ڈاکٹر عشرت العباد کی رخصتی
ڈاکٹر عشرت العباد پرویز مشرف کے دور میں ایک مطلق العنان گورنر کی حیثیت رکھتے تھے
ISLAMABAD:
ڈاکٹر عشرت العباد گورنر ہاؤس سے سیدھے دبئی چلے گئے۔ وہ ایم کیو ایم کے نمایندے کی حیثیت سے 14سال گورنر کے عہدے پر فائز رہنے کا ریکارڈ قائم کرگئے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی نے ڈاکٹر عشرت العباد کی رخصتی کو گورنر ہاؤس سے دہشت گردی کی آخری علامت کی رخصتی قرار دیا۔ وفاقی حکومت نے اپنے سینیٹر کے خیالات سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ڈاکٹر عشرت العباد پرویز مشرف کے دور میں ایک مطلق العنان گورنر کی حیثیت رکھتے تھے مگر 2008 سے 2016 تک وہ کراچی اور حیدرآباد کے معاملات میں اپنے اختیارات نہ رکھنے کے باوجود بااثر گورنر تھے۔ عشرت العباد طالب علمی کے زمانے میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (A.P.M.S.O) کے متحرک کارکن تھے۔ وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔
ایم کیو ایم نے 1987 میں بلدیاتی اداروں پر بالادستی کے ساتھ شہر کے مختلف علاقوں میں اپنے منحرفین اور مخالفین کو سزا دینے کے لیے ٹارچر سیل قائم کیے تھے۔ 1988 میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور ایم کیو ایم اس کی اتحادی بنی تو کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے 3 کارکنوں کے قتل کے بعد اے پی ایم ایس او اور پی ایس ایف کے جنگجوؤں نے ایک دوسرے کے کارکنوں کو اغوا کیا تھا۔ ان کارکنوں کو ان ٹارچر سیلوں میں رکھا گیا تھا۔
پی ایس ایف والے اپنے قیدیوں کو سابق اردو کالج لے گئے تھے۔ اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے دفتر میں ان قیدیوں کی رہائی کامعاہدہ ہوا تھا مگر یہ ٹارچر سیل قائم کررہے تھے۔ ملٹری انٹیلی جنس کے ایک میجر کلیم کو لانڈھی کے ٹارچر کیمپ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جب 1992 میں جنرل آصف نواز نے کراچی میں آپریشن کیا تو ڈاکٹر عشرت العباد اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف میجر کلیم پر تشدد کے الزام میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ ڈاکٹر عشرت العباد برطانیہ چلے گئے اور وہاں انھوں نے سیاسی پناہ لے لی۔
جب جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں سیاسی ڈھانچہ قائم کیا اور ایم کیو ایم جنرل صاحب کی سب سے بڑی اتحاد ی بنی تو ڈاکٹر عشرت العباد سندھ کے گورنر بنے۔ انھوں نے جنرل مشرف کے زیرِ نگرانی کراچی اور حیدر آباد میں نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے بلدیاتی نظام کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انھوں نے کراچی اور حیدرآباد کی سٹی گورنمنٹس کو بیوروکریسی کے سرخ فیتے سے بچانے اور فنڈز کی فراہمی میں کردار ادا کیا۔
اگرچہ کراچی کے ناظم مصطفیٰ کمال خود بہت متحرک تھے مگر گورنر کی سرپرستی کی بنا پر کراچی کے متوسط علاقوں اور امراء کی بستیوں کو ملانے والی سڑکوں اور اوورہیڈ برجز کی تعمیر میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے کارکنوں اور حامیوں کو ملازمتیں ملیں مگر غریبوں کے علاقے خاص طور پر سندھی، بلوچوں اور پٹھانوںکی بستیاں ترقی کے ثمر سے محروم رہیں۔
ڈاکٹر عشرت العباد کے دور میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب رہی۔ سیاسی، لسانی، مذہبی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ٹارگٹ کلنگ جاری رہی۔ 12 مئی 2007 کو کراچی میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے استقبال کے لیے جانے والے مختلف سیاسی جماعتوںکے جلوسوں پر ایم کیو ایم کے جنگجوؤں کے کارکنوںکی فائرنگ اور شہر کو بند کرنے کے بدترین واقعات ہوئے۔ 2002 سے 2007 تک ڈاکٹر عشرت العباد کے علاوہ ایم کیو ایم کے وزرا اہم عہدوں پر تعینات رہے۔
صوبائی وزارت داخلہ جیسی حساس وزارت ایم کیو ایم کے پاس تھی مگر ناردرن بائی پاس، نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے کے درمیانی علاقے کی زمینوں پر قبضے کی لڑائی میں شدت آئی اور یہ لڑائی سہراب گوٹھ کے راستے کراچی میں داخل ہوگئی۔ پھر ایم کیو ایم کے قائد نے اپنے کئی اراکین قومی اسمبلی سے استعفے لیے اور شہر میں ضمنی انتخابات ہوئے۔ اس دن بھی براہِ راست فائرنگ کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداد دو ہندسوں میں تھی۔
خفیہ ایجنسیوں، پولیس اور رینجرز کے ذرایع یہ الزام لگانے لگے کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی شرح کی ذمے دار ایم کیو ایم ہے۔ شاید ڈاکٹر عشرت العباد اور الطاف حسین کے درمیان فاصلے اس صورتحال کی بنا پربڑھ گئے اور 2008 میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کے بھی قریب ہوگئے۔
لندن میں پیپلز پارٹی کے قریبی روابط رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ 2005 میں بے نظیر بھٹو اور الطاف حسین کے درمیان مفاہمت کی کوشش شروع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عشرت العباد اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمن ملک نے اس مفاہمت میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جب اکتوبر 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کراچی آئیں تو پیپلز پارٹی نے ایک تاریخی اجتماع کیا تھا۔ ایم کیو ایم نے پہلی دفعہ پیپلز پارٹی کی اس سرگرمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی تھی۔
پیپلز پارٹی کی 2008 میں قائم ہونے والی حکومت میں ایم کیو ایم کی اتحادی حیثیت کے پیچھے بھی ڈاکٹر عشرت العباد ہی تھے۔ انھوں نے کئی دفعہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان خلیج کو کم کرنے میں فوکل پرسن کا کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈ کے معاملات مکمل طور پر گورنر عشرت العباد کو منتقل کردیے تھے اور عشرت العباد اپنے اختیارات استعمال کررہے تھے۔
ڈاکٹر عشرت العباد کے دور میں یونیورسٹیوں کا برا حال ہوا۔ وہ سندھ کی تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے چانسلر تھے۔ چانسلر کی حیثیت سے انھیں ان یونیورسٹیوں کی سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کرنی تھی۔ سینیٹ یونیورسٹیوں کا بنیادی ادارہ ہے جو یونیورسٹیوں کے اداروں کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتا ہے اور اسی طرح یونیورسٹی کانووکیشن کی صدارت بھی چانسلر ہی کرتا ہے۔
ڈاکٹر عشرت العباد صرف انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (I.B.A) کے کانووکیشن کے لیے وقت نکال سکے یا جب تک ڈاکٹر ابوالکلام زندہ تھے وہ این ای ڈی کی سینیٹ کے اجلاس میں گئے، باقی یونیورسٹیوں میں جانا انھوںنے ضروری نہیں سمجھا۔ یوں یونیورسٹیوں کے حالات خراب ہوئے۔
گورنر صاحب نے ایک ماہر ڈاکٹر پروفیسر حمید کو ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا تھا۔ پروفیسر حمید کے دور میں ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی نے خاصی ترقی کی مگر وہ جب اپنی دو میعاد پوری کرچکے تو عشرت العباد انھیں سبکدوش کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، یوں ایک سال سے زائدکا عرصہ گزر گیا، معاملات اعلیٰ عدالتوں تک گئے مگر گورنر صاحب کچھ کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ ایسی ہی صورتحال کراچی یونیورسٹی میں ہوئی جہاں ایم کیو ایم والوں نے بے تحاشا بھرتیاں کرائیں۔
یہی حال تعلیمی بورڈز کا ہوا اور یہ بات عام ہوگئی کہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات کی پوزیشنیں فروخت ہورہی ہیں۔ اگرچہ بہت سے ذہین اور غریب طلبا نے امتیازی پوزیشنیں حاصل کیں مگر اس امپریشن نے عام طالب علم اور بورڈز کے درمیان خلیج پیدا کردی۔
ڈاکٹر عشرت العباد نے جب ایم کیو ایم کی پالیسی سے انحراف کیا تو الطاف حسین نے انھیں پارٹی سے علیحدہ کردیا مگر پھر بھی ان سے رابطہ برقرار رہا۔ ایم کیو ایم کے قائد کی 22 اگست کی تقریر کے بعد جب ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے ایم کیو ایم لندن سے رابطہ ختم کیا تو ڈاکٹر عشرت العباد اس فیصلے کے پس پشت تھے۔ وہ وفاقی حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان ایک اہم رابطہ تھے مگر مقتدرہ کی پالیسی تبدیل ہونے کی بنا پر مصطفیٰ کمال سامنے آئے۔
مصطفیٰ کمال نے ڈاکٹر عشرت العباد کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ ڈاکٹر صاحب مصطفیٰ کمال کے الزامات کے پیچھے کارفرما قوتوں کے عزائم کا اندازہ نہیں لگاسکے اور ایک دن جب وہ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس کے دورے پر تھے تو ایک صحافی کے سوال پر وہ پھٹ پڑے۔ انھوں نے گورنر بننے کے بعد سے اپنی شخصیت کا جو سحر قائم کیا ہوا تھا وہ اس وقت ختم ہوگیا۔
ٹی وی چینلز نے رات گئے تک ڈاکٹر عشرت العباد کے ریمارکس دکھائے۔ اسی دن کچھ صحافیوں نے ان کے جانے کی پیشگوئی کردی۔ دو ماہ قبل پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو نے انھیں پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی جس سے محسوس ہوتا تھا کہ پیپلز پارٹی ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے مگر سینیٹر نہال ہاشمی کے بیان نے وفاقی حکومت اور جسٹس سعید الزمان صدیقی کو مشکل میں ڈال دیا۔
سینیٹر نہال ہاشمی اس حقیقت کو فراموش کرگئے کہ ڈاکٹر عشرت العباد گزشتہ چار سال سے وزیراعظم نواز شریف حکومت کی نمایندگی کررہے تھے اور ان کی جماعت میاں صاحب کی حکومت کو اعتماد کا ووٹ دے چکی ہے۔ بعض صحافی جنرل پرویز مشرف اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان ہونے والے رابطوں کو ڈاکٹر عشرت العباد کی سبکدوشی کی ایک بڑی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کو ایم کیو ایم کی ان سرگرمیوں پر تشویش ہے۔
ڈاکٹر عشرت العباد ایم کیو ایم کی عسکری فورس ختم کر کے اس کو جدید سیاسی جماعت میں تبدیل کرنے کا فریضہ انجام دیں تو یہ نہ صرف کراچی بلکہ صوبہ سندھ اور ملک کے سیاسی نظام کے لیے بھی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔