قیام امن کے لیے سماجی مکالمہ
کراچی وہ بھینس ہے، جس کا دودھ نچوڑنے کے لیے تو سب تیار رہتے ہیں
کراچی وہ بھینس ہے، جس کا دودھ نچوڑنے کے لیے تو سب تیار رہتے ہیں، مگر بھینس کو زندہ رہنے کے لیے کیا چاہیے،اس سے کسی کو غرض نہیں۔ قیام پاکستان سے آج تک اسی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔
عوام کی شکایات کو سننے، ان کے مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے اور انھیں حل کرنے کے لیے پائیدار حکمت عملیاں بنانے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ حکمرانوں کی غیر ذمے دارانہ روش اپنی جگہ، اہل دانش اور متوشش شہریوں نے بھی اس شہر کے مسائل کو جرأت مندانہ انداز میں پیش نہیں کیا۔ گویا اس کے وسائل سے سب مستفیض ہو رہے ہیں مگر اسے اپنانے کو کوئی تیار نہیں۔
وہ شہر جو تقسیم ہند سے قبل 4 لاکھ آبادی کا ایک خوبصورت مرکنٹائل شہر تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب اسے وفاقی دارالحکومت بنایا گیا، تو مہاجرین کے ریلے کی آمد کے نتیجے میں اس کی آبادی10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ پھر صنعتکاری کے عمل کے نتیجے میں ملک کے دیگر حصوں سے روزگار کی طلب میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو کسی منصوبہ بندی کے بغیر آج تک بے ہنگم انداز میں آج تک جاری ہے، مگر شہر کے لیے اربن سہولیات مہیا کرنے اور اسے درپیش مسائل کے حل پر کسی بھی دور میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلکہ شہر کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکھا گیا۔
حکمرانوں کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی کا ثبوت یہ ہے کہ 1953کی طلبہ تحریک سے آج تک حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو منفی رنگ دیا گیا اور اسے طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اس رویے کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔ بلوچستان اور سندھ کئی دہائیوں سے بے چینی کا شکار ہیں۔ یہی کچھ رویہ سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔
تین دہائیوں سے اربن سندھ کی مقبول اور نمایندہ سیاسی قیادت پر الزام تراشیوں میں حکمران، دانشور، ذرایع ابلاغ اور سیاسی قیادتیں پیش پیش چلی آرہی ہیں، مگر ان شہروں کے عوام کی کیا شکایات ہیں، اس پر توجہ دینے کی نہ کسی کو پروا ہے اور ضرورت۔ کیونکہ اربن سندھ میں آباد ان کمیونٹیوں کو صرف عوام کے مختلف طبقات ہی نہیں، ریاستی مقتدرہ بھی ملک کا حقیقی شہری تسلیم نہیں کرتی۔
تاریخ کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان اٹھا رہے ہیں۔ جو وہاں رہ گئے، وہ وہاں بے اعتبار ہیں، کیونکہ انھیں پاکستان کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے جو یہاں آگئے، انھیں یہاں قبول کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ ایوب خان نے جس عصبیت اور امتیازی سلوک کی بنیاد رکھی تھی، ان کے جان نشین اسے آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طاقت کے بل بوتے پر اس کمیونٹی کی مقبول قیادت کی زباں بندی تو کر دی جاتی ہے، مگر اس کے مسائل کے حل کی کسی کو فکر نہیں۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ سول سوسائٹی نے بھی اربن معاشرت کے درپیش مسائل کو پر زور انداز میں اٹھانے میں دہرے معیار کا ثبوت دیا۔ جس کی وجہ سے یہ معاملات مزید الجھتے چلے گئے۔ البتہ کچھ تنظیموں نے اپنے تئیں ان مسائل کو پیش کرنے میں جرأت مندی کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا۔
اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی تنظیم پائلر جو بنیادی طور پر محنت کشوں کے معاملات و مسائل پر تحقیق اور تربیت کا ادارہ ہے۔اس نے شہر کو پرامن بنانے کے لیے عملی کوششیں کی ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ کرامت علی کا کہنا ہے کہ محنت کشوں کے حقوق کے حصول اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ شہر، صوبے، ملک اور خطے میں پائیدار امن قائم ہو۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ہر تنظیم کی ذمے داری ہے کہ وہ پائیدار اور مستقل امن کو اپنا محور بنائے۔
یہی سبب ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کی کوششیں ہوں یا ملک میں ایک پرسکون ماحول کا قیام یا شہروں میں بحالی امن کی کاوشیں ہوں، یہ تنظیم ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔ گزشتہ سنیچر کو مختلف سماجی شراکت داروں (Stakeholders) کو ایک چھت کے نیچے جمع کرکے کراچی شہر میں قیام امن کے لیے سماجی مکالمہ کا آغاز کرنے کی خاطر ایک روزہ مشاورتی نشست کا اہتمام کیا۔
اس مشاورتی نشست میں شہر کی نمایندہ سیاسی جماعتوں کے اراکین، اہل دانش، سماجی کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمایندوں کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس سلسلے میں جن موضوعات کو زیر بحث لایا گیا، ان میں کراچی کی کمیونٹیزکی نقشہ بندی، کراچی میں تشدد کے حقائق، ترقی کی عدم موجودگی میں امن کی توقع، کراچی کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا کردار، شہریوں کی خواہشات اور کراچی کے مستقبل میں کمیونٹیزکے کردارکی تصور سازی شامل تھے جن لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں معروف تاریخ دان گل حسن کلمتی، سندھ پولیس کےSSPفیض اللہ کوریجو، کنسلٹنٹ فرحان انور، OPP کی عقیلہ اسماعیل، شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ڈاکٹر ریاض احمد شیخ، معروف شہری منصوبہ ساز عارف حسن، فشر فوک فورم کے محمد علی شاہ، ماحولیاتی ماہر عافیہ سلام کے علاوہ پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر شاہدہ رحمانی، ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری اور تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی شریک گفتگو ہوئے۔
اس ایک روزہ مشاورتی نشست میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا، وہ اس شہر کے عوام کی خواہشات کی واضح ترجمانی تھے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ مختلف فورموں پر ہونے والی گفتگو اور پیش کی جانے والی تجاویز حکمران مقتدرہ کے لیے درخوراعتنا نہیں ہوتیں۔اسی لیے ان پر عمل درآمد کرنے پر مخصوص سیاسی مفادات کی خاطر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ پولیس کے ایک سینئر افسر SSP فیض اللہ ناریجو نے شہر میں امن وامان کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ تقریباً وہی تھے، جو کہ کراچی کے معاملات کو سمجھنے والے متوشش شہری کئی دہائیوں سے پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا حکومت اپنے ایک سینئر پولیس افسر کے خیالات کو اہمیت دیتے ہوئے انھیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ شہر میں امن کے امکانات کو تقویت دینے کے لیے پائلر کی اس مشاورتی نشست میں سامنے آنے والی تجاویز پر غور کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند دیگر پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اول، سیاسی مسائل کو انتظامی طریقے سے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں معاملات و مسائل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنتی ہے۔ دوئم، کسی علاقے یاکمیونٹی کی مقبول قیادت کو جبراً عوام سے دورکرنے کے کبھی مثبت نتائج نہیں نکلتے ۔ جو حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق کسی جماعت کی قیادت کو تبدیل کردیں گے یا اس پارٹی میں من پسند دھڑے بندیاں کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیں گے، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
سوئم، ماتحت ریاستی اداروںکا حکومت کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ سے تجاوز، سیاسی معاملات کو پیچیدہ بنانے کا سبب بنتا ہے جس سے گریزکی ضرورت ہے۔ ہر ادارے کی کارکردگی اور کارروائی کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے مانیٹرنگ انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ چہارم، کراچی جیسے میگا شہروں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار مقامی حکومتی نظام کا قیام ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جس قدر جلد ممکن ہو ایک مکمل بااختیار انتظامی ڈھانچے کے قیام کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس عمل میں جتنی تاخیر ہوگی، معاملات و مسائل کی پیچیدگی میں اتنی ہی شدت سے اضافہ ہوگا۔
عوام کی شکایات کو سننے، ان کے مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے اور انھیں حل کرنے کے لیے پائیدار حکمت عملیاں بنانے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ حکمرانوں کی غیر ذمے دارانہ روش اپنی جگہ، اہل دانش اور متوشش شہریوں نے بھی اس شہر کے مسائل کو جرأت مندانہ انداز میں پیش نہیں کیا۔ گویا اس کے وسائل سے سب مستفیض ہو رہے ہیں مگر اسے اپنانے کو کوئی تیار نہیں۔
وہ شہر جو تقسیم ہند سے قبل 4 لاکھ آبادی کا ایک خوبصورت مرکنٹائل شہر تھا۔ قیام پاکستان کے بعد جب اسے وفاقی دارالحکومت بنایا گیا، تو مہاجرین کے ریلے کی آمد کے نتیجے میں اس کی آبادی10 لاکھ تک پہنچ گئی۔ پھر صنعتکاری کے عمل کے نتیجے میں ملک کے دیگر حصوں سے روزگار کی طلب میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا، جو کسی منصوبہ بندی کے بغیر آج تک بے ہنگم انداز میں آج تک جاری ہے، مگر شہر کے لیے اربن سہولیات مہیا کرنے اور اسے درپیش مسائل کے حل پر کسی بھی دور میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بلکہ شہر کے ساتھ سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکھا گیا۔
حکمرانوں کی تنگ نظری اور کوتاہ بینی کا ثبوت یہ ہے کہ 1953کی طلبہ تحریک سے آج تک حقوق کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو منفی رنگ دیا گیا اور اسے طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اس رویے کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔ بلوچستان اور سندھ کئی دہائیوں سے بے چینی کا شکار ہیں۔ یہی کچھ رویہ سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔
تین دہائیوں سے اربن سندھ کی مقبول اور نمایندہ سیاسی قیادت پر الزام تراشیوں میں حکمران، دانشور، ذرایع ابلاغ اور سیاسی قیادتیں پیش پیش چلی آرہی ہیں، مگر ان شہروں کے عوام کی کیا شکایات ہیں، اس پر توجہ دینے کی نہ کسی کو پروا ہے اور ضرورت۔ کیونکہ اربن سندھ میں آباد ان کمیونٹیوں کو صرف عوام کے مختلف طبقات ہی نہیں، ریاستی مقتدرہ بھی ملک کا حقیقی شہری تسلیم نہیں کرتی۔
تاریخ کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کا سب سے زیادہ نقصان مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان اٹھا رہے ہیں۔ جو وہاں رہ گئے، وہ وہاں بے اعتبار ہیں، کیونکہ انھیں پاکستان کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے جو یہاں آگئے، انھیں یہاں قبول کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ ایوب خان نے جس عصبیت اور امتیازی سلوک کی بنیاد رکھی تھی، ان کے جان نشین اسے آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ طاقت کے بل بوتے پر اس کمیونٹی کی مقبول قیادت کی زباں بندی تو کر دی جاتی ہے، مگر اس کے مسائل کے حل کی کسی کو فکر نہیں۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ سول سوسائٹی نے بھی اربن معاشرت کے درپیش مسائل کو پر زور انداز میں اٹھانے میں دہرے معیار کا ثبوت دیا۔ جس کی وجہ سے یہ معاملات مزید الجھتے چلے گئے۔ البتہ کچھ تنظیموں نے اپنے تئیں ان مسائل کو پیش کرنے میں جرأت مندی کے ساتھ اپنا کردار ادا کیا۔
اس سلسلے میں سول سوسائٹی کی تنظیم پائلر جو بنیادی طور پر محنت کشوں کے معاملات و مسائل پر تحقیق اور تربیت کا ادارہ ہے۔اس نے شہر کو پرامن بنانے کے لیے عملی کوششیں کی ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ کرامت علی کا کہنا ہے کہ محنت کشوں کے حقوق کے حصول اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ شہر، صوبے، ملک اور خطے میں پائیدار امن قائم ہو۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ہر تنظیم کی ذمے داری ہے کہ وہ پائیدار اور مستقل امن کو اپنا محور بنائے۔
یہی سبب ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن کی کوششیں ہوں یا ملک میں ایک پرسکون ماحول کا قیام یا شہروں میں بحالی امن کی کاوشیں ہوں، یہ تنظیم ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔ گزشتہ سنیچر کو مختلف سماجی شراکت داروں (Stakeholders) کو ایک چھت کے نیچے جمع کرکے کراچی شہر میں قیام امن کے لیے سماجی مکالمہ کا آغاز کرنے کی خاطر ایک روزہ مشاورتی نشست کا اہتمام کیا۔
اس مشاورتی نشست میں شہر کی نمایندہ سیاسی جماعتوں کے اراکین، اہل دانش، سماجی کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمایندوں کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس سلسلے میں جن موضوعات کو زیر بحث لایا گیا، ان میں کراچی کی کمیونٹیزکی نقشہ بندی، کراچی میں تشدد کے حقائق، ترقی کی عدم موجودگی میں امن کی توقع، کراچی کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا کردار، شہریوں کی خواہشات اور کراچی کے مستقبل میں کمیونٹیزکے کردارکی تصور سازی شامل تھے جن لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں معروف تاریخ دان گل حسن کلمتی، سندھ پولیس کےSSPفیض اللہ کوریجو، کنسلٹنٹ فرحان انور، OPP کی عقیلہ اسماعیل، شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ڈاکٹر ریاض احمد شیخ، معروف شہری منصوبہ ساز عارف حسن، فشر فوک فورم کے محمد علی شاہ، ماحولیاتی ماہر عافیہ سلام کے علاوہ پیپلز پارٹی کی رہنما ڈاکٹر شاہدہ رحمانی، ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری اور تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی شریک گفتگو ہوئے۔
اس ایک روزہ مشاورتی نشست میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا، وہ اس شہر کے عوام کی خواہشات کی واضح ترجمانی تھے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ مختلف فورموں پر ہونے والی گفتگو اور پیش کی جانے والی تجاویز حکمران مقتدرہ کے لیے درخوراعتنا نہیں ہوتیں۔اسی لیے ان پر عمل درآمد کرنے پر مخصوص سیاسی مفادات کی خاطر توجہ نہیں دی جاتی۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ پولیس کے ایک سینئر افسر SSP فیض اللہ ناریجو نے شہر میں امن وامان کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ تقریباً وہی تھے، جو کہ کراچی کے معاملات کو سمجھنے والے متوشش شہری کئی دہائیوں سے پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا حکومت اپنے ایک سینئر پولیس افسر کے خیالات کو اہمیت دیتے ہوئے انھیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے گی؟
ہم سمجھتے ہیں کہ شہر میں امن کے امکانات کو تقویت دینے کے لیے پائلر کی اس مشاورتی نشست میں سامنے آنے والی تجاویز پر غور کرنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند دیگر پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اول، سیاسی مسائل کو انتظامی طریقے سے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں معاملات و مسائل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنتی ہے۔ دوئم، کسی علاقے یاکمیونٹی کی مقبول قیادت کو جبراً عوام سے دورکرنے کے کبھی مثبت نتائج نہیں نکلتے ۔ جو حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق کسی جماعت کی قیادت کو تبدیل کردیں گے یا اس پارٹی میں من پسند دھڑے بندیاں کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرلیں گے، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
سوئم، ماتحت ریاستی اداروںکا حکومت کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ سے تجاوز، سیاسی معاملات کو پیچیدہ بنانے کا سبب بنتا ہے جس سے گریزکی ضرورت ہے۔ ہر ادارے کی کارکردگی اور کارروائی کو قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے مانیٹرنگ انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ چہارم، کراچی جیسے میگا شہروں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار مقامی حکومتی نظام کا قیام ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جس قدر جلد ممکن ہو ایک مکمل بااختیار انتظامی ڈھانچے کے قیام کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس عمل میں جتنی تاخیر ہوگی، معاملات و مسائل کی پیچیدگی میں اتنی ہی شدت سے اضافہ ہوگا۔