دو ملکوں کی محاذ آرائی میں کشمیر لہولہان

کشمیر پر بھارت کے غیر لچکدار موقف نے اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دیا۔


Babar Ayaz November 17, 2016
[email protected]

ریاستیں بے رحم ہوتی ہیں۔ حکمران اسٹیبلشمینٹس دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی پالیسیوں کا مقصد عوام کی خدمت ہے مگر یہ دعوے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ کئی بار اگر کوئی صحیح کام بھی ہوتا ہے تو اس کے پیچھے غلط مقاصد ہوتے ہیں۔ لوگوں کو تنگ نظر قوم پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اَنا اور علاقے کے سامنے انسانیت ہیچ ہو جاتی ہے۔

کشمیر کے تنازع پر پاکستان اور بھارت نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے اس سے اِس نکتے کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ یہ ایسا رویہ ہے جس سے کشمیری عوام کے لیے خصوصاً اور دونوں ملکوں کے عوام کے لیے عموماً، مشکلات کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اگر پچھلے70 سال کے دوران یہ ایک آزاد سیکولر جمہوری ملک کے لیے یا بھارت کے فریم ورک کے اندر زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی خاطر صرف کشمیری عوام کی جدوجہد ہوتی تو اس کی کامیابی کے زیادہ امکانات تھے۔ ایسی صورت میں اسے زیادہ بین الاقوامی حمایت حاصل ہوتی جو اس وجہ سے حاصل نہیں ہوسکی کہ دنیا اس مسئلے کو دو ملکوں کے درمیان تنازع سمجھتی ہے۔

کشمیر پر بھارت کے غیر لچکدار موقف نے اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دیا۔ اس جھگڑے کا سب سے زیادہ نقصان کشمیری عوام کو ہو رہا ہے جو2 متحارب ملکوں کے درمیان تقسیم ہوکر رہ گئے ہیں۔ بھارت میں کشمیریوں کی طرف سے کئی بار شورش برپا ہوئی مگر ریاست نے ہر بار طاقت سے اسے کچل دیا۔

کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، دنیا کی اس سب سے بڑی سیکولر جمہوریہ کے ریکارڈ پر بدنما داغ ہے۔ کشمیری عوام جب بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں بھارت الزام لگاتا ہے کہ انھیں پاکستان اکسا رہا ہے۔ پاکستان، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر بین الاقوامی سطح پر بھارت کی مذمت کررہا ہے، اس قسم کی شورش میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں انسانی حقوق کے حوالے سے اس کا اپنا کردار بھی قابل رشک نہیں ہے۔

پاکستان نے اس تنازع پر بعض موقعوں پر کچھ لچک دکھائی ہے۔ 1972 کے شملہ معاہدے کے تحت وہ اس تنازع کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر رضامند ہوگیا۔ کشمیر میں دونوں ملکوں کے درمیان متنازع سرحد کے بارے میں فنی اصطلاحات میں خاموشی سے تبدیلی آ گئی۔ پہلے اسے جنگ بندی لائن کہا جاتا تھا مگر پھر اسے لائن آف کنٹرول کہا جانے لگا۔ مگر غیر ریاستی جہادی گروپ قائم کرکے شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔

ان گروپوں نے تحریک کوکمزورکیا۔ اور بھارت کو دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا کہ پاکستان سرحد پار سے دہشتگردی کر رہا ہے۔90ء کی دہائی میں بے نظیر کی حکومت ایک بار پھر اپنے سرکاری موقف سے ہٹ گئی اور اس مسئلہ کا حوالہ دو ملکوں کے درمیان واحد تنازع کی حیثیت سے دینے کی بجائے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان صرف ایسے حل کو مانے گا جوکشمیری عوام کے لیے قابل قبول ہو گا۔

جنرل پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں اپنا موقف تبدیل کر لیا اور مسئلہ کشمیر کے پس پردہ حل کے لیے اپنے چار نکات پیش کیے جن کی کافی شہرت ہوئی تھی۔ بھارت نے اس موقعے کو بھی کھودیا۔ یہ ایک اہم موقع تھا کیونکہ یہ پیشکش فوج کے سربراہ کی طرف سے آئی تھی اور بھارت کے خلاف فوج کا رویہ روایتی طور پر بہت سخت ہوتا ہے۔

تاہم اس کوشش سے کشمیریوں کے لیے کسی قدر آسانی پیدا ہوئی کیونکہ دونوں ملکوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں خصوصی پرمٹ پر ایک دوسرے کے حصے میں آنے جانے کی اجازت دی جائے۔ دونوں ملکوں کی طرف سے ڈیوٹی فری کشمیر، کشمیر تجارت کی بھی اجازت دی گئی۔ ان مشکلات کے باوجود جو لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی وجہ سے پیدا ہوتی رہتی ہیں، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور دونوں طرف کے کشمیری اسے انتہائی موافق سمجھتے ہیں۔

مشرف حکومت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب میں بڑے دکھ کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے تھے مگر پاکستان میں وکلاء نے ججوں کی بحالی کے لیے ملک گیر تحریک چلا دی (وکلاء اور میڈیا کی طرف سے اس تحریک کو غلط طور پر عدلیہ کی بحالی کی تحریک کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی کامیابی سے ایسی با مقصد عدالتی اصلاحات نہیں ہو سکیں جن سے لوگوں کا بھلا ہوتا) بھارت نے اس فوجی جنرل کی قسمت کا فیصلہ ہونے تک دیکھتے رہنے اور انتظار کرنے کا فیصلہ کیا اور قیام امن کا عمل جو آگے بڑھ رہا تھا، پٹری سے اترگیا۔

وزیراعظم نوازشریف کی امن کوششوں کو جن کی وجہ سے سخت گیر بھارتی وزیراعظم کے رویے میں نرمی آئی تھی، پٹھان کوٹ حملے نے تباہ کردیا جو مبینہ طور پر پاکستان میں قائم ایک ایسے جہادی گروپ کی طرف سے کیا گیا تھا جو دونوں ملکوں کے درمیان امن کا دشمن ہے کیونکہ یہ اس کے نظریاتی اور مالی مفادات کے خلاف ہے۔

دونوں ممالک اپنے اپنے گریبان میں جھانکے بغیرایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ تاریخی طور پر معاندانہ تعلقات کے پیش نظر، یہ یقین کرنا بھولپن ہو گا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں جو ایک دوسرے کی مشکلات سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتی ہیں، سرحد پار جلتی ہوئی آگ پر تیل نہیں ڈالیں گی۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جن ملکوں میں جنگی معیشت پر پلنے والی ایسی طاقتور لابیاں موجود ہوتی ہیں جن کے پاس قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں حکم چلانے کی بھی گنجائش ہوتی ہے، وہاں سیاسی قیادت کے پاس پڑوسیوں کے ساتھ حل طلب معاملات کے بارے میں فیصلے کرنے کی بہت کم گنجائش ہوتی ہے۔

حکمرانوں نے ملک میں بھارت دشمن سوچ پیدا کردی ہے کیونکہ یہ اُس مذہبی قوم پرستی کا جواز فراہم کرتی ہے جو دو قومی نظریے کی بنیاد تھی۔ پاکستان نے ایک چھوٹے اور کمزور ملک ہونے کے ناتے غیر ملکی اتحادوں پر انحصارکیا، جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے، اور اپنے فوجی اور معاشی وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیشہ غیر ریاستی اداکاروں، جہادی گروپوں پر تکیہ کیا۔ بعض سیکیورٹی حکام ان جہادی گروپوں کو پاکستان کے دفاع کی فرنٹ لائن سمجھتے ہیں۔ بھارت اور ہندوؤں کے خلاف نفرت پاکستان کے اسکولوں میں نصاب کا حصہ ہے۔ بھارت کی بعض ریاستوں میں بھی یہی حال ہے۔

بہت سے دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ ایک ہی پتھر سے تراشی ہوئی نہیں ہے۔ ملک پہلے ہی غیر ریاستی اداکاروں کے خلاف حالت جنگ میں ہے، جنھوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک بڑا حصہ مشرقی سرحد کو پر امن رکھنا چاہتا ہے، مگر یوں لگتا ہے کہ وہ دہشتگرد گروپ اور ان کے معاون جنھوں نے بھارت اور افغانستان کو نشانے پر لے رکھا ہے، اپنا جہاد ختم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔

یہ لوگ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے آزادی سے کام کر رہے ہیں۔ مگر دونوں ملکوں کے تناؤ کے شکنجے میں پھنسے ہوئے تعلقات کی تاریخ کے پیش نظر، اسلامی جوش و خروش کو تیزی سے کم کرنا اور جنگی معیشت کے طفیلیوں کو کنٹرول کرنا پاکستان کے لیے انتہائی مشکل ہے۔

اب جس چیز کی فوری طور پر ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پس پردہ خفیہ مذاکرات شروع کیے جائیں اور انھیں یکسر غیر ذمے دار جنگ پسند میڈیا اور دونوں ملکوں کے انتہا پسند عناصر کی نظروں سے اوجھل رکھا جائے۔ یہ مذاکرات وہیں سے شروع ہوسکتے ہیں جہاں مشرف اور منموہن حکومتوں نے چھوڑے تھے۔ ان مذاکرات کو وقت کا پابندکیا جا سکتا ہے اور اس سے پہلے کہ کسی بھی جانب سے ایک بار پھر نفرت کے چیمپئن انھیں تباہ کردیں، فیصلوں پر عملدرآمد ہو جانا چاہیے۔

یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ملک، ایک دوسرے کے خلاف اپنی توانائیاں ضایع کرنے کی بجائے عوام کی فلاح پر توجہ مرکوز کریں۔ یہ کسی ایک فریق کی جیت نہیں ہو گی اس کا فاتح امن اور بر صغیر کے عوام کو ہونا چاہیے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ جاگتی آنکھوں سے سپنا دیکھنے کے مترادف ہے مگر ہم لوگ امید ہی کے سہارے تو زندہ رہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں