سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا

انسان سفر کرتا ہے، فاصلے طے کرتا ہے، محدود زندگی میں لامحدود فاصلے کیسے طے ہوں۔

انسان بے بس ہے۔ بے بسی یہ ہے کہ وہ انسان ہے۔ انسان اپنے آپ میں، اپنی تخلیق میں، اپنی فطرت میں، اپنی استعداد میں، اپنے اعضا و جوارح میں، اپنے قویٰ میں، اپنے ظاہر میں اور اپنے باطن میں، اپنے حاصل اور اپنی محرومی میں، اپنی خوشی اور اپنے غم میں، اپنے ارادوں اور اپنی تمناؤں میں، اپنے مشاغل اور اپنی مصروفیات میں، اپنے احباب و اغیار میں، غرض یہ کہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں عاجز و ناتواں ہے۔

انسان کا ہونا، اس کے نہ ہونے تک ہے۔ اس کا حاصل لاحاصل تک ہے، اس کی آرزوئیں، شکست، شکست تک ہے، خون آرزو تک، اس کی توانائی و صحت بیماری تک، اور اس کی ساری تگ و تاز اس کے اپنے مرقد تک، اس کی بلند پروازی اس کی واپسی تک، اس کا ہر تخیل عروج خیال اس کے زوال تک ہی ہے۔ اس کی انا ایک بچے کے غبارے کی طرح پھولتی ہے، پھر غبارہ پھٹ جاتا ہے اور وہ عاجز بے بس ہوکر اس کھیل سے محروم ہو جاتا ہے۔

انسان علم حاصل کرتا ہے خود کو دوام بخشنے کے لیے، وہ لائبریری میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے پاس گنتی کے ایام ہیں اور کتابیں ان گنت۔ اس کا معلوم محدود رہتا ہے اور لامعلوم لامحدود۔ وہ تیزی سے علوم چاٹتا ہے اور فنا اس کی زندگی کو چاٹتی ہے اور انجام کار اس کا انجام مکمل بے بسی، مکمل عاجزی۔

انسان عروج چاہتا ہے، بلندی چاہتا ہے، پہاڑ کی چوٹی اس پر ایک اور پہاڑ رکھتا ہے اور بالآخر یہ سلسلہ چلتے چلتے اس نہج تک آ پہنچتا ہے جب اس کے سر کیے ہوئے سب پہاڑ، سب چوٹیاں دھڑام سے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔

وہ افسوس کرتا ہے تو اس کے پاس افسوس کا وقت نہیں ہوتا۔ وہ سوچتا ہے اور سوچ کر عاجز ہو جاتا ہے کہ اس نے کیا چاہا، اس نے کیا سوچا، اس نے کیا پایا۔ اس کے ہاتھ آنے والی ہر چیز اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور وہ اپنے حاصل سے نکل جانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ مکان بناتا ہے، خوبصورت، دیدہ زیب، آسائش و زیبائش، نمائش والا مکان۔ اس کا اپنا مکان اس کے حسن خیال کا شاہکار، اس کا مکان خوشیوں سے جگمگاتا ہے اور پھر یہی عشرت کدہ ماتم کدہ بننا شروع ہوجاتا اور وہ سوچتا ہے کہ اس نے کیا بنایا، اس کا انجام کار بے بسی میں خاموش ہو جاتا۔


انسان صحت کی حفاظت کرتا ہے، خوراک کا اہتمام کرتا ہے، بڑے جتن کرتا ہے، وہ طویل عمر چاہتا ہے اور طویل عمر نقص عمر سے دوچار ہوتی ہے۔ زندگی قائم بھی رہے تو بینائی قائم نہیں رہتی، سماعت ختم ہو جاتی ہے اور پھر یادداشت کسی صدمے کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے، زندگی کے لطف سے محروم۔ وہ نہ بھی مرے تو اس کے عزیز، اس کے اقربا اس کے محبوب رخصت ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی میں خود کو اپنی نظروں میں بے گانہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے ماضی کی یادوں کا کوئی شریک نہیں رہتا اور پھر یہ یادیں بھول جاتی ہیں۔ اس کی پھیلی ہوئی کائنات سمٹ جاتی ہے۔ وہ ہجوم میں تنہا رہ جاتا ہے۔ اس کا سب غرور عاجز و بے بس ہو جاتا ہے۔ اس کا اپنا مکان اسے نکال باہر کر دیتا ہے اور کچھ عرصے بعد اس کی تصویریں دیواروں اور البموں سے ہٹا لی جاتی ہیں۔ کسی کو یاد نہیں رہتا کہ وہ تھا۔ تھا بھی کہ نہیں؟

انسان سفر کرتا ہے، فاصلے طے کرتا ہے، محدود زندگی میں لامحدود فاصلے کیسے طے ہوں۔ زمین و آسمان کا عظیم سلسلہ فاصلوں سے بھرا ہوا ہے، فاصلے ہی فاصلے۔ راستے ہی راستے ہیں، مسافرت ہی مسافرت ہے۔ لاکھوں میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی روشنی یہ فاصلے کروڑوں سال میں طے نہیں کر سکتی، انسان کیسے طے کرے گا۔ انسان کے پاس عاجزی اور بے بسی کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ انسان دولت اکٹھی کرتا ہے، مال جمع کرتا ہے، اسے گنتا ہے، گن کر خوش ہوتا ہے۔

فخر کرتا ہے کہ اس کے پاس مال ہے۔ اسے جب معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کتنے قارون اور فرعون گزر گئے، مال نے کسی کی مدد نہ کی، زمین میں اتنا مال ہے کہ بس خدا کی پناہ، کوئی کیا حاصل کرے گا۔ ایک جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ رکھنے سے انسان کو کیا ملے گا۔ اس کے بینک بھرے رہتے ہیں اور دل خالی رہتا ہے۔ متاع حیات قلیل۔ جوں جوں مال بڑھتا ہے مال کی تمنا بھی بڑھتی ہے اور انسان اپنی دولت کو ضرورت سے کم سمجھتا ہے۔ وہ اپنی امیری کو غریبی کے ڈر سے بچا نہیں سکتا۔ اگر خواہش حاصل سے زیادہ ہو تو انسان خود کو غریب سمجھتا ہے۔

خواہشات کا بے ہنگم پھیلاؤ آخرکار انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ وہ اپنے ہی جال میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ خواہشات بدلتی رہتی ہیں، مرتی رہتی ہیں اور پیدا ہوتی رہتی ہیں، اس کھیل کا نتیجہ لازمی نتیجہ بے بسی ہے، عاجزی انسان کو اس کی تمنائیں عاجز کر دیتی ہیں، وہ مجبور ہو جاتا ہے، ہر نئی شے کی محبت میں گرفتار ہونا اس کا مقدر ہے۔

نئے مکان، نئے ماڈل، نئے تقاضے پورے کرتے کرتے انسان پرانا انسان بے بس و عاجز ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ انجام کار دیکھتا کہ اس کا پھیلاؤ سمٹ گیا، اس کی دنیا محدود ہو گئی، اس کے راستے مسدود ہو گئے، اس کے ارادے ٹوٹ گئے، اس کی اسکیمیں نامکمل رہیں، اس کے پروگرام ادھورے رہ گئے، اس کے خواب خواب پریشان ہو گئے، اس کے خیال کے اڑن کھٹولے ہچکولے کھاتے ہوئے زمین پر آ گرے۔ زندگی میں اتنی مہلت نہیں ملتی کہ انسان اس کو دوبارہ شروع کر سکے۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ ہونی انہونی نہیں ہو سکتی، غرور سرنگوں ہو جاتا ہے۔ زور آور کمزور ہو جاتے ہیں، محنتیں مٹی میں مل جاتی ہیں، اور آخر کار انسان اس عیش و عشرت کی دنیا کو چھوڑ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔
Load Next Story