تھرکول منصوبہ اور تھر باسی
ہمارے سماج کی اکثریت آبادی ترقی کی جانب نہیں بلکہ معاشی تنزلی کا شکار ہے
کسی بھی سماج کی ترقی کو جانچنے کی کسوٹی یہ ہے کہ کیا اس سماج میں کوئی فرد بیروزگار تو نہیں؟ دوم۔کیا تمام باسیوں کی اپنی رہائش ہے؟ سوم ۔کیا تمام کو پیٹ بھر کرخوراک میسر ہے؟ چہارم۔ کیا علاج کی سہولیات میسر ہیں؟ پنجم۔ کیا تمام لوگ تعلیم یافتہ ہیں؟ ششم ۔کیا باسیوں کو تمام حقوق مساوی حاصل ہیں، جن میں سماجی انصاف بھی شامل ہے۔ ہفتم۔ کیا اس سماج میں پیداواری ذرایع میں تقسیم کے معاملے میں عدم مساوات تو نہیں ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ہم اس سماج کو بلا شبہ ایک ترقی پذیر یا ترقی یافتہ سماج قرار دے سکتے ہیں بصورت دیگر اگر ہمارے سات سوالوں کے جواب میں کسی ایک دو سوالوں کا جواب بھی نفی میں ہے تو بلامبالغہ وہ سماج ترقی یافتہ کہلانے کا حقدار نہیں ہے اگرچہ کمران شب و روز سماجی ترقی کے دعوے کرتے رہیں۔
یہی کیفیت ہمارے پاکستانی سماج کی ہے یہاں 60 برس سے ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور ہر دور میں تمام حکمرانوں نے یہ دعوے کیے ہیں کہ ہمارے دور حکومت میں معیشت ترقی کر رہی ہے مگر حقیقت ان دعوؤں کے برعکس رہی ہے کیونکہ اس معاشی ترقی کے فوائد شروع دن سے چند مراعات یافتہ طبقے کے لوگ حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ہمارے سماج کی اکثریت آبادی ترقی کی جانب نہیں بلکہ معاشی تنزلی کا شکار ہے، چنانچہ اس سلسلے میں آج ہم ذکرکریں گے، تھر میں جاری تھرکول منصوبے کا، جس کے بارے میں تھرکے باسیوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم تھرکول منصوبے کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ تھر میں ترقیاتی کام ہوں تاکہ تھر بھی ملک کے دیگر حصوں کی مانند ترقی کرے مگر اس سلسلے میں تھر کے عوام کے چند مطالبات ہیں جوکہ سو فیصد جائز ہیں۔
چنانچہ اس سلسلے میں گوڈانوگاؤں اور اس کے ساتھ دیگر 12 گاؤں کے لوگوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے 22 نومبر 2016ء سے اسلام کوٹ پریس کلب و 3 نومبر 2016ء سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ ان احتجاجی کیمپوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ پردہ دار خواتین و معصوم بچے بھی شامل ہیں جنھیں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ سرد موسمی حالات کا بھی سامنا ہے۔
ان لوگوں کا مطالبہ ہے کہ تھرکول منصوبے بلاک 11 سے خارج ہونے والے زہریلے پانی کے لیے جو ڈیم گاؤں گوڈانو و اس کے ساتھ دیگر 12 گاؤں کے برابر میں بنایا جا رہا ہے یوں اس ڈیم کی تکمیل سے جو نقصانات ہوں گے وہ یہ ہیں 20000 مال مویشیوں کے لیے چراگاہیں ختم ہوجائیں گی جس کے باعث ان تھر باسیوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ یعنی ان کے مال مویشی کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے جب کہ دوم جو خطرہ لاحق ہے وہ یہ کہ ڈیم کی تکمیل سے شب و روز کی محنت سے پروان چڑھنے والے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے اور ان درختوں کی تعداد ہے 20 لاکھ۔ سوم۔ اس ڈیم کی تکمیل کے لیے 5 قبرستانوں کو مسمار کیا جا رہا ہے ظاہر ہے یہ عمل نہ صرف ناقابل برداشت ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے کیونکہ ان میں ان کے پرکھوں کی ہڈیاں دفن ہیں۔
چہارم۔ اس ڈیم کی تکمیل کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کے ذرایع ختم ہوجائیں گے تو پھر یہ تھر باسی گویا زندگی سے محروم ہوجائیں گے اور ان متاثرین تھر باسیوں کی تعداد ہے 15000 اور ان 15000 تھر باسیوں کے ساتھ سب سے بڑا جبر یہ بھی ہے کہ جس مقام پر یہ ڈیم بنایا جا رہا ہے وہ زمینیں ان تھر باسیوں کی ہیں اور ان زمینوں کے یہ تھر باسی باقاعدہ مالکانہ حقوق 1940ء ، 1950ء، 1960ء، و 1963ء سے رکھتے ہیں۔ یہ تھر باسی نہ صرف اس زمین کی ملکیت کے دعوے دار ہیں بلکہ اپنا حق ملکیت برقرار رکھنے کے لیے یہ تھر باسی کئی دہائیوں سے حکومت کی جانب سے لاگو کردہ کردہ ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں جس کے ان تھر باسیوں کے پاس مکمل ثبوت ہیں یہ ثبوت وہ ہمہ وقت کہیں بھی پیش کرنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے کہ جس مقام پر ڈیم بنایا جا رہا ہے وہ زمین 2700 ایکڑ پر مشتمل ہے جب کہ ڈیم بنانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کمپنی نے ڈیم بنانے کے لیے 1500 ایکڑ زمین حاصل کی ہے اور وہ 1500 ایکڑ پر ہی ڈیم بنائیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈیم کے لیے حاصل کردہ زمین 27 سو ایکڑ ہی ہے۔
اس سلسلے میں تھر باسیوں نے تھرکول منصوبے بلاک 11 کے قریب کے چھ مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں پر تھرکول منصوبے بلاک 11 سے خارج ہونے والے مضر پانی کے لیے ڈیم بنایا جاسکتا ہے اور وہ چھ مقامات ایسے ہیں کہ اگر ان مقامات پر ڈیم بنایا جائے تو پھر نہ تو ان تھر باسیوں کی زندگی متاثر ہوگی اور نہ ہی ان چھ مقامات میں سے کسی ایک مقام پر ڈیم کی تکمیل پر ان تھر باسیوں کو کوئی اعتراض ہے کیونکہ یہ چھ مقامات غیر آباد علاقے ہیں وہ چھ مقامات یہ ہیں ٹانکاریوکا ڈھر (ریگستان) نزد احسان شاہ کاتڑ جب کہ ڈیم کے لیے دوسرا متبادل مقام ہے رن کے ٹکرے جھانگرو کے برابر میں تیسرا مقام ہے کھاریو غلام شاہ کا۔ ڈھر (ریگستان) چوتھا مقام ہے۔
گوڑھیار کاڈھر (ریگستان) جب کہ پانچواں مقام ہے ولی کے تڑکاڈھر (ریگستان) جب کہ چھٹا موزوں ترین مقام ہے سندر کارن۔ یہ وہ چھ مقامات ہیں جہاں پر کسی بھی ایک مقام پر اگر ڈیم بنایا جائے تو ان تھر باسیوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا نہ ہی یہ ڈیم کی تکمیل سے صدیوں سے آباد ان تھر باسیوں کی زندگی متاثر ہوگی البتہ اگر یہ ڈیم موجودہ مقام پر ہی بنایا جاتا ہے تو پھر ان تھر باسیوں کو شدید ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس مجوزہ ڈیم کی تکمیل کی شکل میں ان تھر باسیوں کا مستقبل غیر محفوظ ہوجائے گا جب کہ ڈیم کے سلسلے میں ان تھر باسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارا مسئلہ سو فیصد انسانی مسئلہ ہے۔
چنانچہ اس مسئلے یعنی ڈیم کے مسئلے کو سیاسی مسئلہ تصور نہ کیا جائے اور مزید یہ کہ سیاسی لوگ ہم سے ہمدردی ضرور کریں مگر ہمارے مسئلے پر سیاست نہ کریں چنانچہ تمام ترگفت کا حاصل ہم یہی پیش کریں گے کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کے وقت سے آج تک انسان دوست ہونے کی دعوے دار ہے چنانچہ ہم پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان و پرعزم قائد محترم بلاول بھٹو زرداری سے التماس کرتے ہیں کہ وہ اس مجوزہ ڈیم کے معاملے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے اس ڈیم کو موجودہ مقام کی بجائے متبادل مقام پر منتقل کرنے کے لیے ضروری کوشش کریں تاکہ یہ تھر باسی صدیوں سے آباد اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل نہ ہوں کیونکہ کسی بھی ایک خاندان کے لیے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوکر بود و باش اختیار کرنا ہی ازحد مشکل ترین عمل ہوتا ہے۔
یہ تو 15 ہزار تھر باسیوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے کہ یہ تھر باسی و ان کی آیندہ نسلیں اپنی روش پر زندگی گزار سکیں چنانچہ حکومت کوئی بھی ہو وہ ترقیاتی منصوبے ضرور بنائے مگر صدیوں سے آباد لوگوں کو ان کی آبائی دھرتی سے بے دخل نہ کرے۔ کیونکہ ہماری نظر میں وہ محل محل ہی نہیں جوکہ غریبوں کی جھونپڑیوں کو مسمار کرکے تعمیر کیا جائے پھر وہ ترقی ترقی نہیں جوکہ لوگوں کو بے دخل کرکے کی جائے۔
اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر ہم اس سماج کو بلا شبہ ایک ترقی پذیر یا ترقی یافتہ سماج قرار دے سکتے ہیں بصورت دیگر اگر ہمارے سات سوالوں کے جواب میں کسی ایک دو سوالوں کا جواب بھی نفی میں ہے تو بلامبالغہ وہ سماج ترقی یافتہ کہلانے کا حقدار نہیں ہے اگرچہ کمران شب و روز سماجی ترقی کے دعوے کرتے رہیں۔
یہی کیفیت ہمارے پاکستانی سماج کی ہے یہاں 60 برس سے ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور ہر دور میں تمام حکمرانوں نے یہ دعوے کیے ہیں کہ ہمارے دور حکومت میں معیشت ترقی کر رہی ہے مگر حقیقت ان دعوؤں کے برعکس رہی ہے کیونکہ اس معاشی ترقی کے فوائد شروع دن سے چند مراعات یافتہ طبقے کے لوگ حاصل کر رہے ہیں۔
البتہ ہمارے سماج کی اکثریت آبادی ترقی کی جانب نہیں بلکہ معاشی تنزلی کا شکار ہے، چنانچہ اس سلسلے میں آج ہم ذکرکریں گے، تھر میں جاری تھرکول منصوبے کا، جس کے بارے میں تھرکے باسیوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم تھرکول منصوبے کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ تھر میں ترقیاتی کام ہوں تاکہ تھر بھی ملک کے دیگر حصوں کی مانند ترقی کرے مگر اس سلسلے میں تھر کے عوام کے چند مطالبات ہیں جوکہ سو فیصد جائز ہیں۔
چنانچہ اس سلسلے میں گوڈانوگاؤں اور اس کے ساتھ دیگر 12 گاؤں کے لوگوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے 22 نومبر 2016ء سے اسلام کوٹ پریس کلب و 3 نومبر 2016ء سے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ ان احتجاجی کیمپوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ پردہ دار خواتین و معصوم بچے بھی شامل ہیں جنھیں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ سرد موسمی حالات کا بھی سامنا ہے۔
ان لوگوں کا مطالبہ ہے کہ تھرکول منصوبے بلاک 11 سے خارج ہونے والے زہریلے پانی کے لیے جو ڈیم گاؤں گوڈانو و اس کے ساتھ دیگر 12 گاؤں کے برابر میں بنایا جا رہا ہے یوں اس ڈیم کی تکمیل سے جو نقصانات ہوں گے وہ یہ ہیں 20000 مال مویشیوں کے لیے چراگاہیں ختم ہوجائیں گی جس کے باعث ان تھر باسیوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ یعنی ان کے مال مویشی کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے جب کہ دوم جو خطرہ لاحق ہے وہ یہ کہ ڈیم کی تکمیل سے شب و روز کی محنت سے پروان چڑھنے والے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے اور ان درختوں کی تعداد ہے 20 لاکھ۔ سوم۔ اس ڈیم کی تکمیل کے لیے 5 قبرستانوں کو مسمار کیا جا رہا ہے ظاہر ہے یہ عمل نہ صرف ناقابل برداشت ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے کیونکہ ان میں ان کے پرکھوں کی ہڈیاں دفن ہیں۔
چہارم۔ اس ڈیم کی تکمیل کے باعث پانی ذخیرہ کرنے کے ذرایع ختم ہوجائیں گے تو پھر یہ تھر باسی گویا زندگی سے محروم ہوجائیں گے اور ان متاثرین تھر باسیوں کی تعداد ہے 15000 اور ان 15000 تھر باسیوں کے ساتھ سب سے بڑا جبر یہ بھی ہے کہ جس مقام پر یہ ڈیم بنایا جا رہا ہے وہ زمینیں ان تھر باسیوں کی ہیں اور ان زمینوں کے یہ تھر باسی باقاعدہ مالکانہ حقوق 1940ء ، 1950ء، 1960ء، و 1963ء سے رکھتے ہیں۔ یہ تھر باسی نہ صرف اس زمین کی ملکیت کے دعوے دار ہیں بلکہ اپنا حق ملکیت برقرار رکھنے کے لیے یہ تھر باسی کئی دہائیوں سے حکومت کی جانب سے لاگو کردہ کردہ ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں جس کے ان تھر باسیوں کے پاس مکمل ثبوت ہیں یہ ثبوت وہ ہمہ وقت کہیں بھی پیش کرنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے کہ جس مقام پر ڈیم بنایا جا رہا ہے وہ زمین 2700 ایکڑ پر مشتمل ہے جب کہ ڈیم بنانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کمپنی نے ڈیم بنانے کے لیے 1500 ایکڑ زمین حاصل کی ہے اور وہ 1500 ایکڑ پر ہی ڈیم بنائیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈیم کے لیے حاصل کردہ زمین 27 سو ایکڑ ہی ہے۔
اس سلسلے میں تھر باسیوں نے تھرکول منصوبے بلاک 11 کے قریب کے چھ مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں پر تھرکول منصوبے بلاک 11 سے خارج ہونے والے مضر پانی کے لیے ڈیم بنایا جاسکتا ہے اور وہ چھ مقامات ایسے ہیں کہ اگر ان مقامات پر ڈیم بنایا جائے تو پھر نہ تو ان تھر باسیوں کی زندگی متاثر ہوگی اور نہ ہی ان چھ مقامات میں سے کسی ایک مقام پر ڈیم کی تکمیل پر ان تھر باسیوں کو کوئی اعتراض ہے کیونکہ یہ چھ مقامات غیر آباد علاقے ہیں وہ چھ مقامات یہ ہیں ٹانکاریوکا ڈھر (ریگستان) نزد احسان شاہ کاتڑ جب کہ ڈیم کے لیے دوسرا متبادل مقام ہے رن کے ٹکرے جھانگرو کے برابر میں تیسرا مقام ہے کھاریو غلام شاہ کا۔ ڈھر (ریگستان) چوتھا مقام ہے۔
گوڑھیار کاڈھر (ریگستان) جب کہ پانچواں مقام ہے ولی کے تڑکاڈھر (ریگستان) جب کہ چھٹا موزوں ترین مقام ہے سندر کارن۔ یہ وہ چھ مقامات ہیں جہاں پر کسی بھی ایک مقام پر اگر ڈیم بنایا جائے تو ان تھر باسیوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا نہ ہی یہ ڈیم کی تکمیل سے صدیوں سے آباد ان تھر باسیوں کی زندگی متاثر ہوگی البتہ اگر یہ ڈیم موجودہ مقام پر ہی بنایا جاتا ہے تو پھر ان تھر باسیوں کو شدید ترین مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس مجوزہ ڈیم کی تکمیل کی شکل میں ان تھر باسیوں کا مستقبل غیر محفوظ ہوجائے گا جب کہ ڈیم کے سلسلے میں ان تھر باسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارا مسئلہ سو فیصد انسانی مسئلہ ہے۔
چنانچہ اس مسئلے یعنی ڈیم کے مسئلے کو سیاسی مسئلہ تصور نہ کیا جائے اور مزید یہ کہ سیاسی لوگ ہم سے ہمدردی ضرور کریں مگر ہمارے مسئلے پر سیاست نہ کریں چنانچہ تمام ترگفت کا حاصل ہم یہی پیش کریں گے کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے قیام کے وقت سے آج تک انسان دوست ہونے کی دعوے دار ہے چنانچہ ہم پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان و پرعزم قائد محترم بلاول بھٹو زرداری سے التماس کرتے ہیں کہ وہ اس مجوزہ ڈیم کے معاملے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے اس ڈیم کو موجودہ مقام کی بجائے متبادل مقام پر منتقل کرنے کے لیے ضروری کوشش کریں تاکہ یہ تھر باسی صدیوں سے آباد اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل نہ ہوں کیونکہ کسی بھی ایک خاندان کے لیے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوکر بود و باش اختیار کرنا ہی ازحد مشکل ترین عمل ہوتا ہے۔
یہ تو 15 ہزار تھر باسیوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے کہ یہ تھر باسی و ان کی آیندہ نسلیں اپنی روش پر زندگی گزار سکیں چنانچہ حکومت کوئی بھی ہو وہ ترقیاتی منصوبے ضرور بنائے مگر صدیوں سے آباد لوگوں کو ان کی آبائی دھرتی سے بے دخل نہ کرے۔ کیونکہ ہماری نظر میں وہ محل محل ہی نہیں جوکہ غریبوں کی جھونپڑیوں کو مسمار کرکے تعمیر کیا جائے پھر وہ ترقی ترقی نہیں جوکہ لوگوں کو بے دخل کرکے کی جائے۔