کیسے ہندو کیسے مسلمان
ہولی اور دیوالی کے مواقع پر ہندوؤں کے گھروں سے مسلمانوں کے ہاں مٹھائی ضرور آتی تھی۔
ان دنوں آن لائن میڈیا میں اس خبر اور تصویر کا بڑا چرچا رہا جو بھارتی ریاست اتر پردیش (یوپی) کی ایک 18 سالہ ہندو لڑکی پوجا خوشواہا سے متعلق تھی، جو مسلمان بچوں کو بلامعاوضہ قرآن پاک پڑھاتی ہے۔ بظاہر اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے، آپ نے جو تعلیم خود حاصل کر رکھی ہے وہی دوسروں کو دے سکتے ہیں، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جسے خود انگریزی نہ آتی ہو وہ چلا ہو دوسروں کو انگریزی پڑھانے۔
اس منطق کی رو سے اگر کسی نے قرآن پاک پڑھ رکھا ہے تو اس کا دوسروں کو پڑھانا کوئی معیوب بات نہیں۔ اس سے قطع نظر کہ پڑھانے والا کون ہے اور پڑھنے والا کون، دیکھا یہ جانا چاہیے کہ اس میں کوئی بدنیتی شامل نہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف دوسروں کی مدد کرنا ہے۔
بھارت میں یہاں سے زیادہ غربت ہے، اگر وہاں کوئی غریب مسلمان خاندان اپنے بچوں کو پیسوں کے عوض قرآن پاک پڑھانے والے کسی مولوی صاحب کے پاس بھیجنے کا متحمل نہیں ہو سکتا اور گلی محلے ہی کی کوئی لڑکی، خواہ اس کا تعلق دوسرے مذہب ہی سے کیوں نہ ہو، ان کی مدد کر دے تو اس میں بھلا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
یہاں ہمارے ملک میں اب یہ جذبہ مفقود اور عمل متروک ہو چکا ہے ورنہ پہلے ہم بھی رواداری اور غیر متعصبانہ طرز عمل میں کسی سے پیچھے نہ تھے، بلکہ یہ ہماری پہچان ہوا کرتی تھی۔ مذکورہ بالا بھارتی ہندو لڑکی کی مثال سے یاد آیا، ہمارے ساتھ ایک پنڈت کا بیٹا بھی پڑھا کرتا تھا جو کبھی کبھی اساتذہ کرام کی فرمائش پر اسمبلی میں قرآن پاک کی کسی سورۃ کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ اگرچہ اس نے نہ تو قرآن پاک کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی نہ ہی قرأت سیکھی تھی لیکن اس قدر اچھی اور خوبصورت قرأت کیا کرتا تھا کہ سننے والوں کا دل چاہتا تھا وہ بس اس کی قرأت ہی سنتے رہیں۔
اب یہ تو طے ہے کہ پنڈت نے اپنے بیٹے کو قرآن پاک پڑھنے یا قرأت سیکھنے کے لیے تو بھیجا نہیں ہو گا، اس کو شوق تھا تو اس نے نہ صرف قرآن پاک پڑھنا بلکہ اس کی تلاوت اور قرأت کرنا بھی سیکھ لیا۔ یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں، آخر ہم انگریزی بھی تو شوق سے پڑھتے، لکھتے اور بولتے ہیں، وہ کون سی ہماری مادری یا مذہبی زبان ہے۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہمارا انگریزی کا استاد کون ہے، ہندو ہے یا مسلمان، بس اچھا پڑھانے والا ہونا چاہیے، یہی ہماری ترجیح ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔
رواداری اور غیر متعصبانہ طرز عمل صرف پڑھنے پڑھانے تک محد ود نہیں تھا بلکہ اس کا مظاہرہ ہر شعبہ زندگی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ ہمیں اپنے لڑکپن کا وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہے جب ہندو اور مسلمان سب مل کر رہتے تھے، دیوار کے ایک طرف مسلمان کا گھر ہوتا تو دوسری جانب ہندو کا، دونوں میں سے کسی کو کبھی ایک دوسرے سے کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ ہندو یہ شکایت نہ کرتے کہ مسلمانوں کے گھروں سے صبح صبح تلاوت کی آواز آتی ہے اور نہ مسلمانوں کو پڑوس میں واقع مندر میں گھنٹیاں بجنے کی آوازوں یا بھجن گانے سے کوئی تکلیف ہوتی تھی۔
یہی نہیں انھیں ایک دوسرے کی خوشی اور غمی کا بھی بھرپور احساس ہوتا تھا اور وہ اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے تھے کہ ان کے کسی عمل سے دوسرے کو کوئی تکلیف نہ ہو اور جذبات مجروح نہ ہوں۔ عید کی صبح مسلمانوں کے گھروں میں سویاں بنتیں تو وہ اپنے ہندو پڑوسیوں کو بھجوانا کبھی نہ بھولتے۔ اسی طرح ہولی اور دیوالی کے مواقع پر ہندوؤں کے گھروں سے مسلمانوں کے ہاں مٹھائی ضرور آتی تھی۔ راکھی کے تہوار پر ہندو لڑکیاں اپنے ہم عمر پڑوسی مسلمان لڑکوں کو راکھی باندھ کر انھیں بھائی بناتیں، جس سے دونوں برادریوں کے آپس کے تعلقات اور بھی مضبوط اور خوشگوار بنانے میں مدد ملتی۔
ہولی کے دن ہندو لڑکے لڑکیاں اگر اپنے مسلمان دوستوں اور سہیلیوں پر رنگ پھینکتے تو ان کے والدین نہ تو کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کرتے نہ ہی برا مناتے، بلکہ وہ خود کو پہلے سے اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان مائیں ہولی کی رات بچوں کو پھٹے پرانے کپڑے پہنا کر سلاتی تھیں تا کہ صبح جب پڑوس کے ہندو بچے آ کر ان پر رنگ پھینکیں تو ان کے نئے اور اچھے کپڑے خراب نہ ہوں۔ ایسے موقعوں پر ہم اپنی بہنوں کو اکثر ان کی پڑوسی ہندو سہیلیوں کے ساتھ ڈانڈیا کھیلتے بھی دیکھا کرتے تھے۔
دوسری جانب بھی اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا، مسلمان پڑوسی کے ہاں شادی بیاہ کی تقریب میں دونوں برادریوں کی لڑکیوں کا مل کر ڈھولکی بجانا اور گیت گانا تو عام سی بات تھی، بڑے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ شادی سیٹھ ہاشم کھٹی کے بیٹے کی ہے، مہمانوں کا سواگت سیٹھ پنجومل کر رہے ہیں، ٹھیکیدار ایسر داس نے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی کی پہلے سے طے شدہ تاریخ محض اس لیے ایک مہینہ آگے بڑھا دی کہ اس کا قریبی مسلمان پڑوسی رمضان پخالی سخت بیمار تھا اور ان کی خوشی میں شریک ہونے سے قاصر تھا۔
اس زمانے میں تو ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے تھے کہ کسی مسلمان کے جنازے میں ہندو برادری کے سرکردہ افراد نہ صرف شریک ہوتے بلکہ قبرستان تک ساتھ جاتے تھے، بس نماز جنازہ کے وقت ایک طرف الگ ہو کر کھڑے ہو جاتے کہ یہ ان کی مجبوری تھی۔ اسی طرح شہر کے کسی ہندو کا دیہانت ہو جاتا تو اس کے محلے کے مسلمان، غمزدہ خاندان کے دکھ میں شریک ہوتے اور خاصی بڑی تعداد میں شمشان تک میت کے ساتھ جاتے۔
اب سنتے ہیں ہندو مسلمانوں کو اور مسلمان ہندوؤں کو اپنے برتنوں میں کھانا نہیں کھانے دیتے کہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے برتن ناپاک ہو جاتے ہیں، ناپاک بھی ایسے کہ کئی بار دھونے سے بھی پاک نہیں ہوتے، لیکن ہم نے اس کے بالکل برعکس دیکھا تھا۔ ہمارے شہر میں لچھی نام کی ایک ہندو بڑھیا ہوا کرتی تھیں، گھر سے اسکول آتے جاتے ہم انھیں اپنے گھر کی چوکھٹ پر بیٹھا ہوا دیکھا کرتے، بچوں کے دادی کہہ کر مخاطب کرنے پر بہت خوش ہوتیں، پاس بلا کر پوچھتیں 'لڈو کھاؤ گے'۔
بچہ اثبات میں گردن ہلاتا تو اسے ہاتھ پکڑ کر گھر کے اندر لے جاتیں، کانچ کی برنی میں سے اپنے بنائے ہوئے دو لڈو نکالتیں اور برتنوں کی ٹوکری میں سے پلیٹ یا پیالی نکال کر اس میں رکھ کر بچے کو بڑے پیار سے کھانے کو دیتیں، وہ پانی مانگتا تو مٹکے پر رکھے ہوئے اپنے ہی پیالے میں نکال کر دیتیں اور بچے (مسلمان بچے) کا جھوٹا پیالہ پہلے کی طرح مٹکے پر رکھ دیتیں۔
یہی حال بھگڑے مائی کے نام سے مشہور ایک دوسری بزرگ ہندو خاتون کا تھا جو ہمیں گلی سے گزرتا دیکھتیں تو آواز دے کر بلاتیں، اپنے گھر کے پیالے میں اچار نکال کر دیتیں اور کہتیں اپنی اماں سے کہنا بھگڑے مائی نے دیا ہے۔ اماں ان کے لیے لسی کا گلاس بھجواتیں تو اسی کو منہ لگا کر غٹاغٹ پی جاتیں، دونوں جانب چھوت چھات یا پاکی ناپاکی کا کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ پتہ نہیں وہ کیسے ہندو تھے اور خدا جانے ہم کیسے مسلمان ہیں؟
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو