سندھ وزیرِاعلیٰ کی ترجیحات کیا ہوں گی
خدا خدا کر کے صوبہ سندھ کو ایک نیا جواں سال وزیراعلیٰ نصیب ہوا ہے، جس سے ہمارے لوگوں کو بہت امیدیں وابستہ ہیں
بدقسمتی سے پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ عرصہ دراز سے ایسے مقتدر بااثر لوگوں کے ہاتھوں میں پستاچلا آ رہا ہے جنھیں یہاں کے عوام صرف اپنے محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی محبت میں مسلسل حقِ حاکمیت عطا کرتے رہے ہیں اور جس کا فائدہ اٹھا کر وہ ان کی خدمت کرنے کے بجائے صرف مال بنانے اور انھیں اپنا ہاری اور غلام بنانے پر مُصر رہے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ملک کے باقی تین صوبے ترقی و خوشحالی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہو رہے ہیں اور صرف ان کا ایک صوبہ تباہ و بربادی کی تصویر بنا ہوا ہے۔
یہاں لوگ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں، مگر حکمرانوں کے ٹھاٹ باٹ میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ یہاں کے اسپتال، اسکول اور سڑکیں سبھی ہڑپہ اور موئن جو دڑو کے کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ بڑے سے بڑا سرکاری افسر اور چھوٹے سے چھوٹا ملازم کام کرنے کے بجائے کام سے فرار اختیار کرنے اور مال بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ کسی بھی محکمہ سب کا طرۂ امتیاز ناجائز آمدنی اور کرپشن ہے۔
ہر سال بجٹ بناتے وقت ویسے تو کئی ترقیاتی منصوبوں کے لیے بڑے بڑے فندز مختص کیے جاتے ہیں لیکن سال ختم ہو جاتا ہے اور فنڈز بھی ختم ہو جاتے ہیں لیکن کوئی ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوتا۔ ایک ایک منصوبے کے لیے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ہر سال کئی کئی بار فنڈز رکھے جاتے ہیں مگر وہ منصوبہ صرف کاغذوں تک ہی محدود رہ جاتا ہے۔ سارا فنڈزغائب ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ چھان بین کرنے کی کوششیں کرے تو اس پر صوبائی خودمختاری میں مداخلت کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی کی حالت زار انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ یہاں گندگی اور کچرے کے ڈھیر جا بجا لگے ہیں۔ جو محکمہ اس کام کا مجاز ہے اس کی سرزنش کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ یفک اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بھی ندارد۔ خدا خدا کر کے لاہور میٹرو بس منصوبے کی طرز پر وفاقی حکومت کے تعاون سے اب گرین، ریڈ، اورنج اور یلو بسیں چلانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جو شاید 2018ء تک اپنی تکمیل کو پہنچ پائے گا۔ لیکن مسئلہ پھر وہی گڈ گورننس اور دیانتداری کا ہے۔
ان بسوں کو کب تک کرپشن اور بدعنوانی کے جراثیم اور وائرس سے بچاکر رکھا جاسکے گا۔ یہاں پہلے بھی گرین بسیں چلائی گئی تھیں، لیکن صرف دو سال میں وہ سڑکوں سے غائب ہو کر کباڑخانوں کی نذر ہو گئیں۔ عوام کے پیسوں سے بنایا گیا اربوں روپوں کا یہ منصوبہ چند ہی سال میں کھا پی کر ختم کر دیا گیا۔ یہ خدشہ اب اس میٹروبس کے منصوبے کو بھی لاحق ہے۔
ایوب دور میں آج سے پچاس سال پہلے اورنج ٹرین کی طرز پر اس شہرِ کراچی میں ''سرکلر ریلوے'' شروع کی گئی تھی۔ وہ بیس پچیس سال سے بند پڑی ہے۔ ریلوے کی اس زمین پر اب ناجائز قابضین کا راج ہے۔ ہر دو سال بعد اسے پھر سے شروع کرنے کی باتیں ضرور ہوا کرتی ہیں لیکن عملاً کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں جاتا۔
جاپان کی ایک کمپنی نے اسے دوبارہ فعال بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو اسے بھی میٹنگز اور مذاکرات کے طویل دور میں اتنا الجھا دیا گیا کہ وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ پہلے سے بنی بنائی اتنی عمدہ ریل سروس کو جس طرح جان بوجھ کر تباہ کیا گیا اس کے مثال شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہمیں مل سکے۔
گزشتہ آٹھ سال قائم علی شاہ ہمارے اس صوبے کے وزیرِاعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ یہ منصب عطا کرنے والوں کی جانب سے انھیں اپنے پورے دور اقتدار میں مکمل تائید و حمایت حاصل رہی۔ وہ بظاہر بدعنوان یا کرپٹ نہیں تھے لیکن صوبے کے تمام چوروں کو ان کی سرپرستی ضرور حاصل تھی۔ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ان کے اندر مزاحمت کرنے کا شاید حوصلہ ہی نہیں تھا۔ وہ خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور لمبے ترین دور اقتدار کا ریکارڈ بناتے رہے۔
صوبے کے کرپٹ لوگوں کو ان کی یہی ادا بہت بھاتی تھی۔ اسی لیے وہ انھیں آخر دم تک برسر اقتدار دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ترقی و خوشحالی کے منصوبے بنانے کے بجائے صرف ''جیو اور وقت گزارو'' کی پالیسی پر گامزن تھے۔ شہباز شریف جیسا تیز رو شخص ان کی سوچ کے فریم ورک میں فٹ نہیں آتا تھا۔ وہ جدید دور کے نئے افکار کو اجنبی خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پورے آٹھ سالہ دور اقتدار میں سندھ جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔ کوئی ایک بڑا منصوبہ نہ بنایا گیا۔
خدا خدا کر کے صوبہ سندھ کو ایک نیا جواں سال وزیراعلیٰ نصیب ہوا ہے، جس سے ہمارے لوگوں کو بہت امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ان کے صوبے کی حالت بدلنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کچھ فیصلے کریں گے۔ عوام کو بنیادی سہولتیں بہم پہنچانے کا مناسب انتظام کریں گے۔ ان کے اندر احساس محرومی دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ صوبے کے وسائل کو یہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے۔ صوبے میں ترقیاتی کاموں کی ایسی منصوبہ بندی کریں گے کہ اس صوبے کے لوگ بھی عزت و فخر سے جینے کے احساس سے سرفراز ہو پائیں گے۔
یہاں کے اسکول، اسپتال اور تمام سرکاری محکمے اعلیٰ کارکردگی کا نمونہ پیش کریںِ گے۔ عوام کو ان سے بڑی توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ اس صوبے کے کرپٹ اور نااہل لوگوں کا قلع قمع کریں گے، عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ کریں گے اور بہت جلد اس صوبے کو ہمارے دیگر صوبوں کے ہم پلہ لاکھڑا کریں گے۔ انھیں فی الحال دو سال کا وقت ملا ہے، وہ اگر چاہیں تو ان دو سال ہی میں اعلیٰ کارکردگی اور مناسب حکمت عملی کے تحت سندھ کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔ وہ ایک جواں سال اور پرجوش لیڈر ہیں۔
پارٹی کی پالیسی سے قطع نظر انھیں سب سے پہلے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہی ایک وہ مرض ہے جو سندھ کو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ کرپشن صرف ایک تاثر یا پرسپشن نہیں ہے، یہ ایک ایسی حقیقت جس سے انکار ممکن نہیں۔ اگر انھوں نے صرف اس ایک چیز پر قابو پا لیا تو سجھ لیں انھوں نے اپنے صوبے کے بے بس و لاچار لوگوں کا حق ادا کر دیا۔ کرپشن سے بچ جانے والا پیسہ جب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے لگے گا تو خوشحالی خودبخود ان کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے گی۔
عوام خوشحال ہوں گے تو یہ صوبہ بھی ترقی کرے گا۔ یہاں اسپتالوں اور اسکولوں کا معیار بھی بہتر ہوگا۔ سڑکوں اور شاہراہوں کی حالت بھی بدلے گی۔ ملیں اور کارخانے بھی لگیں گے۔ لوگوں کو جائز روزگار بھی ملے گا۔ دوسری ترجیح امن و امان کو قائم رکھنا ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور مجبوریوں سے انھیں اجتناب کرنا ہوگا۔ جب یہاں امن ہوگا تو کاروبار بھی ہوگا۔ رینجرز کی کوششوں سے کراچی میں جو امن قائم ہوا ہے اسے دیرپا اور مستقل بنانے میں ہمارے نئے وزیراعلیٰ کا کردار بہت اہم ہوگا۔
سیاسی مصلحتوں کے تحت رینجرز کو اختیارات دینے میں اگر لیت و لعل سے کام لیا تو پھر اس صوبے کو ایک مثالی صوبہ بنانے کا خواب ادھورا ہی رہ جائے گا۔ جب تک یہاں مکمل امن قائم نہیں ہوتا اور کرپٹ عناصر کا خاتمہ نہیں ہوتا صوبہ سندھ کی ترقی و خوشحالی ممکن ہی نہیں۔ نئے وزیراعلیٰ کو صرف ان دو کاموں کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا، بصورت دیگر وہ ہزار کام کر جائیں لیکن سندھ کے عوام کی خدمت نہیں کر پائیں گے۔