مہر گڑھ کے باسی ہزاروں سال پہلے بھی دھاتی ڈھلائی کے جدید طریقے جانتے تھے
بلوچستان کےآثارقدیمہ مہرگڑھ سےملنے والے 6 ہزار سال پرانے تانبے کے لاکٹ کو دورحاضر میں مستعمل طریقے سے ڈھالاگیا، ماہرین
ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے دریافت کیا ہے کہ بلوچستان، پاکستان کی قدیم تہذیب مہر گڑھ کے رہنے والے لوگ ڈھلائی کے جدید طریقوں سے بھی واقف تھے۔
اس بات کا انکشاف فرانسیسی ماہر میتھیو تھوری اور ان کے ساتھیوں نے ایک جدید و حساس تکنیک استعمال کرتے ہوئے کیا ہے جس کی تفصیلات ریسرچ جرنل ''نیچر کمیونی کیشنز'' کے تازہ شمارے میں آج شائع ہوئی ہیں۔
اس تکنیک میں پہلے کسی نمونے پر خاص طرح کی روشنی ڈالی جاتی ہے جو اس میں جذب ہونے کے بعد واپس خارج ہوتی ہے؛ اور اس دوبارہ خارج ہونے والی روشنی کے طیف (اسپیکٹرم) کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس نمونے میں موجود اُن اجزاء کا بھی پتا چلایا جاتا ہے جو بہت ہی معمولی مقدار میں شامل ہوں۔
واضح رہے کہ مہر گڑھ کی تہذیب 9000 سے 4500 سال قدیم ہے جسے 1974 میں فرانسیسی ماہرین نے دریافت کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں 6500 قبلِ مسیح میں (یعنی آج سے 8500 سال پہلے) باقاعدہ کاشتکاری ہوا کرتی تھی؛ اور یوں مہر گڑھ جنوبی ایشیاء میں زراعت کا قدیم ترین مقام بھی قرار پایا۔ مہر گڑھ سے دندان سازی میں استعمال ہونے والے 7000 سال قدیم اوزار بھی دریافت ہوئے جن سے ثابت ہوا کہ دنیا کے اوّلین دندان ساز بھی اسی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے۔
مختلف کھدائیوں کے دوران یہاں سے ہزاروں سال قدیم مختلف باقیات دستیاب ہوئیں جن میں تانبے سے بنا ہوا 6000 سال قدیم ایک بڑا لاکٹ (ایمیولیٹ) بھی شامل تھا۔ اس کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ زراعت اور دندان سازی کی طرح یہ بھی ڈھلائی کی قدیم ترین مثال ہے لیکن اب تک یہ بات پوری طرح سے ثابت نہیں ہوسکی تھی۔
میتھیو تھوری اور ان کے ساتھیوں نے اپنی جدید تکنیک اسی لاکٹ پر آزمائی اور تصدیق کی کہ اسے موم استعمال کرکے بنائے گئے، مٹی کے ایک خاص سانچے کی مدد سے ڈھالا گیا تھا۔ ڈھلائی کا یہ طریقہ جسے ''لاسٹ ویکس کاسٹنگ'' (lost-wax casting) کہا جاتا ہے، آج بھی بعض چیزوں کی نقلیں تیار کرنے میں استعمال ہورہا ہے۔
اس طریقے میں پہلے کسی چیز کو موم استعمال کرتے ہوئے ابتدائی شکل میں تیار کیا جاتا ہے جس کے بعد اسے نرم چکنی مٹی میں دباکر بند کردیا جاتا ہے تاکہ اس کی ساخت نرم مٹی میں نقش ہوجائے۔ مٹی کو سوکھنے کےلئے کچھ وقت دیا جاتا ہے اور پھر اس میں ایک جانب سے سوراخ کرکے پگھلی ہوئی دھات داخل کردی جاتی ہے جو بڑی تیزی سے موم کو پگھلا کر نکال باہر کرتی ہے اور خود اس کی جگہ لے لیتی ہے۔
اپنے مطالعے کے دوران فرانسیسی ماہرین نے مہر گڑھ سے ملنے والے لاکٹ میں شامل اجزاء کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا اور بتایا کہ اس میں تانبے کے اندر موم کے ایسے چھوٹے اور خردبینی ذرّات آج تک موجود ہیں جو اس سے پہلے دیکھے نہیں جاسکے تھے۔ یہ ذرّات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسے ڈھلائی کی مومی تکنیک استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا۔
اسی لاکٹ کے بارے میں ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ اسے مختلف ٹکڑے جوڑ کر نہیں بلکہ سالم حالت میں تیار کیا گیا تھا اور اس کی تیاری میں پگھلا ہوا خالص تانبا استعمال کیا گیا تھا۔
یہ تمام معلومات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مہر گڑھ کے رہنے والے صرف دھات کاری (میٹالرجی) سے واقف ہی نہیں تھے بلکہ وہ دھاتوں کو خالص بنانے سے لے کر ان سے مختلف اشیاء ڈھالنے کے ہنر سے بھی بخوبی واقف تھے۔ یعنی اب یہ بات بھی بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ مہر گڑھ کی تہذیب نہ صرف زراعت اور دندان سازی میں بلکہ دھات کاری اور ڈھلائی کے اہم طریقوں میں بھی اوّلین تھی۔
اس بات کا انکشاف فرانسیسی ماہر میتھیو تھوری اور ان کے ساتھیوں نے ایک جدید و حساس تکنیک استعمال کرتے ہوئے کیا ہے جس کی تفصیلات ریسرچ جرنل ''نیچر کمیونی کیشنز'' کے تازہ شمارے میں آج شائع ہوئی ہیں۔
اس تکنیک میں پہلے کسی نمونے پر خاص طرح کی روشنی ڈالی جاتی ہے جو اس میں جذب ہونے کے بعد واپس خارج ہوتی ہے؛ اور اس دوبارہ خارج ہونے والی روشنی کے طیف (اسپیکٹرم) کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اس نمونے میں موجود اُن اجزاء کا بھی پتا چلایا جاتا ہے جو بہت ہی معمولی مقدار میں شامل ہوں۔
واضح رہے کہ مہر گڑھ کی تہذیب 9000 سے 4500 سال قدیم ہے جسے 1974 میں فرانسیسی ماہرین نے دریافت کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہاں 6500 قبلِ مسیح میں (یعنی آج سے 8500 سال پہلے) باقاعدہ کاشتکاری ہوا کرتی تھی؛ اور یوں مہر گڑھ جنوبی ایشیاء میں زراعت کا قدیم ترین مقام بھی قرار پایا۔ مہر گڑھ سے دندان سازی میں استعمال ہونے والے 7000 سال قدیم اوزار بھی دریافت ہوئے جن سے ثابت ہوا کہ دنیا کے اوّلین دندان ساز بھی اسی تہذیب سے تعلق رکھتے تھے۔
مختلف کھدائیوں کے دوران یہاں سے ہزاروں سال قدیم مختلف باقیات دستیاب ہوئیں جن میں تانبے سے بنا ہوا 6000 سال قدیم ایک بڑا لاکٹ (ایمیولیٹ) بھی شامل تھا۔ اس کے بارے میں ماہرین کا کہنا تھا کہ زراعت اور دندان سازی کی طرح یہ بھی ڈھلائی کی قدیم ترین مثال ہے لیکن اب تک یہ بات پوری طرح سے ثابت نہیں ہوسکی تھی۔
میتھیو تھوری اور ان کے ساتھیوں نے اپنی جدید تکنیک اسی لاکٹ پر آزمائی اور تصدیق کی کہ اسے موم استعمال کرکے بنائے گئے، مٹی کے ایک خاص سانچے کی مدد سے ڈھالا گیا تھا۔ ڈھلائی کا یہ طریقہ جسے ''لاسٹ ویکس کاسٹنگ'' (lost-wax casting) کہا جاتا ہے، آج بھی بعض چیزوں کی نقلیں تیار کرنے میں استعمال ہورہا ہے۔
اس طریقے میں پہلے کسی چیز کو موم استعمال کرتے ہوئے ابتدائی شکل میں تیار کیا جاتا ہے جس کے بعد اسے نرم چکنی مٹی میں دباکر بند کردیا جاتا ہے تاکہ اس کی ساخت نرم مٹی میں نقش ہوجائے۔ مٹی کو سوکھنے کےلئے کچھ وقت دیا جاتا ہے اور پھر اس میں ایک جانب سے سوراخ کرکے پگھلی ہوئی دھات داخل کردی جاتی ہے جو بڑی تیزی سے موم کو پگھلا کر نکال باہر کرتی ہے اور خود اس کی جگہ لے لیتی ہے۔
اپنے مطالعے کے دوران فرانسیسی ماہرین نے مہر گڑھ سے ملنے والے لاکٹ میں شامل اجزاء کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا اور بتایا کہ اس میں تانبے کے اندر موم کے ایسے چھوٹے اور خردبینی ذرّات آج تک موجود ہیں جو اس سے پہلے دیکھے نہیں جاسکے تھے۔ یہ ذرّات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسے ڈھلائی کی مومی تکنیک استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا۔
اسی لاکٹ کے بارے میں ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ اسے مختلف ٹکڑے جوڑ کر نہیں بلکہ سالم حالت میں تیار کیا گیا تھا اور اس کی تیاری میں پگھلا ہوا خالص تانبا استعمال کیا گیا تھا۔
یہ تمام معلومات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مہر گڑھ کے رہنے والے صرف دھات کاری (میٹالرجی) سے واقف ہی نہیں تھے بلکہ وہ دھاتوں کو خالص بنانے سے لے کر ان سے مختلف اشیاء ڈھالنے کے ہنر سے بھی بخوبی واقف تھے۔ یعنی اب یہ بات بھی بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ مہر گڑھ کی تہذیب نہ صرف زراعت اور دندان سازی میں بلکہ دھات کاری اور ڈھلائی کے اہم طریقوں میں بھی اوّلین تھی۔