دہشتگردوں کیخلاف سری لنکا کی فیصلہ کن جنگ

جنرل کمال کی کتاب ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں دہشتگردوں اور سری لنکن ریاست کے محافظوں کا آمنا سامنا ہوتا رہا


[email protected]

ISLAMABAD: جنرل کمال گنارتنے اپنی کتاب Road to Nandikadal میں لکھتے ہیں کہ''خودکش حملہ آور آج دنیا میں بڑی جانی پہچانی اصطلاح ہے۔ دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیمیں القاعدہ، طالبان یا ISISاسے بڑے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں مگر اس ہتھیار کا اصل خالق سری لنکا میں دہشت گردوں کا لیڈر پربھاکرن تھا۔ جب القاعدہ یا طالبان وغیرہ ابھی پہلا خودکش بمبار تیار کررہے تھے اسوقت پربھاکرن کے پاس 200سے زیادہ خود کش بمبار تیار تھے۔ وہ اس مقصد کے لیے زیادہ تر عورتوں کو استعمال کرتا تھا اور اس نے انھیں 'بلیک ٹائیگرز' کا نام دے رکھا تھا۔

اسلامی ریڈیکل تنظیمیں جنت کا نقشہ دکھا کر لوگوں کو جان قربان کرنے پر تیار کرلیتی ہیں مگر ایل ٹی ٹی ای کے پا س تو جنت یا حوروں کا کوئی وعدہ بھی نہیں تھا۔ یہ صرف ان کے نظریے کی کشش، آزادی کے نعرے کی قوّت اور پربھاکرن کی کرشماتی لیڈر شپ کا کمال تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں مرد اور عورتیں خود کش بننے کے لیے تیار ہوگئے تھے''۔

جنرل کمال نے سری لنکا میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے سیکڑوں واقعات تحریر کیے ہیں۔ چند ایک قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ سلو تھیورا کیمپ کے قریب دہشتگردوں سے مقابلے میں دونوں جانب سے ہلاکتیں بھی ہوئیں اور زخمی بھی۔

''ایمونیشن لے کر اور زخمیوں کو اٹھانے کے لیے ہمارا ہیلی کاپٹر کیمپ کے قریب پہنچا تو اسے دہشت گردوں کی لاشیں نظر آئیں وہ ان کے قریب اُتر گیا۔ ہمیں خدشہ لاحق ہوا کہ ہیلی کاپٹر دہشت گردوں کے حملے کی زد میں آگیا ہے۔ ہم نے باہر نکل کر چلّانا اور اشارے کرنا شروع کردیا۔ اچھا ہوا کہ پائلٹ کو اندازہ ہوگیا، اس نے فوراً ہیلی کاپٹر اوپر اٹھایا اور واپس جانے کے بجائے کیمپ میں اترا۔ ہم نے فوراً ایمونیشن اتارا اور لاشیں اور زخمی ہیلی کاپٹرپر سوار کرادیے۔

تھوڑی دیر بعد دوسراہیلی کاپٹرآیا تو بدقسمتی سے دہشت گردوں کے نشانے کی زد میں آگیا۔ مانکولام کیمپ پر دہشت گردوں کے حملے میں ہمارا بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ کمک نہ پہنچنے پر کیمپ خالی کرکے Retreat کا فیصلہ ہوا۔ اگرچہ جنگ میں کسی مورچے سے withdrawlکو شکست سمجھاجاتا ہے اور یہ بڑا ہی Disgraceful عمل ہے مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا''۔

''دہشتگردوں کی پناہ گاہ جنگل میں ہمارا مارچ شروع ہوا، تاریک رات اور گھنے جنگل میں جہاں جا بجا ہمارے خون کے پیاسے دہشت گرد بیٹھے ہوئے تھے ان کی فائرنگ سے کئی جوان زخمی ہوچکے تھے۔ ڈیڑھ سو جوانوں اور اسٹریچر پر کئی زخمیوں کو اٹھا کر گشت کرنا مشکل ترین کام تھا۔ ہم ہر آدھ گھنٹے بعد رک کر گنتی کرتے اور پیچھے رہ جانے والوں کو ساتھ ملاتے۔ جنگل کی جھاڑیوں کے کانٹوں سے زخمیوں کے زخم گہرے ہوگئے اور ان سے مزید خون رسنے لگا تھا مگر کسی نے ہمّت نہ ہاری اور ہم نے صبح تین بجے تک مارچ جاری رکھّا۔

جب جنگل میں کیا جانے والا مارچ روکا جاتا ہے تو اسے Harbouring کہتے ہیں جس میں دشمن کے اچانک حملے سے بچنے کے لیے چاروں طرف محافظ چوکس کھڑے رہتے ہیں۔ میں تھکاوٹ سے نڈھال تھا اس لیے Harbourکے دوران ہی آنکھیں بند ہوگئیں، کئی گھنٹے بعد اٹھا تو دیکھا کہ تمام افسران اور جوان سوئے ہوئے تھے۔ فوری طور پر سب کو جگایا گیا۔ میں جانتا تھا کسی وقت بھی حملہ ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں میں زخمی بھی ہوسکتا ہوں اور ہلاک بھی ہوسکتا ہوں اس لیے میں نے اپنے سب سے وفادار محافظ کو بلایا اور کہا ''دیکھو میں دشمن کا قیدی نہیں بننا چاہتا اگر میں شدید زخمی ہوگیا تو اپنے آپ کو شوٹ کرلوں گا۔ تم میرے ساتھ وعدہ کرو کہ اگر میں شدید زخمی ہوگیا تو تم مجھے سر پر گولی مار کر ختم کردو گے'' اس نے کہا سر!''ہر حال میں آپ کے ساتھ رہوں گا اگر آپ نہ رہے تو میں بھی اپنے آپ کو ختم کرلوں گا''۔

مارچ میں شامل پچھلے( rear)دستے نے اطلاع دی کہ دہشت گرد قریب پہنچ گئے ہیں، رفتار تیز کریں۔ رفتار بڑھانا بے سود تھا، ہم نے رک کر Ambush کرنا چاہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم پر تین اطراف سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ میں زمین پر لیٹ گیا اور اپنا رخسار مٹی میں دبا لیا ۔ میرے قریب ایک خوبرو نوجوان افسر بھی اسی طرح لیٹا ہوا تھا اس کی آنکھوں میں بے بسی بھی تھی اور مدد کی طلب بھی تھی مگر اسوقت میں اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔

گولیاں میرے سر اور منہ کے قریب سے گزر رہی تھیں، اچانک ایک برسٹ میرے رخسار سے ٹکراتا ہوا نوجوان کے چہرے پر جالگا اور اس کی وہیں موت واقع ہوگئی، اس موقع پر کچھ بزدل افسر بھگوڑے بھی ہوگئے جو بہت افسوسناک ہے۔ اس دوران جنگل کی تاریکی میں ہم پر بار بار حملے ہورہے تھے۔ بھوک اور پیاس سے جوانوں کا برا حال ہوچکا تھا۔ مورال بھی گر گیا تھا۔ اسی طرح لیٹے لیٹے کئی گھنٹے ہو چکے تھے، زہریلے مچھر بھی ہمارا خون چوس رہے تھے اور ہمارے جسموں کو جونکیں بھی چمٹ گئی تھیں، ہم معمولی سی انگلی بھی نہیں ہلاتے تھے تاکہ آواز سے دشمن کو ہماری موجودگی کا علم نہ ہوجائے۔ میرے پاس پانی کی دو بوتلیں تھیں۔

جب میں سمجھتا کہ پیاس سے موت واقع ہوجائیگی تو صرف ایک گھونٹ پانی پی لیتا، میری فوج میں نو سال کی نوکری ہوچکی تھی اور پہلی بار مجھے ڈر اور خوف کا تجربہ ہوا۔ دہشت گرد ہم سے صرف تیس چالیس میٹر کے فاصلے پر تھے اور ہم ان کی آوازیں اور قہقہے اچھی طرح سن سکتے تھے۔کئی گھنٹے لیٹے رہنے سے جوان تھکاوٹ اور نیند کے ہاتھوں ہار گئے اور آدھی رات کو سوگئے۔آنکھ کھلی تو صبح کے پانچ بج چکے تھے۔ اُسوقت اچانک بارش شروع ہوگئی، ہم نے سمجھا اب یہا ں سے نکلنے کا اچھا موقع ہے۔ چنانچہ ہم اندھیرے اور بارش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آہستہ آہستہ دشمن سے دور کھسکتے گئے۔

ہم خوش تھے کہ موت کے منہ سے زندہ بچ کر نکل آئے ہیں۔ مگر تھکاوٹ ،بھوک ، پیاس سے اسقدر برا حال تھا کہ اسوقت ہم لڑنے کے بھی قابل نہیں رہے تھے۔ ہمارے واکی ٹاکی سیٹوں کی بیٹریاں تقریباً ختم ہوچکی تھیں۔ اچانک ایک ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی میں نے اپنا ہینڈ سیٹ آن کیا مگر رابطہ نہ ہوسکا۔ ہم پھر مایوس ہوگئے۔ ایک گھنٹے بعد پھر ایک ہیلی کاپٹر کی آواز آئی پھر رابطے کی کوشش کی اس بار رابطہ ہوگیا۔ پائلٹ مجھے اچھی طرح جانتا تھا اس کی آواز سنکر یوں لگا جیسے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ مگر قدرت کا فیصلہ ہمارے حق میں نہ تھا۔

اچانک بارش شروع ہوگئی اور ہماری بچ جانے کی امیدوں پر پانی پھر گیا، قریب ہی 150کے قریب دہشت گرد ایک لائن میں چلتے ہوئے نظر آئے، ان حالات میں ہیلی کاپٹر کا اترنا ناممکن تھا۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے سب کی آنکھوں سے ناامیدی ٹپک رہی تھی۔ بارش تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔کچھ دیر بعد ہم سب سردی سے کانپنے لگے ۔ اب ہمیں بھوک اور پیاس بھی یاد نہیں رہی تھی۔ اسی حالت میں پھر آنکھیں بند ہوگئیں۔ صبح آنکھیں کھلیں تو بھی بارش زوروں پر تھی ہمیں لگا ہم انسان نہیں پودے ہیں یا کھمبیاں (Mashrooms) ہم 53فوجی تھے جنھیں بچانے کے لیے ونّی ہیڈکوارٹرز میں مسلسل سوچ بچار ہورہی تھی۔

میجر جنرل کوبیکادودا نے ایئرفورس استعمال کرنے کی کوشش کی مگر بارش میں کوئی کامیابی نہ ہوئی ۔کیمپ میں سب لوگ ہمارے لیے پریشان تھے۔ جنرل صاحب نے بارش رکنے کی دعا مانگنی شروع کی، تمام فوجیوں کو ہدایات دی گئیں کہ وہ اپنے اپنے مذہب کے مطابق مندروں ، گرجا گھروں اور مسجدوں میں بارش رکنے کے لیے دعا کریں۔

جنرل صاحب نے ایک چھتری کے نیچے مہاتما بدھ کا بُت بھی رکھوا دیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور تیس گھنٹے اسی طرح گزر گئے۔ اب ہم مایوس ہوچکے تھے، چار پانچ گھنٹوں کے بعد اچانک بارش رک گئی تو ہمیں امید کی کرن نظر آئی۔کچھ دیر بعد ہیلی کاپٹرسے رابطہ ہوگیا۔ ایک ہیلی میں سب نے اکھٹاگھسنے کی کوشش کی اس پر مجھے قطار بنوانے کے لیے سختی کرنا پڑی ۔کئی دنوں کی کشمکش کے بعد بالآخر موت کی وادی سے ہم زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ ونّی ہیڈکوارٹر پہنچے تو ہمارا زبردست استقبال ہوا"۔

جنرل کمال کی کتاب ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں دہشتگردوں اور سری لنکن ریاست کے محافظوں کا آمنا سامنا اور مڈھ بھیڑ ہوتی رہی، گولیاں چلتی رہیں اور لاشے گرتے رہے اور موت اور زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ "دہشت گردوں کے مقابلے میں سری لنکن فوج کا بے پناہ نقصان ہوااورانھیں بیسیوں مرتبہ ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اس دوران دہشت گردوں کے خودکش حملوں میں آرمی، ایئر فورس ، نیوی اور پولیس کے ہزاروں افسر ہلاک ہوگئے۔ قومی سطح کے کئی سیاسی لیڈر بشمول اپوزیشن لیڈر بھی نشانہ بن گئے۔

چندریکا کمارا ٹنگا پہلے وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں اور پھر 12نومبر1994 کو صدر بن گئیں توانھوں نے تامل ٹائیگرز کے ساتھ امن مذاکرات شروع کیے اور 1995ء میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا مگر اسے دہشت گردوں نے مزید حملوں کی تیاری کے لیے استعمال کیا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں