ٹرمپ خوش آمدید

ہلیری کلنٹن کی جیت سب کو ہی صاف سامنے نظرآرہی تھی


عثمان دموہی November 17, 2016
[email protected]

ہلیری کلنٹن کی جیت سب کو ہی صاف سامنے نظرآرہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر الزامات کی اس قدر بوچھاڑکردی گئی تھی کہ ان کی انتخابی مہم مذاق لگنے لگی تھی۔ ٹیکس چور انھیں کہا گیا، بے لگام ارب پتی انھیں کہا گیا، درجنوں جنسی اسکینڈل ان کے کھاتے میں ڈالے گئے سیاست میں ناتجربہ کار انھیں بتایا گیا۔ پھر امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ امریکی صدر بارک اوباما خود وہائٹ ہاؤس سے ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ وہ ٹرمپ کوکھلے عام شیطان اور دنیا کی تباہی کا دیوتا قرار دیتے رہے۔ وہ ہلیری کی جیت کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے رہے۔

ہیلری نے اپنی انتخابی مہم میں کھرب پتی ٹرمپ سے بھی دوگنی رقم خرچ کر ڈالی وہ ٹرمپ کو ہر پبلک مباحثے میں پاگل اور نفسیاتی مریض ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ میڈیا سے لے کر عام آدمی تک یہ سوچنے لگا تھا کہ ٹرمپ الیکشن ہارچکے ہیں۔ 8 نومبر کو بس رسمی ووٹنگ ہوگی اور 9 نومبر کو ٹرمپ کی شکست کا اعلان کردیا جائے گا لیکن یہ کیا بھونچال آیا کہ ٹرمپ کے بجائے ہلیری کے ہارنے کی خبر نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان انتخابات میں امریکیوں نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے ملک کے لیے موزوں امیدوارکو پرکھنے کا خوب ادراک رکھتے ہیں۔

الیکشن سے صرف دو دن پہلے ایک گیلپ سروے میں پہلی دفعہ ٹرمپ کی ہلیری پر برتری ظاہر کی گئی تھی جس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ایف بی آئی کی جانب سے ہیلری کے خلاف جاری کی جانے والی ای میلز نے ہیلری کی پوزیشن کو بہت دھچکا پہنچایا ہے۔ صدر اوباما نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے اسے ہیلری کے خلاف سازش قراردیا تھا۔ تمام صدارتی مباحثے بظاہر ہلیری نے جیت لیے تھے مگر ٹرمپ کی بحث کا لب لباب یہ تھا کہ وہ امریکا میں انقلابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ امریکا کی خارجہ پالیسی سے لے کر تجارتی پالیسی تک کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

وہ امریکیوں کی آمدنی میں اضافہ بیروزگاری کا خاتمہ، بند صنعتوں کوکھلوانا، تارکین وطن کی آمد کو روکنا، میکسیکو اور امریکا کے درمیان بارڈر پر روک اور یورپی ممالک کو دی جانے والی امداد روکنے کے اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ اوباما کا دور جو بظاہر بڑا خوشگوار نظر آتا تھا مگر اس میں عام امریکیوں کے لیے گمبھیر مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ وہ اپنے گھر میں بیروزگار تھے اور تارکین وطن روزگار حاصل کر رہے تھے۔ چونکہ ہلیری کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور انھیں اوباما کی ہی پالیسیوں کو لے کر آگے چلنا تھا جس میں عام امریکیوں کو روشنی کی کرن نظر نہیں آرہی تھی۔

ہلیری کلنٹن نے ٹرمپ پر الزام لگایا تھا کہ وہ دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں جب کہ بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نہیں خود ہیلری دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب لے جائیں گی کیونکہ وہ پہلے ہی بحیثیت امریکی وزیر خارجہ شام اور لیبیا کو تباہی کے حوالے کرچکی ہیں۔ داعش کے پیدا ہونے میں بھی ان کا ہاتھ بتایا جا رہا تھا۔ اسرائیل کو مزید طاقتور بنانے اور اسے عربوں پر حاوی کرنے کا بھی ان پر الزام ہے۔ سوڈان کے ٹوٹنے اور نئے جنوبی سوڈان نامی عیسائی ملک کے قیام میں بھی ان کا کردار بتایا جاتا ہے۔

اگرچہ ٹرمپ کو مسلمان دشمن کہا جا رہا ہے مگر مسلمانوں کی اصل دشمن اوباما کی طرح ہلیری کلنٹن ہیں۔ انھوں نے مسلمان ملکوں کو یہودی مفاد میں استعمال ضرور کیا ہے مگر کسی اسلامی ملک کا بھلا نہیں کیا۔ پاکستان کو دنیا میں ایک دہشت گرد ملک کے طور پر ان ہی نے پہچان بنوائی تھی ۔ممبئی حملوں کے سلسلے میں انھوں نے اس وقت کی پاکستانی قیادت پر زبردست دباؤ ڈال کر ان حملوں کو پاکستانی نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کارروائی منوا لیا تھا۔ تب سے پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک کے طور پر پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے جب کہ ان حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا یہ صرف بھارتی پروپیگنڈا تھا جسے ہلیری نے سچ ثابت کردکھایا تھا۔

اب ممبئی کے بعد بھارت نے یہ وتیرہ بنالیا ہے کہ وہاں کوئی بھی دہشتگردی کا واقعہ ہو جس میں عام طور پر سکھ ملی ٹینٹس الفا کے حریت پسند اور خود بھارتی دہشتگرد ملوث ہوتے ہیں مگر نام پاکستان کا لیا جاتا ہے۔ پورے اوباما دور میں پاکستان کو دہشتگرد ملک کے طور پر بدنام کیا گیا۔

اوباما نے دو مرتبہ بھارت کا دورہ کیا مگر نہ ایک دفعہ پاکستان آئے اور نہ کبھی کشمیریوں کی آزادی کی بات کی۔ بعض مبصرین کا خیال تھا کہ جس طرح بعض امریکی سابق صدور دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوچکے ہیں جیسے لنڈن بی جانسن ویت نام کی جنگ کے حوالے سے جس میں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا خود امریکی فوجی بھی بے حساب مارے گئے تھے مگر اس جنگ میں امریکا کو منہ کی کھانا پڑی تھی۔ اسی طرح عراق کی جنگ میں سینئر اور جونیئر بش کا اہم کردار تھا مگر اس جنگ میں بھی امریکا کو سوائے رسوائی کے کچھ نہیں ملا۔ اسی طرح اوباما کی پالیسیوں سے دنیا بھر میں امریکا بدنام ہوا اور اس کی سپرپاورکی حیثیت بھی ماند پڑ گئی جس سے روس کو پھر ابھرنے کا موقع مل گیا۔

اب جہاں تک نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا معاملہ ہے وہ الیکشن مہم کے دوران ضرور کچھ تلخ باتیں کہتے رہے تھے انھوں نے مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ان کے امریکا میں داخلے پر پابندی کی بات کی تھی مگر اس مہم کے دوران انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں نے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے کے بارے میں جو کہا وہ محض ایک تجویز تھی میری پالیسی نہیں ہے۔اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں میں ان کے جیتنے سے کھلبلی مچی ہوئی ہے مگر پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ مسلمانوں سے دشمنی مول نہیں لے سکتے ورنہ امریکا تنہائی کا شکار ہوکر اسلامی دنیا پر اپنا اثر و رسوخ کھو دے گا۔

وہ اسرائیل کی سپورٹ ضرورکریں گے کیونکہ یہ امریکا کی بنیادی پالیسی ہے مگر فلسطینیوں کو بھی نظرانداز نہیں کرسکیں گے۔ انھوں نے روس اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کا بار بار اعادہ کیا ہے اس سے یقینا دنیا میں عدم استحکام کا خاتمہ ہوگا اور شام عراق اور لیبیا میں بھی امن قائم ہوسکتا ہے۔

اب جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان امریکا کے لیے ایک اہم ترین ملک ہے اس کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے جس کے قریب دنیا کی دو بڑی طاقتیں واقع ہیں۔ پاکستان کے ذریعے امریکا پہلے بھی روس پر اثرانداز ہوتا رہا ہے وہ اب اس پہلو کوکیسے نظرانداز کرسکتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے قائدین خود کو سنبھالیں دوسروں کے آگے جھکنا بند کریں۔ نئے صدر کے سامنے باوقار طریقے سے اپنے معاملات رکھیں وہ ضرور مثبت جواب دینے پر مجبور ہوں گے۔

افغانستان کے مسئلے پر اب معذرت خواہانہ رویہ ترک کیا جائے بھارت کی افغانستان میں منافقانہ پالیسی کا پردہ چاک کیا جائے۔ طالبان سے افغان مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کو بھارت کے افغانستان سے نکلنے سے مشروط کیا جائے۔ دنیا ضرور ٹرمپ سے اس وقت پریشان لگتی ہے اور مختلف خدشات کا شکار ہے مگر لگتا ہے کہ ان کے دور میں دنیا امن کا گہوارہ بنے گی تمام مسائل کے ساتھ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے بھی حل ہوکر رہیں گے کیونکہ ٹرمپ کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں