’ٹرمپ کارڈ‘
بش ہوں یابل کلنٹن، بارک اوباماہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ، امریکا کی عالمی پالیسی محض فرد واحدکی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوجاتی ہے
ڈونلڈٹرمپ کے امریکی صدرمنتخب ہونے پر امریکا سمیت پوری دنیامیں جو ہاہا کار مچی ہے، وہ ابھی تک تھمنے میں نہیں آرہی۔ ٹرمپ کی کام یابی اس امرکاثبوت ہے کہ پاکستان سمیت دنیاکے باقی ملکوں کی طرح امریکا میں بھی ایسی سروے کمپنیوںکی کمی نہیں، جوالیکشن سے پہلے ہی جیتنے والے کوہرادیتی ہیںاو رہارنے والے کوجتوادیتی ہیں۔
یہ ان سروے کمپنیوں کا کاروباری کمال تھاکہ ہیلری کلنٹن کو الیکشن سے ایک روزپہلے ہی وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا کردیا گیا تھا، اور ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی طورپراس حد تک منتشرہوچکے تھے کہ ان کویہ دھمکی دیناپڑگئی کہ الیکشن رزلٹ دیکھ کرہی وہ اس کوتسلیم کرنے یانہ کرنے کا حتمی فیصلہ کریں گے۔
امریکا کے حالیہ صدارتی الیکشن میں پاکستانی میڈیا نے جس طرح کوریج کی، یوںمعلوم ہورہاتھا کہ الیکشن امریکا میں نہیں، پاکستان میں ہورہاہے، تمام برقی تجزیہ کارامریکی سروے کمپنیوںکے پروپیگنڈاکی پیداکردہ فضا ہی کوحقیقتِ واقعہ کے طور پرپیش کررہے تھے۔ دوسابق وزراے خارجہ توایک روزاس حد تک جذباتی ہوگئے کہ کہا، الیکشن تو بس ضابطے کی کارروائی ہے ورنہ امریکی عوام ہیلری کے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں۔
یہی نہیں، پاکستان میں مقیم امریکا کا سفارتی عملہ بھی یہ تاثردینے میں کسی سے پیچھے نہیں تھا۔بقول برادرمکرم ایازامیر کے، الیکشن سے دو روزپہلے وہ اسلام آباد میں ایک لنچ پرمدعوتھے، جہاں امریکی سفارت خانہ کاقریب قریب ساراسیاسی عملہ بھی موجود تھا۔ حیرت انگیزطورپرہرمردوزن کی زبان پرایک ہی بات تھی کہ امریکا میں پہلی بارایک خاتون صدرمنتخب ہونے جارہی ہے۔
جب برادر مکرم نے ٹرمپ کی جیت کے امکانات کے بارے میں بات کرنا چاہی تو سب خواتین و حضرات نے اس طرح ان کی اوردیکھا، جیسے انھوں نے کوئی بہت ہی ناقابل یقین بات کہہ دی ہو، بلکہ ایک دونے توازرہِ تفنن یہ بھی کہہ دیاکہ ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں وہ مستقل طورپرپاکستان ہی میں رہنا پسند کریں گے۔
پتا نہیں، ٹرمپ کی جیت کے بعداب وہ اپنے موقف پرقائم رہ پائیں گے یا نہیں۔ اس طرح اسلام آباد میں حکومتی وزرا اور اعلیٰ عہدے داربھی یہ تاثردینے میں کسی ہچکچاہٹ کاشکار نہیں تھے کہ ہیلری کے صدرمنتخب ہوتے ہی حکومت کی موجودہ مشکلات کاخاتمہ ہوجائے گا۔ یہ بات شایداس پس منظر میں کہی جارہی تھی کہ1999میں جب نوازشریف حکومت ختم ہوگئی اورطیارہ سازش کیس میں ان کوعمرقیدکی سزا سنادی گئی تو امریکی صدر بل کلنٹن نے 'مداخلت' کی اورسعودی عرب اورقطرکی وساطت سے بحفاظت جیل سے نکلواکے سرور محل جدہ میں پہنچادیا تھا۔
اس طرح ری پبلکن صدرجارج ڈبلیوبش نے نائن الیون کے بعددہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرمسلم ملکوںکے خلاف جنگ کی جوآگ لگا رکھی تھی، ڈیموکریٹ صدربارک اوبامانے بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کے، مزید بھڑکایا اورآج آٹھ سال بعدجب موصوف وہائٹ ہاوس دوبارہ ری پبلکن صدرکے لیے خالی کر رہے ہیں توان کی بھڑکائی ہوئی جنگ کی یہ آگ مشرق وسطیٰ کے تمام مسلمان ملکوں کواپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور لاکھوں مسلمان کونگل چکی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جارج بش ہوں یابل کلنٹن، بارک اوباماہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ، امریکا کی عالمی پالیسی محض فرد واحد کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوجاتی ہے۔اس طرح کی جوت جگانااپنے آپ کودھوکادینے کے مترادف ہے۔
امریکا کے حالیہ صدارتی الیکشن کااہم ترین پہلویہی ہے کہ کس طرح ٹرمپ نے ہیلری کے ساتھ ساتھ امریکی میڈیااورسروے کمپنیوں کو بھی شکست دی ہے۔ امریکا انتخابی مہم کی تاریخ واقف لوگ جانتے ہیں کہ آج تک کسی صدارتی امیدوارکے خلاف اس قدرمنفی، زہریلی اور خوفناک حد تک جارحانہ مہم نہیں چلائی گئی، جتنی ٹرمپ کے خلاف چلائی گئی۔ ان کومنہ پھٹ احمق پاگل اورنجانے کیسے کیسے القابات دیے گئے، حتیٰ کہ آخر میں بعض ایسی ایکٹریسیں بھی ٹی وی چینلز پرلائی گئیں، جنھوں نے الزام لگایاکہ ٹرمپ نے ان کوجنسی طورپرہراساں کیا تھا۔
یادرہے کہ ٹرمپ کسی زمانے میں فلموں اورڈراموں میںبھی کام کرتے رہے ہیں۔ اس طرح امریکا میں مقیم غیرملکیوں کے بارے میںان کے منفی ریمارکس کوبھی بڑا اچھالا گیا۔ یہ تک کہا گیا کہ ان کے صدرمنتخب ہونے کی صورت میں امریکا بہت بڑی تباہی سے دوچار ہوجائے گا۔ مگریہ سارا پروپیگنڈا بے کارگیا۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ پروپیگنڈاامریکا میں مقیم غیرملکی اوریجن کے لوگوں پر تو اثر انداز ہوسکتا تھا اور بے شک اثرانداز ہوا بھی لیکن وہ سفیدفام اکثریت پر جو ڈونلڈ ٹرمپ کامخاطب تھی اورجوامریکا کی مجموعی آبادی کا %79 ہے، اس کاکوئی اثرنہیں تھا۔ حقیقتاً یہی سفید فام اکثریت ہیلری اوراوباماکے خلاف ڈونلڈٹرمپ کا'ٹرمپ کارڈ' تھی۔
یہ وہ اکثریت ہے، جس کی امریکا کی اعلیٰ ملازمتوں میں نمایندگی اس کے تناسب سے بہت کم ہے۔ اعلیٰ ملازمتوں پر 21% غیرملکی اوریجن کے لوگ ہی چھائے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ اس اکثریت کویہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ غیرملکی اوریجن رکھنے والی21% آبادی پرقدغن لگاکرہی سفید فام %79 آبادی کے لیے اعلیٰ ملازمتوں اور بہترین روزگارکے دروازے کھل سکتے ہیں۔
امریکی میڈیا میں ٹرمپ پرجو الزامات لگارہاتھا، ان کی امریکا کی اشرافیہ کی نظرمیں بھلے کوئی اہمیت ہو، مگرجوطبقہ ٹرمپ کا ٹارگٹ تھا، اس کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ ان کوٹرمپ کے زبان وبیاںسے نہیں،ان کی اعلان کردہ پالیسیوں میں دلچسپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب روزانتخاب آیا توٹرمپ کے خلاف امریکی میڈیا کاپروپیگنڈاہیلری کے کسی کام نہ آیااورٹرمپ نے یہ بازی جیت لی۔