کوئی ہے جو اِن کی بھی سنے

اگر حکمراں اس دنیا میں لوگوں کی خدم ت نہ کرسکےتو یہ سب اوپرجواب مانگے گےاور وہاں جواب دینا ان کیلئے ممکن نہیں ہوسکے گا

آپ سڑک پر گھومیں پھریں تو اندازہ ہوگا کہ لوگ اِس جنس کو کس طرح تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ لوگ اِس طرح اُن پر جملے کستے ہیں جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ کھلونے ہو۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اسلامی نظریاتی کونسل تو دیکھے گی۔ خواتین پر ہلکے پھلکے تشدد کی بے حد کامیابی کے بعد اب ہمارے ملک کے اس اہم ادارے نے مردوں پر گھریلو تشدد کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا ہے، یہ تو بھلا ہو اس ادارے کا ورنہ اس ملک میں گھریلو باتیں سنتا ہی کون ہے؟ اِس موقع پر بس دعا یہی ہے کہ اللہ تعالی مولانا شیرانی، علامہ افتخار حسین نقوی اور طاہر اشرفی سمیت تمام اراکین کو گھریلو تشدد سے محفوظ رکھے۔

تعریف اور دعا کے بعد اب آتے ہیں اصل نقطہ کی طرف۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین پر تو تشدد کے واقعات اِس قدر بڑھ گئے کہ اِس اہم ایشو پر بات کرنا ضروری محسوس ہونے لگا، لیکن مرد ہونے کے باوجود حیران ہوں کہ مردوں پر ایسی کونسی قیامت آگئی تھی کہ اِن پر ہونے والے تشدد کو ایجنڈے میں شامل کرنا پڑا۔ یہ بات میں شاید اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے خود یہ تشدد برداشت نہیں کیا، اور میرے قریبی حلقے میں بھی کسی نے ایسی شکایت نہیں کی، اور جن صاحب نے یہ درخواست پیش کی ہے شاید اُن صاحب پر گھر میں واقعی تشدد ہوتا ہو، اگر ایسا نہیں ہوتا ہو تو شاید اُن کے کسی قریبی ساتھی کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے، اور حساس طبیعت کی وجہ سے انہوں نے یہ ضرور سمجھ لیا ہو کہ اب اِس اہم ترین معاملے پر بھی بات ہونی چاہیے۔ اِس لیے بہرحال جمہوری معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیں اُن کی رائے کا احترام کرنا چاہیے، لیکن سچ پوچھیے تو شدید افسوس ہوتا ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کو روزانہ کی بنیاد پر خواجہ سراہوں پر ہونے والا تشدد نظر آتا ہو، کاش ہمارے معاشرے میں بھی کوئی ایسا ہوتا تو وہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک درخواست دائر کرتا کہ سرکار اِس جانب بھی نظر ڈالی لی جائے۔

ممکن ہے خواجہ سراہوں کے حقوق پر بات نہ ہونے کی کچھ اور بھی وجوہات ہوں، لیکن ذاتی رائے بہرحال یہی ہے کہ خواجہ سراہوں کے حق کے لیے بات کرنا ہماری اکثریت اپنے لیے توہین سمجھتی ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو مرد اور عورت کے علاوہ ایک ایسی مخلوق بھی خدا نے بنائی ہے کہ جس کو شاید ہم نے مخلوق ہی نہیں سمجھا اور اگر کسی نے مخلوق سمجھا ہو تو پھر انسان نہیں سمجھا۔ جی جناب گزشتہ کئی ماہ سے خیبر پختونخوا سمیت پنجاب کے شہروں میں خواجہ سراہوں پر مسلسل تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں، یہاں تک کہ چند واقعات میں تو خواجہ سرا اپنی جان تک گنواہ چکے ہیں۔

درحقیقت یہ طبقہ اس حد تک نظر انداز ہے کہ گھر والے تو ان کو اپنے ساتھ رکھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں اور جب یہ افراد جو گھر بار چھوڑ کر ماں باپ بہن بھائی سے دور کسی دوسرے شہر یا دوسرے گھر اپنا بسیرا بنا لیتے ہیں۔ اگرچہ اِن لوگوں کے ساتھ اپنا کوئی نہ رہا، مگر پیٹ تو ساتھ ہی رہتا ہے نا، اور بھوکا انسان کچھ بھی کرجاتا ہے چاہیے پھر وہ جرم ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس طبقے نے کمانے کے لیے کسی کا قتل نہیں کیا، کسی کو لوٹا نہیں، کسی کا حق نہیں چھینا، ہاں کچھ نے سڑکوں پر اپنے جسم کی نمود ونمائش کرکے پیسے ضرور مانگے، یہ راستہ اپنانے کی وجہ شاید یہی ہے کہ وہ بھی جانتے ہیں کہ ملک میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جو ان کو باعزت روزگار دے، اگر کوئی نوکری پر رکھ بھی لیتا ہے تو وہاں پر موجود افراد کے طعنے اور مذاق ان کو اس نوکری پر رہنے نہیں دیتا۔


لیکن شاید اب بات اس سے کہیں آگے جا چکی ہے۔ اب اس طبقے کو صرف رسوا ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اب تو لوگ اِن کی جان کے بھی دشمن بن گئے ہیں۔ کوئی ذرائع ابلاغ اس قسم کے واقعات کو بریکنگ نیوز اور اہمیت دینے کو تیار نہیں، کوئی اس کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں لیکن بھلا ہو اس سوشل میڈیا کا جس پر خود خواجہ سراہوں نے فیس بک پر پیج بنا کر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو عوام تک پہنچانا شروع کردیا ہے اور معاشرے کا سفاک چہرہ لوگوں کو دکھایا جارہا ہے۔ حال ہی میں سیالکوٹ میں پیش آنے والا افسوسناک واقعہ بھی سوشل میڈیا کی توسط سے لوگوں تک پہنچا جہاں بھتہ نہ دینے پر مقامی غنڈوں نے خواجہ سراہوں کو رات بھر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا اور جو کچھ اُن کے ساتھ کیا گیا وہ یہاں لکھنے کے قابل بھی نہیں۔ سوشل میڈیا پر جگہ جگہ ویڈیوز موجود ہے جس میں وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کی داستان سنا رہے ہیں۔

آپ سڑک پر گھومیں پھریں تو اندازہ ہوگا کہ لوگ اِس جنس کو کس طرح تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ لوگ اِس طرح اُن پر جملے کستے ہیں جیسے وہ انسان نہ ہوں بلکہ کھلونے ہو۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ ہماری حکومت کے لیے تو اِس وقت اپنے لیے حالات مشکل ترین ہوتے جارہے ہیں، اور ایسی صورت میں وہ اپنی ہی مدد کرلے تو بہت ہے۔ لیکن چونکہ اِس ملک میں رہنے والے ایک ایک انسان کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے اِس لیے بہرحال مطالبہ کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہوں گا کہ جناب وزیراعظم صاحب، تمام صوبوں کے وزرائے اعلی اور گورنرز صاحبان، خدارا کچھ ہوش کیجیے، خدارا اِس ملک میں انسانیت کے ساتھ ہونے والے افسوسناک واقعات کو روکنے کے لیے اپنے اختیارات اور کردار ادا کیجیے۔ یہ انسان اشرف المخلوقات ہیں، اِن کے ساتھ یہ ظلم روا مت رکھیے، یہ سب آپ کی ذمہ داری ہیں۔ آج کچھ مشکل اُٹھا کر اِن کی مدد کردیجیے، اگر آج آپ اِس دنیا میں یہ کام نہ کرسکے تو یقین کیجیے یہ سارے انسان اوپر آپ سے جواب مانگے گے، اور یاد رکھیے، وہاں اِن کو جواب دینے سے بہت زیادہ آسان کام یہاں اِس دنیا میں اِن کی خدمت کرنا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
Load Next Story