامت پالیا تھا۔
یہ وہی بستی ہے جو سکندر اعظم کی آمد کے وقت 326 ق م میں (کروکالا) کے نام سے آباد تھی۔ اس مقام پر سکندراعظم کے امیرالبحر نیارکس نے یونانی بیڑا لنگرانداز کیا تھا۔ اس دور سے لے کر عصر حاضر تک یہاں ہر دور کے آثار ملتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ خدارا! اس شہر کی تاریخی مقامات کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ کراچی جسے ہم قائداعظم کا شہر بھی کہتے ہیں، خدارا! اس نام کی حرمت کا بھی پاس کیجیے۔ کراچی کی حالت زار پر رحم کیجیے۔ اسے کچرے کا ڈھیر اور بند مین ہولز کا جزیرہ نہ بنایا جائے۔ کراچی کے پرانے اور مضافاتی علاقے بھی شہر کا حصہ ہیں، ان پر بھی ترقیاتی نظر کرم کیجیے۔
شہر میں بے ہنگم اور مخصوص علاقوں میں کی جانے والی تعمیرات مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ کراچی کے سب سے بڑے مسئلے پانی کی قلت کو حل کرنے کے لیے نہ تو کراچی اور نہ ہی صوبہ سندھ کی سطح پر کوئی پالیسی موجود ہے۔ شہری نظام یومیہ طلب کا صرف 55 فیصد پانی ہی فراہم کر پارہا ہے، پانی کا ضیاع اور بڑے پیمانے پر چوری عام ہے۔ پانی کی قلت کا شکار صوبے کے سب سے بڑے شہر میں 43 فیصد پانی کی قیمت وصول نہیں کی جاتی، جس کی مقدار 192 ملین گیلن یومیہ ہے۔ کراچی میں سیوریج کے پانی کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے بھی سہولتوں کا فقدان ہے اور یومیہ 475 ملین گیلن فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے براہ راست سمندر میں گرایا جا رہا ہے۔
اسی طرح کچرے کی صرف 50 فیصد سے بھی کم مقدار کو لینڈفل سائٹس میں ٹھکانے لگایا جاتا ہے، باقی کچرا غیر محفوظ طریقوں کی بنا پر ماحول کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ کراچی میں قدرتی آفات اور حادثات سے نمٹنے کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ کراچی میں ناکافی ایمرجنسی اور ریسکیو اقدامات اور پلاننگ کے بغیر ہونے والی تعمیرات کی کثرت، ایمرجنسی اور ریسکیو اقدامات کے فقدان کی وجہ زیادہ تر شدت کے زلزلے کی صورت میں عمارتوں کی بڑی تعداد ملبے کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔
کراچی میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی شہر کا بڑا مسئلہ ہے، جس میں فضائی آلودگی کی صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ کراچی میں کچرے میں فضلے کو جلائے جانے اور مایع فضلے کو بغیر ٹریٹمنٹ ڈسچارج کیے جانے سے آلودگی کا مسئلہ تیزی سے شدت اختیار کررہا ہے۔ پینے کے پانی میں سیسے کی زائد مقدار سے بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔ آلودگی کی وجہ سے شہریوں کو معاشی نقصان کا بھی سامنا ہے۔ کراچی میں ٹریفک کی بدنظمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان بھی شہر کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
کراچی میں گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور موثر حکمت عملی کے فقدان کی وجہ سے مستقل ٹریفک جام کا سامنا ہے۔ شہر میں کوئی سرکاری پبلک ٹرانزٹ سسٹم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کراچی میں کاروبار کو درپیش چیلنجز کی وجہ سے کراچی کی کاروباری مسابقت بھی ملک کے دیگر شہروں کے مقابلے میں کم ہورہی ہے۔ کاروبار پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں انفرااسٹرکچر کے مسائل کے ساتھ سیاسی بے یقینی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، کرپشن اور بھتہ خوری جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔
ان سب مسائل کی وجہ سے کراچی میں کاروبار کرنا بھی دشوار ہورہا ہے۔ کراچی کی معیشت سندھ کے دیگر شہروں سے جڑی ہوئی ہے، تاہم کراچی کا سندھ کے دیگر شہروں سے مضبوط تعلق ترقی اور روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ کراچی کو سندھ کے دیگر شہروں کے ساتھ جوڑنے کے لیے سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کراچی اب بھی ترقی کے لحاظ سے دنیا کے میگا سٹیز کا ہم پلہ ہوسکتا ہے، تاہم اس کے لیے کراچی سٹی ڈیولپمنٹ پلان 2020 پر مرحلہ وار اور تسلسل کے ساتھ عمل درآمد کرنا ہوگا۔
بلاشبہ کراچی اب ایک بین الاقوامی شہر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، لیکن یہ شہر جن بنیادی مسائل سے دوچار ہے یہ آپ نے ملاحظہ کرلیا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تمام مسائل راتوں رات پیدا ہوئے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ بلکہ بتدریج ان کا ظہور ہوا ہے۔ اب یہ کہا جائے کہ ان مسائل کو جلد از جلد حل کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جادو کی چھڑی کسی کے پاس نہیں، جنھیں یک دم ختم کیا جاسکے۔ سچی بات یہ ہے کہ جس طرح ہم سب نے مل کر کراچی کو مسائلستان بنایا ہے اسی طرح ہم سب کو مل کر اس شہر کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔
یہ شہر ہم سب کا ہے، ملک کے ہر اس شہری کی ذمے داری ہے جو یہاں بستا ہے اور روزگار کماتا ہے، وہ شہر کراچی کی ہنستی مسکراتی اور چمکتی دمکتی زندگی کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ واضح رہے کہ یہ شہر صدیوں پہلے مچھیروں کی ایک چھوٹی سی ساحلی بستی تھی، جو ایک بہادر عورت مائی کلاچی کے نام سے منسوب تھی، جس نے طوفان میں گھرے سمندر میں اپنے شوہر کو تلاش کیا اور اسے زندہ سلامت پالیا تھا۔
یہ وہی بستی ہے جو سکندر اعظم کی آمد کے وقت 326 ق م میں (کروکالا) کے نام سے آباد تھی۔ اس مقام پر سکندراعظم کے امیرالبحر نیارکس نے یونانی بیڑا لنگرانداز کیا تھا۔ اس دور سے لے کر عصر حاضر تک یہاں ہر دور کے آثار ملتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ خدارا! اس شہر کی تاریخی مقامات کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔ کراچی جسے ہم قائداعظم کا شہر بھی کہتے ہیں، خدارا! اس نام کی حرمت کا بھی پاس کیجیے۔ کراچی کی حالت زار پر رحم کیجیے۔ اسے کچرے کا ڈھیر اور بند مین ہولز کا جزیرہ نہ بنایا جائے۔ کراچی کے پرانے اور مضافاتی علاقے بھی شہر کا حصہ ہیں، ان پر بھی ترقیاتی نظر کرم کیجیے۔