جوابدہی پر مبنی حکمرانی کا خواب

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ان کے وکیل نعیم بخاری نے 686 صفحات پر مشتمل دستاویزات معہ شواہد جمع کرادیے


Editorial November 15, 2016
چیف جسٹس نے کہا کہ پاناما لیکس کیس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں کہ شاید ایک الگ سیل قائم کرنا پڑے۔ فوٹو:فائل

منگل کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پاناما لیکس کیس کی سماعت شروع کی۔ میڈیا کے مطابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی طرف سے ان کے وکلا نے اپنے اثاثوں کے قانونی ہونے اور ٹرانزیکشنز کی تفصیل اور مختلف ادائیگیوں کی رسیدوں پر مبنی 400 دستاویزی ثبوت و شواہد جمع کرادیے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ان کے وکیل نعیم بخاری نے 686 صفحات پر مشتمل دستاویزات معہ شواہد جمع کرادیے جن میں شریف خاندان کے بینک اکاؤنٹس اور قرضوں کی تفصیلات تھیں، وزیراعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ نے ایک قطری شہزادہ حمد بن جاسم بن جبار الثانی کا تصدیق شدہ خط پیش کیا جس میں شہزادہ حمد نے شریف خاندان سے اپنے ذاتی اور کاروباری مراسم کی تفصیل دی تھی جس پر عدالت نے استفسارکیا کہ جس شخصیت کا نام لے رہے ہیں تو کیا بطور گواہ بلوانے پر وہ پیش ہونگے، عدالت نے ان کی پیش کردہ دستاویز کی حساسیت پر بھی سوال اٹھایا۔

اسی طرح پی ٹی آئی اور شیخ رشید کی طرف سے جو ضخیم دستاویزات جمع کرائی گئیں ان پر بھی عدلیہ کی تشویش اور ججز کے ریماکس دلچسپ و چشم کشا تھے، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے 600 دستاویزات جمع ہوئیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پاناما لیکس کیس پر اتنی درخواستیں آرہی ہیں کہ شاید ایک الگ سیل قائم کرنا پڑے، انھوں نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ تفتیشی ادارہ نہیں، عدالت صرف لندن فلیٹس پر فوکس کریگی، جسٹس عظمت شیخ نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آپ نے اخباری تراشے جمع کرائے ہیں، جو الف لیلیٰ کی کہانیاں ہیں، پہلے آپ نے 4 فلیٹس کا کہا اب1982سے لے کر آج تک کی دستاویزات جمع کرادیں۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر ان دستاویزات کا جائزہ لیا جائے تو 6 ماہ میں بھی رپورٹ نہیں آسکے گی۔ادھر وزیراعظم کے بچوں کے مزید مطلوبہ شواہد و دستاویزات کی فراہمی کے لیے اکرم شیخ نے عدالت سے 14 دنوں کی مہلت مانگی تاہم عدالت نے مقررہ مدت میں دستاویزات کی فراہمی کے حکم کی عدم تعمیل پر برہمی کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ صرف 7 دن کے اندر دستاویزات جمع کرائی جائیں۔ اکرم شیخ نے پاناما لیکس کیس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے استدعا کی کہ عدالت عظمیٰ خود اس کیس کی سماعت جاری رکھے۔ تاہم عدالت نے واضح کیا کہ اس کیس کا وہ جلد فیصلہ کرنا چاہتی ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ ملک کی عدالتی تاریخ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت غیر معمولی تناظر میں جاری ہے جس میں پاناما لیکس پیپرز میں لگائے جانے والے سنگین الزامات آف شور کمپنیوں میں کی گئی خفیہ سرمایہ کاری، ٹیکس چوری اور بد عنوانی کے دیگر حربوں کی اعلیٰ سطح پر شفاف جوڈیشیل انکوائری کے جو مطالبات اپوزیشن جماعتوں نے میڈیا میں پیش کیے ان کا منطقی نتیجہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی صورت برآمد ہوا اور اب عدالت عظمیٰ اس بات کا فیصلہ کرنے جارہی ہے کہ آیا جمع شدہ دستاویزات اور شواہد اس قدر ٹھوس، ناقابل تردید، درست اور کیس کے سیاق و سباق سے متعلق واقعی شفاف ہیں کہ ان کی روشنی میں عدالتی کمیشن کے قیام کا فیصلہ دیا جائے۔

پاناما لیکس پیپرز میں دیگر پاکستانیوں کے بھی نام شامل ہیں، یہ درحقیقت پینڈورا باکس ہے ، جب کہ ایک دوسری لسٹ بھی مشتہر ہوئی، اس میں مزید 400 ایسے پاکستانیوں کے نام شامل تھے جن کی آف شور کمپنیوں ، املاک اور اثاثوں سے تعلق ظاہر کیا گیا۔ عدالت کے پیش نظر ایک تہ در تہہ کیس ہے جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ وزیراعظم سمیت ان کے بچے، کرپٹ سیاست دان، بیوروکریٹس، صنعتکار، تاجر اور بااثر افراد مالی بدعنوانی کے ذریعے ملک سے پیسہ باہر لے جا کر خفیہ سرمایہ کاری کے مرتکب ہوئے، یہ المیہ ہے کہ کرپشن اور غیر ملکی جزائر میں قائم آف شور کمپنیوں کے پاکستانی مالکوں کے خلاف پارلیمنٹ سے صرف نظر کیا گیا۔

حکومت اور اپوزیشن لیڈر پاناما لیکس پیپرز کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے متفقہ ٹرمز آف ریفرنس(ٹی او آرز) طے نہیں کرسکے ، وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے عدالتی کمیشن کے قیام کی درخواست کی تھی ، مگر چیف جسٹس نے تکنیکی بنیاد پر وفاق کو جو صائب رائے دی آج عدالت عظمیٰ اسی کی بنیاد پر کیس کی سماعت کا فریضہ ادا کررہی ہے جو کئی بار بد انتظامی ، بیڈ گورننس اور عوام کو درپیش سنگین مسائل اور درد انگیز مصائب پر ریمارکس دیتی اور انتباہ کرتی رہی ہے کہ صورتحال کو کنٹرول کیا جائے۔

لہٰذا اب ملکی سیاسی معاشی اور سماجی نظم حکمرانی میں شفافیت ناگزیر اصول کا درجہ پا گئی ہے، قانون کا ہاتھ ہر اس ان ٹچ ایبل تک پہنچے جو قانون سے بالاتر ہونے کے باعث پورے نظام کی تباہی کا سبب بنتا گیا۔ اب عنوانیوں کے خاتمے کے لیے جو تاریخی مقدمہ عدالت عظمیٰ کے روبرو ہے وہ ہر حالت میں سنگ میل ہونا چاہیے تاکہ دنیا تک پیغام جائے کہ پاکستان میں جوابدہی پر مبنی حکمرانی کا نیا باب کھلنے والا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں