وزیروں مشیروں کے لب و لہجے اور قومی سلامتی
متنازع خبر کا معاملہ ہو، میمو گیٹ کا معاملہ ہو یا پانامہ لیکس کا ہر معاملے میں حکمران ہی پکڑ میں آرہے ہیں
امیر تیمور ایک عظیم مسلمان فاتح اور حکمران گزرا ہے۔ مختلف روایات کے مطابق امیر تیمور 1320ء سے 1330ء کے درمیان پیدا ہوا اور اس کا انتقال 18 فروری 1405ء میں ہوا۔ اس نے اپنی زندگی میں کئی ملک فتح کیے اور ایک بڑی سلطنت قائم کی۔کہا جاتا ہے امیر تیمور کے مزار پر تحریر تھا ''جب میرے مردہ جسم کو اٹھایا جائے گا تو زمین کانپ اٹھے گی۔'' اس تحریر کو نظرانداز کرتے ہوئے 1941ء میں روس کے 2 ماہرین علم بشریات میخائیل ایم گیراسیموف اور وی لا زیزنکووا نے امیر تیمور کی قبر کشائی کر ڈالی۔
تاریخ دانوں کے مطابق اندر ایک اور تحریر ملی جو کچھ یوں تھی ''جو شخص میری قبر کو کھولے گا وہ مجھ سے بھی خوفناک حملہ آور کوکھول دے گا۔''جس روز دونوں ماہرین نے امیر تیمور کی قبرکشائی کی اسی روز جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے آپریشن ''باربروسا ''شروع کرتے ہوئے روس پر تاریخ کا سب سے بڑا فوجی حملہ کر دیا۔یہ بھی عجیب شوق تھا کہ جن ملکوں کو وہ فتح کرتا ان کے شاہی خاندانوں کو اپنے محل میں قیدی بنا لیتا اور اکثر اپنے دربار میں انھیں بلا کر ان کا ''چیزہ'' لگایا کرتا (مذاق اُڑایا کرتا) وہ عالموں اور داناؤں کی قدر کرتا، انھیں قتل کرنے کے بجائے اپنے ملک میں لے آتا اور ان کے علم و فنون سے استفادہ کرتا۔
وہ شہروں کے شہر جلانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہ معمولی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ جوان ہوا تو فوج میںبھرتی ہوگیا اور چند ماہ بعد ہی اس نے اپنے سپہ سالار کو قتل کردیا اور فوج کی عنان سنبھال لی، بادشاہ کو تیمور سے خطرہ ہوا تو سیاسی و فوجی لڑائی کا آغاز ہوا اور تیمور نے یہ لڑائی جیت لی اور خود بادشاہ بھی بن گیا اور پھر دنیائے عالم کو فتح کرنے کی ہوس اسے ستانے لگی اور ہر مہینے ایک ملک پر چڑھائی کر دیتا اور اسے فتح کر کے ہی لوٹتا۔ وہ اپنے فوجیوں کو انعام کے طور پر فتح ہونے والے ملک میں لوٹ مار کی اجازت دے دیتا اور مردوں کو قتل کروا دیتا۔
لوٹ مار کی اس سے بڑی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نے اتنی زیادہ فتوحات کیسے حاصل کیں؟ کیا اتنے عرصے کے دوران فوج کی جانب سے ایک بھی بغاوت کا اسے سامنا نہیں کرنا پڑا؟ یہ تجسس بڑھتا جا رہا تھا کہ اسی کتاب کے ایک باب میں تیمور لکھتا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز اسی بات میں چھپا ہے کہ اس نے آج تک اپنی فوج کے مورال کو پستی میں نہیں دھکیلا۔ اس کتاب میں کئی جگہوں پر آپ کو یہ تاثر بھی ملے گا کہ چڑھائی کر دو اور حکومت کرو لیکن اس کا مثبت پہلو یہی ہے کہ آپ کے سپہ سالار آپ کے اصل سپاہی ہیں، ان کی طاقت آپ کا منبع ہوتی ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں و سیاستدانوں کے فوج کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے جس کا خمیازہ ہمیشہ عوام کو بھگتنا پڑا ہے جس کا اظہار سیاسی قیادت کی جانب سے ڈھکے چھپے، طنزیہ اور براہ راست حملوں سے ہو تا رہاہے۔ پاک فوج نے چونکہ ملک بھر میں ضرب عضب کے بعد کومبنگ آپریشن شروع کر رکھا ہے اور پھر سیاستدانوں کی کرپشن کے حوالے سے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ تو ایسے میں سیاستدانوں کا چیخنا چلانا عام بات ہے، ابھی کچھ دن قبل ہمارے وزیر دفاع نے سپریم کورٹ کے سامنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اصل امپائر سپریم کورٹ ہے باقی سب امپائرز ''دو نمبر'' ہیں۔
اب بادی النظر میں دونمبر کس کو کہا گیا، یہ سب جانتے ہیں۔ مجھے بتائیے کہ ملک کا وزیر دفاع جب ایسے الفاظ استعمال کرے گا تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے، جب اندر سے ایسی آوازیں آرہی ہوں تو کیا بھارت جیسے دشمن کی ضرورت پیچھے رہ جاتی ہے؟ اگر حکمران جماعت کے وزیر و مشیر ایسی باتیں کریں گے جسے دشمن ثبوت کے طور پر باربار نشر کرے تو کہاں کی سلامتی اور کہاں کی یکجہتی رہ جاتی ہے؟
چند ماہ پہلے زرداری صاحب اس لیے ناراض ہوئے کہ ان کے معتمد لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا ، اس پر انھوں نے فوج کو للکارا تم تو صرف تین سال کے لیے کرسی پر ہوتے ہو ہم تو سالہا سال اقتدار میں رہتے ہیں۔ انھوں نے افواج پاکستان کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کی ، اسی طرح جب وزیر اعظم نواز شریف کی طرف اشارہ ہوا تو یہ کہا جانے لگا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عوام حکومت کو منتخب کرتے ہیں اور کوئی مطلق العنان شخص اسے چلتا کر دیتا ہے۔ایسے موقعے پر علامہ اقبالؒ یاد آجاتے ہیں۔
آگ ہے' اولاد ابراہیم ہے' نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک کے بھی قومی اداروں میںدراڑیں نظر آئیں فوراََ دشمن نے اپنا فائدہ اُٹھا یا۔ خاکم بدہن اگر یہ ملک نہ رہا تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں رہے گا ۔ میرے خیال میں کسی بھی قوم کی ناکامی اچانک نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات کارفرماہوتے ہیں ،اگران محرکات کابغورجائزہ لیا جائے تو ایک قوم کی ناکامی، بدنامی اوربدانتظامی میں ملوث کردار باآسانی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔
تیموری سوچ رکھنے والے یہ سیاستدان و حکمران شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے لب و لہجے سے ملک و ملت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان پر سالہا سال حکومت کرنے والے ا ن امیر ترین خاندانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ حالات کس نہج پر جا رہے ہیں۔ حکومت اپنے وزیروں ، مشیروں اور اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کی مذموم سازش میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
متنازع خبر کا معاملہ ہو، میمو گیٹ کا معاملہ ہو یا پانامہ لیکس کا ہر معاملے میں حکمران ہی پکڑ میں آرہے ہیں تو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ حکمران ہی اپنے آپ کو صاف کرلیں تاکہ کم از کم حکمرانوں کا ضمیر تو زندہ رہے! ورنہ یہی ہوگا کہ دونمبر ایمپائر ہی سر پر کھڑا ہو گا اور پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری!!!
تاریخ دانوں کے مطابق اندر ایک اور تحریر ملی جو کچھ یوں تھی ''جو شخص میری قبر کو کھولے گا وہ مجھ سے بھی خوفناک حملہ آور کوکھول دے گا۔''جس روز دونوں ماہرین نے امیر تیمور کی قبرکشائی کی اسی روز جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے آپریشن ''باربروسا ''شروع کرتے ہوئے روس پر تاریخ کا سب سے بڑا فوجی حملہ کر دیا۔یہ بھی عجیب شوق تھا کہ جن ملکوں کو وہ فتح کرتا ان کے شاہی خاندانوں کو اپنے محل میں قیدی بنا لیتا اور اکثر اپنے دربار میں انھیں بلا کر ان کا ''چیزہ'' لگایا کرتا (مذاق اُڑایا کرتا) وہ عالموں اور داناؤں کی قدر کرتا، انھیں قتل کرنے کے بجائے اپنے ملک میں لے آتا اور ان کے علم و فنون سے استفادہ کرتا۔
وہ شہروں کے شہر جلانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہ معمولی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ جوان ہوا تو فوج میںبھرتی ہوگیا اور چند ماہ بعد ہی اس نے اپنے سپہ سالار کو قتل کردیا اور فوج کی عنان سنبھال لی، بادشاہ کو تیمور سے خطرہ ہوا تو سیاسی و فوجی لڑائی کا آغاز ہوا اور تیمور نے یہ لڑائی جیت لی اور خود بادشاہ بھی بن گیا اور پھر دنیائے عالم کو فتح کرنے کی ہوس اسے ستانے لگی اور ہر مہینے ایک ملک پر چڑھائی کر دیتا اور اسے فتح کر کے ہی لوٹتا۔ وہ اپنے فوجیوں کو انعام کے طور پر فتح ہونے والے ملک میں لوٹ مار کی اجازت دے دیتا اور مردوں کو قتل کروا دیتا۔
لوٹ مار کی اس سے بڑی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نے اتنی زیادہ فتوحات کیسے حاصل کیں؟ کیا اتنے عرصے کے دوران فوج کی جانب سے ایک بھی بغاوت کا اسے سامنا نہیں کرنا پڑا؟ یہ تجسس بڑھتا جا رہا تھا کہ اسی کتاب کے ایک باب میں تیمور لکھتا ہے کہ اس کی کامیابی کا راز اسی بات میں چھپا ہے کہ اس نے آج تک اپنی فوج کے مورال کو پستی میں نہیں دھکیلا۔ اس کتاب میں کئی جگہوں پر آپ کو یہ تاثر بھی ملے گا کہ چڑھائی کر دو اور حکومت کرو لیکن اس کا مثبت پہلو یہی ہے کہ آپ کے سپہ سالار آپ کے اصل سپاہی ہیں، ان کی طاقت آپ کا منبع ہوتی ہے۔
لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں و سیاستدانوں کے فوج کے ساتھ تعلقات مثالی نہیں رہے جس کا خمیازہ ہمیشہ عوام کو بھگتنا پڑا ہے جس کا اظہار سیاسی قیادت کی جانب سے ڈھکے چھپے، طنزیہ اور براہ راست حملوں سے ہو تا رہاہے۔ پاک فوج نے چونکہ ملک بھر میں ضرب عضب کے بعد کومبنگ آپریشن شروع کر رکھا ہے اور پھر سیاستدانوں کی کرپشن کے حوالے سے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ تو ایسے میں سیاستدانوں کا چیخنا چلانا عام بات ہے، ابھی کچھ دن قبل ہمارے وزیر دفاع نے سپریم کورٹ کے سامنے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اصل امپائر سپریم کورٹ ہے باقی سب امپائرز ''دو نمبر'' ہیں۔
اب بادی النظر میں دونمبر کس کو کہا گیا، یہ سب جانتے ہیں۔ مجھے بتائیے کہ ملک کا وزیر دفاع جب ایسے الفاظ استعمال کرے گا تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے، جب اندر سے ایسی آوازیں آرہی ہوں تو کیا بھارت جیسے دشمن کی ضرورت پیچھے رہ جاتی ہے؟ اگر حکمران جماعت کے وزیر و مشیر ایسی باتیں کریں گے جسے دشمن ثبوت کے طور پر باربار نشر کرے تو کہاں کی سلامتی اور کہاں کی یکجہتی رہ جاتی ہے؟
چند ماہ پہلے زرداری صاحب اس لیے ناراض ہوئے کہ ان کے معتمد لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا ، اس پر انھوں نے فوج کو للکارا تم تو صرف تین سال کے لیے کرسی پر ہوتے ہو ہم تو سالہا سال اقتدار میں رہتے ہیں۔ انھوں نے افواج پاکستان کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کی ، اسی طرح جب وزیر اعظم نواز شریف کی طرف اشارہ ہوا تو یہ کہا جانے لگا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عوام حکومت کو منتخب کرتے ہیں اور کوئی مطلق العنان شخص اسے چلتا کر دیتا ہے۔ایسے موقعے پر علامہ اقبالؒ یاد آجاتے ہیں۔
آگ ہے' اولاد ابراہیم ہے' نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک کے بھی قومی اداروں میںدراڑیں نظر آئیں فوراََ دشمن نے اپنا فائدہ اُٹھا یا۔ خاکم بدہن اگر یہ ملک نہ رہا تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں رہے گا ۔ میرے خیال میں کسی بھی قوم کی ناکامی اچانک نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے کئی محرکات کارفرماہوتے ہیں ،اگران محرکات کابغورجائزہ لیا جائے تو ایک قوم کی ناکامی، بدنامی اوربدانتظامی میں ملوث کردار باآسانی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔
تیموری سوچ رکھنے والے یہ سیاستدان و حکمران شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے لب و لہجے سے ملک و ملت کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان پر سالہا سال حکومت کرنے والے ا ن امیر ترین خاندانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ حالات کس نہج پر جا رہے ہیں۔ حکومت اپنے وزیروں ، مشیروں اور اپنے ٹاؤٹوں کے ذریعے سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کی مذموم سازش میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
متنازع خبر کا معاملہ ہو، میمو گیٹ کا معاملہ ہو یا پانامہ لیکس کا ہر معاملے میں حکمران ہی پکڑ میں آرہے ہیں تو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ حکمران ہی اپنے آپ کو صاف کرلیں تاکہ کم از کم حکمرانوں کا ضمیر تو زندہ رہے! ورنہ یہی ہوگا کہ دونمبر ایمپائر ہی سر پر کھڑا ہو گا اور پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری!!!