پاکستانی کشور کمار اداس کرکے چلا گیا
مجھےشروع سےہی پلےبیک سنگربننےکا شوق تھا اورمیں چاہتا تھاکہ لوگ میری آواز سنیں،اے نیئرکا یادگار انٹرویو
پاکستان فلم انڈسٹری ہمیشہ سے خوش قسمت رہی کہ اسے ہر دور میں اچھے فنکار، گلوکار،موسیقار، نغمہ نگار، رائٹر ، ڈائریکٹر اور تکنیک کار میسر آئے ، خاص طور پر اگر ہم موسیقی کی بات کریں تو کلاسیکل ، غزل، گیت، فوک اور پلے بیک سنگنگ کے میدان میں ایسے ''فنکار'' ہیں کہ جنہوں نے اپنی گائیکی اور کمپوزیشنز کے ذریعے بھارت سمیت پوری دنیا میں دھوم مچا دی۔
پلے بیک سنگنگ میں 70ء کی دہائی میں جب فلم انڈسٹری عروج پر تھی تو یہاں ہمیں صف اول کے گلوکاروں مہدی حسن، مسعود رانا ، احمد رشدی، غلام عباس، مجیب عالم ، نورجہاں، ناہید اختر، اخلاق احمد، منیر حسین، مہناز، رونا لیلی کے ساتھ ایک نام اے نیئر کا بھی نظر آتا ہے ۔ ''بینا تیرا نام'' ، ''یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا'' ، '' اک بات کہوں دلدارا'' ، ''میں تو جلا ایسا جیون بھر''، ''جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے ، سب نے یہ شور مچایا ہے، سالگرہ کا دن آیا ہے '' جیسے یادگار گیت گانے والا یہ گلوکار اب ہم میں نہیں رہا ۔ اے نیئر 17ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئے ۔
ان کا اصل نام آرتھر نیئر تھا ، کیرئیر کا آغاز ہدایتکار ریاض شاہد کی فلم ''بہشت '' سے کیا جس میں انہوں نے گلوکارہ روبینہ بدر کے ساتھ دو گانا '' یونہی دن کٹ جائیں'' گایا تھا ، انہیں اصل شہرت گلوکارہ ناہید اختر کے ساتھ گائے دو گانے '' پیار تو اک دن ہونا تھا'' سے ملی ۔ 1980ء کی دہائی میں اے نیئر عروج پر تھے اور پاکستانی فلمی صنعت میں وہ اور اخلاق احمد کو نمایاں حیثیت حاصل تھی اور اس دوران انہوں نے پانچ بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کئے۔راقم نے ایک سال قبل ان کا انٹرویو کیا ۔ جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف اوراق سے پردہ اٹھایا اس کی تفصیل نذر قارئین ہے ۔
'' مجھے شروع سے ہی پلے بیک سنگر بننے کا شوق تھا اور میں چاہتا تھا کہ لوگ میری آواز سنیں۔ بہر حال گھر والے سخت خلاف تھے ، اس کے باوجود گھر والوں سے رات کو چھپ کر ریڈیو پر استاد سلامت علی خان، استاد امانت علی خان سمیت دیگر گلوکاروں کو سنا کرتا۔ ریاض شاہد میرے محسن ہیں ان کی فیملی سے میرے گھریلو تعلقات تھے ۔
انہوں نے ہی اپنی فلم ''بہشت'' میں گانے کا موقع دیا ، جس کے میوزک ڈائریکٹر اے حمید تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاض شاہد کو سنسر بورڈ نے مارا جنہوں نے ان کی فلم ''یہ امن'' کو سنسر نہیں بلکہ انہیں کینسر کردیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی کاوش کو سراہتے ہوئے ٹیکس بھی معاف ہوجائے گا مگر شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ فلم ان کی زندگی کا روگ بن جائے گی۔ وہ اپنی زندگی میں میرے لئے سب کچھ کر گئے مگر ان کے بعد سنیئر کیمرہ مین بابربلال نے بھی بہت سپورٹ کیا۔
میرا پہلا سپرہٹ فلمی گیت تھا ہدایتکار جمشید نقوی کی فلم ''خریدار'' کا ''پیار تو اک دن ہونا تھا'' تھا۔وحید مراد ہو یا ندیم ، شاہد، غلام محی الدین اور محمدعلی سمیت کوئی بھی فنکار ہوتا ، اس کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے گیت ریکارڈ کرواتا۔ اسی لئے ان پر فلمائے جانے والے گانے ایسے ہی لگتے کہ جیسے انہوں نے ہی گائے ہیں۔ پہلے موسیقار اور فلم ڈائریکٹر مل بیٹھ کر سوچتے کہ فلم کے گانے کیسے ہوں گے اور کس اداکار پر کس گلوکار کی آواز فٹ بیٹھے گی ۔ لیکن آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ فلموں میں گلوکارہ ناہید اختر کے ساتھ میرا ایک پیئر ہوا تھا ،میرے سب سے زیادہ ہٹ گانے ناہید اختر کے ساتھ ہی ہیں۔ ہم دونوں سینے کے زور سے گانا گاتے تھے۔ گلوکارہ مہناز کے ساتھ بھی میرے ہٹ گانے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں سے لے کر شبنم مجید تک سب کے ساتھ میں نے گانے گائے ہیں اور 80ء کی دہائی کے تمام اداکاروں پر میری آواز میں گانے ہیں۔
''دل ہو گیا ہے تیر ا دیوانہ'' کے سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ یہ گانا مجھ سے چھینا گیا۔ اداکار وہدایتکار جاوید شیخ اور میوزک ڈائریکٹر امجد بوبی نے اس گانے کے لئے مجھے بلوایا ، جب ریکارڈنگ کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ یہ گانا تحسین جاوید کی آواز میں ریکارڈ ہوچکا ہے۔ جن دنوں ''مشکل '' کا میوزک ریکارڈ ہو رہا تھا کہ ایک روز ریکارڈنگ سٹوڈیو میں امجد بوبی سے ملنے گیا تو وہاں تحسین جاوید بھی موجود تھے۔
اس وقت تو مجھے پتہ نہ چل سکا کہ تحسین جاوید کس سلسلے میں یہاں آیا ہوا ہے ، حالانکہ ریکارڈسٹ ادریس بھٹی مجھے آگاہ کرچکے تھے کہ معاملہ گڑ بڑ لگ رہا ہے مگر میں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ موسیقار امجد بوبی نے یہ گانا گاڑی کی ڈینٹنگ پینٹنگ اورٹائر بدلی کروانے پر تحسین جاوید کو گفٹ کیا ہے۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ یہ گانا تحسین جاوید نے کیوں گایا؟ میرا گلہ امجد بوبی سے تھا کہ جن کے ساتھ میرا ایک طویل ساتھ رہا، انہوں نے چند پیسوں کے لالچ میں یہ ایسا کیوں کیا۔ گلوکار تحسین جاوید کے لئے پہلے بھی ایک گانا چھوڑا تھا، اگر وہ اجازت لے لیتا تو خوشی ہوتی۔ ویسے مجھے یہ گانا ذاتی طور پر بھی پسند تھا۔
فلم انڈسٹری کے بحران کے سوال پرانہوں نے کہا تھا کہ ڈائریکٹر ، میوزک ڈائریکٹر سمیت سبھی لوگوں کے لالچ نے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچایا، جنہوں نے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ٹیلنٹ اور معیاری کام کا قتل عام کیا۔ پنجابی گانوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فلم''دلاں دے سودے'' کے لئے ''بھل جان اے سب غم دنیا دے'' گایا تھااس کے علاوہ چند اور پنجابی گیت گائے مگر ہٹ نہیں ہوئے۔ کشور کمار سے ہونے والی یادگار ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ 1987ء میں امریکا کی ریاست لاس اینجلس میں میوزک کنسرٹ تھا ۔
جس کے پہلے روز ہم نے اور دوسرے روز کشور کمار سمیت دیگر بھارتی سنگرز نے پرفارم کرنا تھا۔ اس پروگرام کے پروموٹر کے ذریعے کشور کمار سے ملنے ان کے کمرے میں گیا تو وہاں ان کا بیٹا امیت کمار بھی موجود تھا۔ وہ واش روم سے نکل رہے تھے ، مجھے دیکھتے ہی کوئی سلام ودعا کرنے کی بجائے سیدھا ہی '' ارے تم ۔۔۔۔ تم نے ٹریجڈی گیت میں یوڈلنگ کردی '' (خوشی کا تاثر دینے کے لئے آواز کو اچانک تیکھا نکالنا) اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے ''دیکھو یہ پاکستان میں میرا نام روشن کر رہا ہے اور تم میری گود میں بیٹھ کر بدنام کر رہے ہو''۔ ان کے کہے یہ تعریفی کلمات زندگی کا سرمایہ ہیں۔
پاکستان میں فنکار اور گلوکار کی کوئی قدر نہیں حالانکہ ہمسایہ ملک بھارت میں آرٹسٹ کو مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد بہت عزت دی جاتی ہے ۔ وہاں پر آرٹسٹ کو مرنے نہیں دیا جاتا اور اس کو کسی نہ کسی بہانے کام میں مصروف رکھا جاتا ہے اس کے برعکس پاکستان میں ایسا نہیں ہے ، یہاں پر آرٹسٹ کو گھر میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ہمارے بہت سے فنکار شوبز سے دوری اختیار کرنے کے بعد کسمپرسی کی زندگی بس کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ وظیفہ بھی وقت پر نہیں ملتا۔
میں نے آخری گانا فلم ''شعلے'' میں گایا تھا یہ ریلیز نہیں ہوسکی ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ موسیقار روبن گھوش چند سال قبل جب پاکستان آئے تھے تو انہوں نے بنگلہ دیش آنے کے لئے کہا تھا کہ تم بنگلہ فلموں میں گاؤ کیونکہ میں نے ان کے ساتھ بنگالی فلم کے گانے گائے تھے ، انہیں وہ یاد تھے لیکن میں نے اپنے محسن روبن گھوش کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی۔گفتگو کے دوران بیٹے کے ذکر پر آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ ہ بس خدا کی مرضی تھی وہ چلا گیا۔ اپنے دوست دلدار پرویزبھٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ بہت عزیز دوست تھے اس کی اچانک موت پر بہت دکھ ہوا ، میں جب بھی یہ گیت'' اک بات کہوں دلدارا تیرے عشق نے ہم کو مارا'' گاتا تو دلدار پرویز بھٹی اس پرجھوم کر ناچتا تھا۔
اپنے 33 سالہ فلمی سفر میں اپنے بچوں کو صرف جوان ہوتے ہی دیکھا ، ان کے ساتھ وقت بہت کم گزارا کیونکہ میں 1971ء سے 2004ء تک دن رات مصروف ہی رہا۔ کشور کمار اور محمد رفیع کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھے پاکستان کا کشور کمار کہتے ہیں ، یہ اس لئے نہیں کہ میں کشور کمار بننا چاہتا ہوں یہ اس لئے کہ کشور کمار آواز کی جس پچ سے گاتے تھے میں بھی اسی پچ کے قریب قریب ہوں اور گانے کے دوران میری آواز کشور کمار کی پچ سے کہیں جا کر مل جاتی ہے ۔ آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر کسی کو گانے کی فیلڈ میں آنا ہے تو اس کو باقاعدہ طور پر گانا سیکھنا ہوگا لیکن اگر وہ آگیا ہے تو پھر یہ گانے اور گانا سننے والوں کے لئے روح کی غذا نہیں کچھ اور ہی ہے!!!
پلے بیک سنگنگ میں 70ء کی دہائی میں جب فلم انڈسٹری عروج پر تھی تو یہاں ہمیں صف اول کے گلوکاروں مہدی حسن، مسعود رانا ، احمد رشدی، غلام عباس، مجیب عالم ، نورجہاں، ناہید اختر، اخلاق احمد، منیر حسین، مہناز، رونا لیلی کے ساتھ ایک نام اے نیئر کا بھی نظر آتا ہے ۔ ''بینا تیرا نام'' ، ''یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا'' ، '' اک بات کہوں دلدارا'' ، ''میں تو جلا ایسا جیون بھر''، ''جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے ، سب نے یہ شور مچایا ہے، سالگرہ کا دن آیا ہے '' جیسے یادگار گیت گانے والا یہ گلوکار اب ہم میں نہیں رہا ۔ اے نیئر 17ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئے ۔
ان کا اصل نام آرتھر نیئر تھا ، کیرئیر کا آغاز ہدایتکار ریاض شاہد کی فلم ''بہشت '' سے کیا جس میں انہوں نے گلوکارہ روبینہ بدر کے ساتھ دو گانا '' یونہی دن کٹ جائیں'' گایا تھا ، انہیں اصل شہرت گلوکارہ ناہید اختر کے ساتھ گائے دو گانے '' پیار تو اک دن ہونا تھا'' سے ملی ۔ 1980ء کی دہائی میں اے نیئر عروج پر تھے اور پاکستانی فلمی صنعت میں وہ اور اخلاق احمد کو نمایاں حیثیت حاصل تھی اور اس دوران انہوں نے پانچ بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کئے۔راقم نے ایک سال قبل ان کا انٹرویو کیا ۔ جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف اوراق سے پردہ اٹھایا اس کی تفصیل نذر قارئین ہے ۔
'' مجھے شروع سے ہی پلے بیک سنگر بننے کا شوق تھا اور میں چاہتا تھا کہ لوگ میری آواز سنیں۔ بہر حال گھر والے سخت خلاف تھے ، اس کے باوجود گھر والوں سے رات کو چھپ کر ریڈیو پر استاد سلامت علی خان، استاد امانت علی خان سمیت دیگر گلوکاروں کو سنا کرتا۔ ریاض شاہد میرے محسن ہیں ان کی فیملی سے میرے گھریلو تعلقات تھے ۔
انہوں نے ہی اپنی فلم ''بہشت'' میں گانے کا موقع دیا ، جس کے میوزک ڈائریکٹر اے حمید تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاض شاہد کو سنسر بورڈ نے مارا جنہوں نے ان کی فلم ''یہ امن'' کو سنسر نہیں بلکہ انہیں کینسر کردیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی کاوش کو سراہتے ہوئے ٹیکس بھی معاف ہوجائے گا مگر شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ فلم ان کی زندگی کا روگ بن جائے گی۔ وہ اپنی زندگی میں میرے لئے سب کچھ کر گئے مگر ان کے بعد سنیئر کیمرہ مین بابربلال نے بھی بہت سپورٹ کیا۔
میرا پہلا سپرہٹ فلمی گیت تھا ہدایتکار جمشید نقوی کی فلم ''خریدار'' کا ''پیار تو اک دن ہونا تھا'' تھا۔وحید مراد ہو یا ندیم ، شاہد، غلام محی الدین اور محمدعلی سمیت کوئی بھی فنکار ہوتا ، اس کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے گیت ریکارڈ کرواتا۔ اسی لئے ان پر فلمائے جانے والے گانے ایسے ہی لگتے کہ جیسے انہوں نے ہی گائے ہیں۔ پہلے موسیقار اور فلم ڈائریکٹر مل بیٹھ کر سوچتے کہ فلم کے گانے کیسے ہوں گے اور کس اداکار پر کس گلوکار کی آواز فٹ بیٹھے گی ۔ لیکن آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ فلموں میں گلوکارہ ناہید اختر کے ساتھ میرا ایک پیئر ہوا تھا ،میرے سب سے زیادہ ہٹ گانے ناہید اختر کے ساتھ ہی ہیں۔ ہم دونوں سینے کے زور سے گانا گاتے تھے۔ گلوکارہ مہناز کے ساتھ بھی میرے ہٹ گانے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں سے لے کر شبنم مجید تک سب کے ساتھ میں نے گانے گائے ہیں اور 80ء کی دہائی کے تمام اداکاروں پر میری آواز میں گانے ہیں۔
''دل ہو گیا ہے تیر ا دیوانہ'' کے سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ یہ گانا مجھ سے چھینا گیا۔ اداکار وہدایتکار جاوید شیخ اور میوزک ڈائریکٹر امجد بوبی نے اس گانے کے لئے مجھے بلوایا ، جب ریکارڈنگ کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ یہ گانا تحسین جاوید کی آواز میں ریکارڈ ہوچکا ہے۔ جن دنوں ''مشکل '' کا میوزک ریکارڈ ہو رہا تھا کہ ایک روز ریکارڈنگ سٹوڈیو میں امجد بوبی سے ملنے گیا تو وہاں تحسین جاوید بھی موجود تھے۔
اس وقت تو مجھے پتہ نہ چل سکا کہ تحسین جاوید کس سلسلے میں یہاں آیا ہوا ہے ، حالانکہ ریکارڈسٹ ادریس بھٹی مجھے آگاہ کرچکے تھے کہ معاملہ گڑ بڑ لگ رہا ہے مگر میں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ موسیقار امجد بوبی نے یہ گانا گاڑی کی ڈینٹنگ پینٹنگ اورٹائر بدلی کروانے پر تحسین جاوید کو گفٹ کیا ہے۔ دکھ اس بات کا نہیں کہ یہ گانا تحسین جاوید نے کیوں گایا؟ میرا گلہ امجد بوبی سے تھا کہ جن کے ساتھ میرا ایک طویل ساتھ رہا، انہوں نے چند پیسوں کے لالچ میں یہ ایسا کیوں کیا۔ گلوکار تحسین جاوید کے لئے پہلے بھی ایک گانا چھوڑا تھا، اگر وہ اجازت لے لیتا تو خوشی ہوتی۔ ویسے مجھے یہ گانا ذاتی طور پر بھی پسند تھا۔
فلم انڈسٹری کے بحران کے سوال پرانہوں نے کہا تھا کہ ڈائریکٹر ، میوزک ڈائریکٹر سمیت سبھی لوگوں کے لالچ نے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچایا، جنہوں نے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ٹیلنٹ اور معیاری کام کا قتل عام کیا۔ پنجابی گانوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فلم''دلاں دے سودے'' کے لئے ''بھل جان اے سب غم دنیا دے'' گایا تھااس کے علاوہ چند اور پنجابی گیت گائے مگر ہٹ نہیں ہوئے۔ کشور کمار سے ہونے والی یادگار ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ 1987ء میں امریکا کی ریاست لاس اینجلس میں میوزک کنسرٹ تھا ۔
جس کے پہلے روز ہم نے اور دوسرے روز کشور کمار سمیت دیگر بھارتی سنگرز نے پرفارم کرنا تھا۔ اس پروگرام کے پروموٹر کے ذریعے کشور کمار سے ملنے ان کے کمرے میں گیا تو وہاں ان کا بیٹا امیت کمار بھی موجود تھا۔ وہ واش روم سے نکل رہے تھے ، مجھے دیکھتے ہی کوئی سلام ودعا کرنے کی بجائے سیدھا ہی '' ارے تم ۔۔۔۔ تم نے ٹریجڈی گیت میں یوڈلنگ کردی '' (خوشی کا تاثر دینے کے لئے آواز کو اچانک تیکھا نکالنا) اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے ''دیکھو یہ پاکستان میں میرا نام روشن کر رہا ہے اور تم میری گود میں بیٹھ کر بدنام کر رہے ہو''۔ ان کے کہے یہ تعریفی کلمات زندگی کا سرمایہ ہیں۔
پاکستان میں فنکار اور گلوکار کی کوئی قدر نہیں حالانکہ ہمسایہ ملک بھارت میں آرٹسٹ کو مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد بہت عزت دی جاتی ہے ۔ وہاں پر آرٹسٹ کو مرنے نہیں دیا جاتا اور اس کو کسی نہ کسی بہانے کام میں مصروف رکھا جاتا ہے اس کے برعکس پاکستان میں ایسا نہیں ہے ، یہاں پر آرٹسٹ کو گھر میں مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ہمارے بہت سے فنکار شوبز سے دوری اختیار کرنے کے بعد کسمپرسی کی زندگی بس کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ وظیفہ بھی وقت پر نہیں ملتا۔
میں نے آخری گانا فلم ''شعلے'' میں گایا تھا یہ ریلیز نہیں ہوسکی ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ موسیقار روبن گھوش چند سال قبل جب پاکستان آئے تھے تو انہوں نے بنگلہ دیش آنے کے لئے کہا تھا کہ تم بنگلہ فلموں میں گاؤ کیونکہ میں نے ان کے ساتھ بنگالی فلم کے گانے گائے تھے ، انہیں وہ یاد تھے لیکن میں نے اپنے محسن روبن گھوش کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کرلی تھی۔گفتگو کے دوران بیٹے کے ذکر پر آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ ہ بس خدا کی مرضی تھی وہ چلا گیا۔ اپنے دوست دلدار پرویزبھٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ بہت عزیز دوست تھے اس کی اچانک موت پر بہت دکھ ہوا ، میں جب بھی یہ گیت'' اک بات کہوں دلدارا تیرے عشق نے ہم کو مارا'' گاتا تو دلدار پرویز بھٹی اس پرجھوم کر ناچتا تھا۔
اپنے 33 سالہ فلمی سفر میں اپنے بچوں کو صرف جوان ہوتے ہی دیکھا ، ان کے ساتھ وقت بہت کم گزارا کیونکہ میں 1971ء سے 2004ء تک دن رات مصروف ہی رہا۔ کشور کمار اور محمد رفیع کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ مجھے پاکستان کا کشور کمار کہتے ہیں ، یہ اس لئے نہیں کہ میں کشور کمار بننا چاہتا ہوں یہ اس لئے کہ کشور کمار آواز کی جس پچ سے گاتے تھے میں بھی اسی پچ کے قریب قریب ہوں اور گانے کے دوران میری آواز کشور کمار کی پچ سے کہیں جا کر مل جاتی ہے ۔ آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر کسی کو گانے کی فیلڈ میں آنا ہے تو اس کو باقاعدہ طور پر گانا سیکھنا ہوگا لیکن اگر وہ آگیا ہے تو پھر یہ گانے اور گانا سننے والوں کے لئے روح کی غذا نہیں کچھ اور ہی ہے!!!