بلدیاتی انتخابات اور اختیارات کی ناگزیریت
جمہوریت کا تسلسل مستحسن عمل قرار دیا جاسکتا ہے
جمہوریت،جمہورکے لیے ایک بہترین نظام کا نام ہے جواقوام عالم میں رائج ہے، جمہوریت کی نرسری بلدیاتی نظام کوکہا جاتا ہے کیونکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہونے چاہئیں۔ سپریم کورٹ کی خصوصی دلچسپی سے منعقد ہونیوالے بلدیاتی انتخابات تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں، بتدریج بلدیاتی ادارے ملک کے مختلف صوبوں میں اپنے کام کا آغاز بھی کرچکے ہیں۔ اسی ضمن میںانتہائی اہم خبر ہے کہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں مخصوص نشستوں پر انتخابات منعقد ہوئے، بلدیہ عظمیٰ لاہوراور پنجاب کی11میونسپل کارپوریشنوں اور 35ضلع کونسلوں کی مخصوص نشستوںکے لیے، جن میں مسلم لیگ (ن) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
راولپنڈی، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ملتان سمیت دیگر اضلاع میں بھی حکمران جماعت نے اکثریت حاصل کی۔جب کہ ضلع کونسل رحیم یارخان کی 25 مخصوص نشستوں پر ہونیوالے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے 13 نشستیں جیت کر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر سبقت لے لی۔ یہ نتائج جہاں حکمران جماعت کی عوام میں مقبولیت کو ظاہرکرتے ہیں، وہیں یہ اس بات کا بھی غماز ہیں کہ جمہوری عمل میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپورحصہ لے رہی ہیں۔
جمہوریت کا تسلسل مستحسن عمل قرار دیا جاسکتا ہے، یقینا اس کے ثمرات بھی عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں ۔مقامی حکومتوں کا جو تصور ایک آمر نے پیش کیا ، لیکن یہ بہت کامیاب بھی رہا،کیونکہ ماضی میں مقامی حکومتوں نے اپنے شہر، قصبے اورگاؤں کے لیے بے انتہا ترقیاتی کام کروائے، پھر پیپلزپارٹی کی سابق جمہوری حکومت نے سارا دور بغیر بلدیاتی نظام کے گزاردیا اورمسلم لیگ ن بھی اسی روش پر قائم رہی، لیکن سپریم کورٹ کا بھلا ہو جس نے عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کر کے بلدیاتی نظام کو نہ صرف بحال کیا بلکہ الیکشن کروانے پر مجبور بھی کیا۔
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل اختیارات دیں تاکہ وہ عوام کے مسائل حل کرسکیںاور جمہوریت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر مضبوط ہو، لیکن ہو توکچھ اور ہی رہا ہے، مثلاً شہرکراچی کی مثال لے لیجیے کہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں، میئر شہرعدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔ شہر کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ شہریوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے،کراچی شہرکھنڈرکا منظر پیش کررہا ہے۔ سیوریج نظام تباہ ہوچکا،پانی نہیں ہے شہر میں ۔دانش مندی اورسیاسی فہم وفراست کا تقاضہ ہے کہ مکمل اختیارات بلدیاتی اداروں کو دیے جائیں تاکہ وہ عوام کی خدمت بہتر انداز میں کرسکیں ۔
راولپنڈی، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ملتان سمیت دیگر اضلاع میں بھی حکمران جماعت نے اکثریت حاصل کی۔جب کہ ضلع کونسل رحیم یارخان کی 25 مخصوص نشستوں پر ہونیوالے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے 13 نشستیں جیت کر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر سبقت لے لی۔ یہ نتائج جہاں حکمران جماعت کی عوام میں مقبولیت کو ظاہرکرتے ہیں، وہیں یہ اس بات کا بھی غماز ہیں کہ جمہوری عمل میں تمام سیاسی جماعتیں بھرپورحصہ لے رہی ہیں۔
جمہوریت کا تسلسل مستحسن عمل قرار دیا جاسکتا ہے، یقینا اس کے ثمرات بھی عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں ۔مقامی حکومتوں کا جو تصور ایک آمر نے پیش کیا ، لیکن یہ بہت کامیاب بھی رہا،کیونکہ ماضی میں مقامی حکومتوں نے اپنے شہر، قصبے اورگاؤں کے لیے بے انتہا ترقیاتی کام کروائے، پھر پیپلزپارٹی کی سابق جمہوری حکومت نے سارا دور بغیر بلدیاتی نظام کے گزاردیا اورمسلم لیگ ن بھی اسی روش پر قائم رہی، لیکن سپریم کورٹ کا بھلا ہو جس نے عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کر کے بلدیاتی نظام کو نہ صرف بحال کیا بلکہ الیکشن کروانے پر مجبور بھی کیا۔
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں مکمل اختیارات دیں تاکہ وہ عوام کے مسائل حل کرسکیںاور جمہوریت مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر مضبوط ہو، لیکن ہو توکچھ اور ہی رہا ہے، مثلاً شہرکراچی کی مثال لے لیجیے کہ بلدیاتی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں، میئر شہرعدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔ شہر کے مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ شہریوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے،کراچی شہرکھنڈرکا منظر پیش کررہا ہے۔ سیوریج نظام تباہ ہوچکا،پانی نہیں ہے شہر میں ۔دانش مندی اورسیاسی فہم وفراست کا تقاضہ ہے کہ مکمل اختیارات بلدیاتی اداروں کو دیے جائیں تاکہ وہ عوام کی خدمت بہتر انداز میں کرسکیں ۔