روشن خیالی کے چراغ اور سبط حسن
سبط حسن جامد عقیدوں کی سیر کراتے ہوئے ہمیں ارتقا کے میدانوں تک لے گئے
ہمارے جید مارکسی دانشور اور مفکر سید سبط حسن نے شاہی قلعہ لاہور کے تاریک تہ خانوں میں ایک خواب دیکھا اور جب آزاد ہوئے تو برسوں کی ریاضت کے بعد ''ماضی کے مزار'' سامنے آئی۔
اس سے پہلے پروفیسر سید عین الحق اور جناب ابن حنیف مشرق کی قدیم اور معدوم ہوجانے والی تہذیبوں پر وقیع کتابیں لکھ چکے تھے لیکن ان دونوں نے ماضی کو نصابی انداز اور ایک مورخ کی نظر سے دیکھا تھا۔ سبط حسن نے ابتدا سے ہی اپنی فکر کا رشتہ مارکس کی جدلیاتی سوچ سے استوار رکھا۔ اپنی ڈیڑھ درجن سے زیادہ کتابوں میں وہ ہمارے سامنے ایک انتھروپولوجسٹ، سوشولوجسٹ، تاریخ داں اور فلسفی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آخری سانس تک مارکس وادی تھے، لیکن انھیں یہ کہنے میں کوئی الجھن نہیں تھی کہ ''سرمایہ دار یورپ نے علم و حکمت اور ادب و فن میں جو ترقی کی اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔''
وہ جب گزری ہوئی تہذیبوںکے عقیدۂ تخلیق کا جائزہ لینے بیٹھے تو انھوں نے اسے نصابی انداز میں نہیں لکھا بلکہ ملکی حالات سے جوڑ کر دیکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی رہنمائی میں شوکتِ اسلام کا قافلہ روانہ ہوچکا تھا۔ ملک پر اشاعرہ کے خیالات کی بالادستی تھی۔ مذہبی انتہاپسندی اپنے عروج پر تھی اور سائنسی حوالوں سے بات کرنے والے گردن زدنی ٹھہر رہے تھے۔ ایسے میں سبط صاحب نے اہل بابل، قدیم مصر، قدیم چینیوں، کنعانیوں، آریاؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدۂ تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کے عقیدۂ تخلیق کو بھی اس ذکر اذکار میں سمو لیا اور ایک ایسے زمانے میں جب خرد افروزی کی بات کرنے والے زندیق ٹھہرتے تھے، سبط حسن یہ لکھ رہے تھے کہ مسلمانوں کے عقیدۂ تخلیق میں بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح تقدیر حرفِ آخر تھی، انسان مجبور محض تھا اور اسلام کی رو سے حاکمِ وقت کے سامنے سر جھکانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ آنے والے دنوں میں یہی حربہ امیرالمومنین ضیاء الحق استعمال کرنے والے تھے۔
وہ تاریخ اسلام کے ابتدائی برسوں میں جبرو قدر کی بحث پر روشنی ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''جبرو قدر فقط فقہی مسئلہ نہ تھا بلکہ اس کے مضمرات معاشرتی اور سیاسی بھی تھے۔ خلافتِ راشدہ کے دوران اور اس کے بعد اقتدار کی جنگ نے جبرو اختیار کی بحث کو خالص سیاسی رنگ دیا۔ بنی اُمیہ جانتے تھے کہ فلسفۂ قدر کی زد براہ راست ان کے اقتدار پر پڑتی ہے، کیونکہ یہ فلسفہ آزادی عمل کی دعوت دیتا ہے۔ معتزلہ کی کوششوں سے جب بنو اُمیہ کو شکست ہوئی، عباسی سریر آرائے سلطنت ہوئے تو صرف ایک صدی بعد معتزلہ پر ایک بار پھر زوال آیا۔
شاہوں اور بادشاہوں کو فکر و عمل کی آزادی کا فلسفہ بھلا کیسے خوش آسکتا تھا۔ معتزلہ اس بار جب عباسیوں کے جبر کی چکی میں پیسے گئے تو ان کی راکھ بھی نہیں بچی۔ تاریخ کا یہ وہ مرحلہ تھا جب مسلمانوں کے فکری زوال کا آغاز ہوا۔ صاحبانِ اقتدار، عوام الناس کو یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ تمہاری مصیبتوں کے ذمے دار تمہارے حکمران یا ان کا دیا ہوا سیاسی اور معاشی نظام نہیں، یہ وہ نوشتہ ہے جو ازل سے لوحِ تقدیر پر لکھ دیا گیا ہے چنانچہ صبر و شکر سے کام لو اور قسام ازل کے فیصلے پر سر جھکا دو۔
ایک ایسے دور میں جب ملک آمریت کے شکنجے میں تھا۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بحث کو اٹھانا اور یہ لکھنا کس قدر خطرناک بات تھی کہ آمرو جابر کے سامنے سرِ تسلیم خم مت کرو۔ سبط حسن شاہی قلعے کی قید چکھ کر نکلے تھے۔ انھوں نے حسن ناصر کے سفاکانہ قتل کو 'خودکشی' میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا، اس کے باوجود وہ 'تقدیر اور لوحِ تقدیر' ایسا مضمون لکھ کر اپنے نوجوانوں کو بغاوت اور انحراف کا راستہ دکھا رہے تھے۔
انھوں نے اہل بابل سے مسلمانوں کے عقیدۂ تخلیق تک سب ہی کا جائزہ لیا اور جب وہ سولہویں صدی کی ابتدا تک آتے ہیں تو جامد عقیدوں کے حصار سے نکل کر سرمایہ داری نظام کی ابتدا کو کلیسا کے مفاد سے ٹکراتے ہوئے دکھاتے ہیں، اسی کے بعد کیتھولک کی جگہ پروٹسٹنٹ فرقے کا ابھار، پوپ کے اثر و رسوخ میں کمی، چھاپہ خانوں کے پھیلاؤ سے نئے خیالات، سائنسی دریافتوں اور صنعتی ترقی کی منزلیں سہل ہونے لگیں۔ روایت پرستی کی جگہ سوالوں کا سیلاب آگیا۔ وہ لمارک اور چارلس ڈارون کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب 1859ء میں ڈارون کی کتاب Origin of Species شایع ہوئی تو اس نے تہلکہ مچادیا اور ایک دن میں اس کی تمام جلدیں فروخت ہوگئیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ 'ماضی کے مزار' میں جہاں وہ ہمیں چین سے کنعان تک کے عقیدۂ تخلیق کے بارے میں بتاتے ہیں، وہیں وہ ہماری ملاقات دنیا کے پہلے ضابطۂ قانون سے بھی کراتے ہیں۔ حمورابی کے یہ قوانین جو اس نے بارہویں صدی قبل مسیح مرتب کیے تھے ان کا بطور خاص ذکر 'ماضی کے مزار' میں کیوں ہوا؟
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم چونکہ اپنے صدیوں پرانے قوانین کے بارے میں یہ مغالطہ رکھتے ہیں کہ دنیا میں پہلی مرتبہ ان کا ظہور ہوا تھا۔ تو سبط صاحب اس بات کو رد کیے بغیر اس وقت سے سترہ سو برس پہلے کے قوانین ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں اور سوچنے سمجھنے والے لوگوں پر یہ بات چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان قوانین میں اولیت کے معاملے کو خود طے کرلیں، زمین سخت اور آسمان دور ہو تو ہر حقیقت بہ بانگ دُہل بیان نہیں کی جاتی، اس کی طرف حقائق اور دلیلوں کی روشنی میں اشارہ کردیا جاتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کے علم پر مدت تک مندر کے پروہتوں اور شاہی خاندان کے افراد کی اجارہ داری رہی کیونکہ علم کو عام کرنا اربابِ اقتدار کے مفاد کے خلاف تھا۔ جس طرح آج بھی ہمارے جاگیردار، وڈیرے، تمن دار اور سجادہ نشین حضرات کو عوام کی تعلیم کے نام سے بخار چڑھتا ہے۔ ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہ صرف علم اور تعلیم ہے جو چاکری کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کی تقدیر کا قفل کھول دیتی ہے۔
وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب تک دنیا کے مختلف ملکوں اور تہذیبوں کا مرکزی خیال بادشاہ اور پروہت کی اطاعت تھا، ا وقت تک انسان آزادانہ سوچ سے محروم تھا۔ اس صورت حال کو انھوں نے یوں بیان کیا ہے کہ ہر چہار جانب اطاعت کا جال بچھا ہوا تھا اور انسان کے لیے اس جال سے نکلنا محال تھا۔ آج بھی ہمارے یہاں 'اطاعت' سب سے بڑا ہُنر ہے اور 'سوال' کلمۂ کفر ٹھہرتا ہے۔ ان کی تحریریں اطاعت کا جال توڑنے کی اُمنگ پیدا کرتی ہیں۔
سبط حسن جامد عقیدوں کی سیر کراتے ہوئے ہمیں ارتقا کے میدانوں تک لے گئے، اپنی اس کتاب میں وہ زمانہ قدیم کے علما کے نام بتاتے ہیں اور وہ بارھویں صدی قبل مسیح کے علماء سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہزاروں برس پہلے گزر جانے والے اہل قلم موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ لوگ اپنی اولاد کے لیے دولت کے ڈھیر چھوڑ کر نہیں گئے لیکن دانائی کی باتوں سے بھری ہوئی ان کی تحریریں لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ وہ کتاب کا رتبہ فراعنہ کے اہرام سے بلند بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک اچھی کتاب کسی عالی شان مقبرے سے زیادہ عظیم المرتبت ہوتی ہے۔
سائنس جو ایک تاریخی، حرکی اور انقلابی قوت ہے، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام نے جاگیر داری کے تینوں ستون ملوکیت، نوابیت اور کلیسائیت گرادیے۔ ان ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے جو نظریات وجود میں آئے، ان کی روشنی میں تخلیق کے پرانے عقیدے داستان پارینہ ہوگئے۔ انھیں اس بات کا بے حد قلق تھا کہ عام انسانوں کو ان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کرنے کے بجائے ہمارے علمائے سُو انھیں مختلف بنیادوں پر تقسیم کررہے ہیں اور جدید سائنسی سوچ سے ہم کنار کرنے کے بجائے انھیں خیالی جنت کے خواب دکھا کر خواب خرگوش میں مبتلا رہنے کا سامان کررہے ہیں۔
سبط حسن ہمارے درمیان سے اٹھا لیے گئے لیکن انھوں نے ہمارے لیے غورو فکر کے جو راستے کھولے، وہ آج کچھ اور کشادہ ہورہے ہیں۔ ایک ایسا سماج جہاں کسی مشہور لکھنے والے کی کتاب دس برس میں ایک ہزار بکتی ہو اسی سماج میں سبط حسن کی کتابوں کے درجنوں ایڈیشن فروخت ہوتے ہیں۔ ماضی کے مزار کا اٹھارواں ایڈیشن ہمارے ہاتھ میں ہے۔ خرد افروزی کو فروغ دینے والی ان کی کتابیں آیندہ بھی اسی طرح فروخت ہوتی رہیں گی۔ آج علم دشمنی کے اندھیرے میں روشن خیالی کے جو چراغ جل رہے ہیں ان میں سبط حسن کے نتائج فکر کا تیل جلتا ہے۔
(سبط حسن صدی کانفرنس میں پڑھا گیا)
اس سے پہلے پروفیسر سید عین الحق اور جناب ابن حنیف مشرق کی قدیم اور معدوم ہوجانے والی تہذیبوں پر وقیع کتابیں لکھ چکے تھے لیکن ان دونوں نے ماضی کو نصابی انداز اور ایک مورخ کی نظر سے دیکھا تھا۔ سبط حسن نے ابتدا سے ہی اپنی فکر کا رشتہ مارکس کی جدلیاتی سوچ سے استوار رکھا۔ اپنی ڈیڑھ درجن سے زیادہ کتابوں میں وہ ہمارے سامنے ایک انتھروپولوجسٹ، سوشولوجسٹ، تاریخ داں اور فلسفی کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آخری سانس تک مارکس وادی تھے، لیکن انھیں یہ کہنے میں کوئی الجھن نہیں تھی کہ ''سرمایہ دار یورپ نے علم و حکمت اور ادب و فن میں جو ترقی کی اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔''
وہ جب گزری ہوئی تہذیبوںکے عقیدۂ تخلیق کا جائزہ لینے بیٹھے تو انھوں نے اسے نصابی انداز میں نہیں لکھا بلکہ ملکی حالات سے جوڑ کر دیکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی کی رہنمائی میں شوکتِ اسلام کا قافلہ روانہ ہوچکا تھا۔ ملک پر اشاعرہ کے خیالات کی بالادستی تھی۔ مذہبی انتہاپسندی اپنے عروج پر تھی اور سائنسی حوالوں سے بات کرنے والے گردن زدنی ٹھہر رہے تھے۔ ایسے میں سبط صاحب نے اہل بابل، قدیم مصر، قدیم چینیوں، کنعانیوں، آریاؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدۂ تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کے عقیدۂ تخلیق کو بھی اس ذکر اذکار میں سمو لیا اور ایک ایسے زمانے میں جب خرد افروزی کی بات کرنے والے زندیق ٹھہرتے تھے، سبط حسن یہ لکھ رہے تھے کہ مسلمانوں کے عقیدۂ تخلیق میں بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح تقدیر حرفِ آخر تھی، انسان مجبور محض تھا اور اسلام کی رو سے حاکمِ وقت کے سامنے سر جھکانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ آنے والے دنوں میں یہی حربہ امیرالمومنین ضیاء الحق استعمال کرنے والے تھے۔
وہ تاریخ اسلام کے ابتدائی برسوں میں جبرو قدر کی بحث پر روشنی ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''جبرو قدر فقط فقہی مسئلہ نہ تھا بلکہ اس کے مضمرات معاشرتی اور سیاسی بھی تھے۔ خلافتِ راشدہ کے دوران اور اس کے بعد اقتدار کی جنگ نے جبرو اختیار کی بحث کو خالص سیاسی رنگ دیا۔ بنی اُمیہ جانتے تھے کہ فلسفۂ قدر کی زد براہ راست ان کے اقتدار پر پڑتی ہے، کیونکہ یہ فلسفہ آزادی عمل کی دعوت دیتا ہے۔ معتزلہ کی کوششوں سے جب بنو اُمیہ کو شکست ہوئی، عباسی سریر آرائے سلطنت ہوئے تو صرف ایک صدی بعد معتزلہ پر ایک بار پھر زوال آیا۔
شاہوں اور بادشاہوں کو فکر و عمل کی آزادی کا فلسفہ بھلا کیسے خوش آسکتا تھا۔ معتزلہ اس بار جب عباسیوں کے جبر کی چکی میں پیسے گئے تو ان کی راکھ بھی نہیں بچی۔ تاریخ کا یہ وہ مرحلہ تھا جب مسلمانوں کے فکری زوال کا آغاز ہوا۔ صاحبانِ اقتدار، عوام الناس کو یقین دلانے میں کامیاب رہے کہ تمہاری مصیبتوں کے ذمے دار تمہارے حکمران یا ان کا دیا ہوا سیاسی اور معاشی نظام نہیں، یہ وہ نوشتہ ہے جو ازل سے لوحِ تقدیر پر لکھ دیا گیا ہے چنانچہ صبر و شکر سے کام لو اور قسام ازل کے فیصلے پر سر جھکا دو۔
ایک ایسے دور میں جب ملک آمریت کے شکنجے میں تھا۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی بحث کو اٹھانا اور یہ لکھنا کس قدر خطرناک بات تھی کہ آمرو جابر کے سامنے سرِ تسلیم خم مت کرو۔ سبط حسن شاہی قلعے کی قید چکھ کر نکلے تھے۔ انھوں نے حسن ناصر کے سفاکانہ قتل کو 'خودکشی' میں تبدیل ہوتے دیکھا تھا، اس کے باوجود وہ 'تقدیر اور لوحِ تقدیر' ایسا مضمون لکھ کر اپنے نوجوانوں کو بغاوت اور انحراف کا راستہ دکھا رہے تھے۔
انھوں نے اہل بابل سے مسلمانوں کے عقیدۂ تخلیق تک سب ہی کا جائزہ لیا اور جب وہ سولہویں صدی کی ابتدا تک آتے ہیں تو جامد عقیدوں کے حصار سے نکل کر سرمایہ داری نظام کی ابتدا کو کلیسا کے مفاد سے ٹکراتے ہوئے دکھاتے ہیں، اسی کے بعد کیتھولک کی جگہ پروٹسٹنٹ فرقے کا ابھار، پوپ کے اثر و رسوخ میں کمی، چھاپہ خانوں کے پھیلاؤ سے نئے خیالات، سائنسی دریافتوں اور صنعتی ترقی کی منزلیں سہل ہونے لگیں۔ روایت پرستی کی جگہ سوالوں کا سیلاب آگیا۔ وہ لمارک اور چارلس ڈارون کا تفصیل سے تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب 1859ء میں ڈارون کی کتاب Origin of Species شایع ہوئی تو اس نے تہلکہ مچادیا اور ایک دن میں اس کی تمام جلدیں فروخت ہوگئیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ 'ماضی کے مزار' میں جہاں وہ ہمیں چین سے کنعان تک کے عقیدۂ تخلیق کے بارے میں بتاتے ہیں، وہیں وہ ہماری ملاقات دنیا کے پہلے ضابطۂ قانون سے بھی کراتے ہیں۔ حمورابی کے یہ قوانین جو اس نے بارہویں صدی قبل مسیح مرتب کیے تھے ان کا بطور خاص ذکر 'ماضی کے مزار' میں کیوں ہوا؟
اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم چونکہ اپنے صدیوں پرانے قوانین کے بارے میں یہ مغالطہ رکھتے ہیں کہ دنیا میں پہلی مرتبہ ان کا ظہور ہوا تھا۔ تو سبط صاحب اس بات کو رد کیے بغیر اس وقت سے سترہ سو برس پہلے کے قوانین ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں اور سوچنے سمجھنے والے لوگوں پر یہ بات چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان قوانین میں اولیت کے معاملے کو خود طے کرلیں، زمین سخت اور آسمان دور ہو تو ہر حقیقت بہ بانگ دُہل بیان نہیں کی جاتی، اس کی طرف حقائق اور دلیلوں کی روشنی میں اشارہ کردیا جاتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کے علم پر مدت تک مندر کے پروہتوں اور شاہی خاندان کے افراد کی اجارہ داری رہی کیونکہ علم کو عام کرنا اربابِ اقتدار کے مفاد کے خلاف تھا۔ جس طرح آج بھی ہمارے جاگیردار، وڈیرے، تمن دار اور سجادہ نشین حضرات کو عوام کی تعلیم کے نام سے بخار چڑھتا ہے۔ ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہ صرف علم اور تعلیم ہے جو چاکری کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کی تقدیر کا قفل کھول دیتی ہے۔
وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جب تک دنیا کے مختلف ملکوں اور تہذیبوں کا مرکزی خیال بادشاہ اور پروہت کی اطاعت تھا، ا وقت تک انسان آزادانہ سوچ سے محروم تھا۔ اس صورت حال کو انھوں نے یوں بیان کیا ہے کہ ہر چہار جانب اطاعت کا جال بچھا ہوا تھا اور انسان کے لیے اس جال سے نکلنا محال تھا۔ آج بھی ہمارے یہاں 'اطاعت' سب سے بڑا ہُنر ہے اور 'سوال' کلمۂ کفر ٹھہرتا ہے۔ ان کی تحریریں اطاعت کا جال توڑنے کی اُمنگ پیدا کرتی ہیں۔
سبط حسن جامد عقیدوں کی سیر کراتے ہوئے ہمیں ارتقا کے میدانوں تک لے گئے، اپنی اس کتاب میں وہ زمانہ قدیم کے علما کے نام بتاتے ہیں اور وہ بارھویں صدی قبل مسیح کے علماء سے ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہزاروں برس پہلے گزر جانے والے اہل قلم موجود نہیں ہیں لیکن ان کے نام آج بھی زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ لوگ اپنی اولاد کے لیے دولت کے ڈھیر چھوڑ کر نہیں گئے لیکن دانائی کی باتوں سے بھری ہوئی ان کی تحریریں لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ وہ کتاب کا رتبہ فراعنہ کے اہرام سے بلند بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک اچھی کتاب کسی عالی شان مقبرے سے زیادہ عظیم المرتبت ہوتی ہے۔
سائنس جو ایک تاریخی، حرکی اور انقلابی قوت ہے، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام نے جاگیر داری کے تینوں ستون ملوکیت، نوابیت اور کلیسائیت گرادیے۔ ان ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے جو نظریات وجود میں آئے، ان کی روشنی میں تخلیق کے پرانے عقیدے داستان پارینہ ہوگئے۔ انھیں اس بات کا بے حد قلق تھا کہ عام انسانوں کو ان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کرنے کے بجائے ہمارے علمائے سُو انھیں مختلف بنیادوں پر تقسیم کررہے ہیں اور جدید سائنسی سوچ سے ہم کنار کرنے کے بجائے انھیں خیالی جنت کے خواب دکھا کر خواب خرگوش میں مبتلا رہنے کا سامان کررہے ہیں۔
سبط حسن ہمارے درمیان سے اٹھا لیے گئے لیکن انھوں نے ہمارے لیے غورو فکر کے جو راستے کھولے، وہ آج کچھ اور کشادہ ہورہے ہیں۔ ایک ایسا سماج جہاں کسی مشہور لکھنے والے کی کتاب دس برس میں ایک ہزار بکتی ہو اسی سماج میں سبط حسن کی کتابوں کے درجنوں ایڈیشن فروخت ہوتے ہیں۔ ماضی کے مزار کا اٹھارواں ایڈیشن ہمارے ہاتھ میں ہے۔ خرد افروزی کو فروغ دینے والی ان کی کتابیں آیندہ بھی اسی طرح فروخت ہوتی رہیں گی۔ آج علم دشمنی کے اندھیرے میں روشن خیالی کے جو چراغ جل رہے ہیں ان میں سبط حسن کے نتائج فکر کا تیل جلتا ہے۔
(سبط حسن صدی کانفرنس میں پڑھا گیا)