پاکستان میں ’’راڈنی مارش‘‘ کب آئیں گے

سابق چیف سلیکٹر ہارون رشید نے آخری وقت تک کوشش کی کہ عہدہ بچا لیں مگر چیئرمین شہریارخان نے انھیں برطرف کرکے ہی دم لیا


Saleem Khaliq November 17, 2016
ہمارے ملک میں خود جانے کی روایت نہیں، چاہے کپتان، کوچ یا بورڈ آفیشل جو بھی ہو آخر تک ہاتھ پاؤں مارتے رہتا ہے۔ فوٹو: فائل

''ٹیم کی متواتر شکستوں پر چیئرمین آف سلیکٹرز راڈنی مارش مستعفی ہو گئے''

آج صبح جب ای میلز چیک کیں تو پہلی کرکٹ آسٹریلیا کی پریس ریلیز تھی جس میں مارش کے فیصلے کا اعلان کیا گیا تھا، ایسے میں میرے ذہن میں آیا اگر سابق وکٹ کیپر پاکستان میں ہوتے تو انھیں اس انتہائی اقدام کی ضرورت نہ پڑتی، یہاں بڑے بڑے واقعات ہو گئے کسی نے کرسی چھوڑنا گوارا نہ کیا، ورلڈٹی ٹوئنٹی میں ٹیم کی بدترین شکست کے بعد بھی کافی عرصے تک کوئی خود نہ گیا۔

سابق چیف سلیکٹر ہارون رشید نے آخری وقت تک کوشش کی کہ عہدہ بچا لیں مگر چیئرمین شہریارخان نے انھیں برطرف کر کے ہی دم لیا، انھیں اس بات کا غصہ تھا کہ حکم عدولی کرتے ہوئے ایشیا کپ کیلیے خرم منظور کو کیوں منتخب کیا، اسی کے ساتھ آخر کچھ تو اقدامات دکھانا ہی تھے، اب نجم سیٹھی ہارون کو کسی اور عہدے پر لانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے بیٹھے ہیں، ہمارے ملک میں خود جانے کی روایت نہیں، چاہے کپتان، کوچ یا بورڈ آفیشل جو بھی ہو آخر تک ہاتھ پاؤں مارتے رہتا ہے۔

آسٹریلوی چیف سلیکٹر نے ایسا نہ کیا، سیریز کے درمیان میں ہی استعفیٰ دے دیا، کپتان اسٹیون اسمتھ بھی جب پریس کانفرنس کیلیے آئے تو زیادہ تر وقت سر جھکائے بیٹھے رہے،انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ اس وقت خود کو بہت شرمندہ محسوس کر رہے ہیں، صاف لگ رہا تھا کہ آنسو کسی بھی وقت بہہ سکتے ہیں، ایسا نہیں کہ مارش اور اسمتھ ہمیشہ ناکام رہے، ان کے دور میں ٹیم نے کامیابیاں بھی سمیٹیں جس کا کریڈٹ لیا، اب برے کھیل پر ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار ہیں، ہمیں بھی اسی سوچ کی ضرورت ہے، نجانے پاکستان میں ''راڈنی مارش'' جیسے لوگ کب آئیں گے۔

افسوس ہمارے جن سابق کرکٹرز کو خطیر رقم کے عوض ''ملک کی خدمت'' کا موقع ملے تو بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں، بورڈ بھی ان لوگوں کو ساتھ ملا لیتا ہے جو میڈیا میں بڑھ چڑھ کر بولیں، جیسے باسط علی کی حالیہ قابلیت عمران خان کے خلاف کھل کر بولنا ہے، اسی لیے انھیں ایک اعلیٰ عہدیدار بہت پسند کرتے ہیں،لہذا جونیئر چیف سلیکٹر کے ساتھ اب ویمنز ٹیم کے کوچ بھی بن گئے، ٹیم کا نیوزی لینڈ میں حال سب کے سامنے ہے۔

سنا ہے یوسف اور بعض دیگر گرجتی توپوںکا منہ بھی بند کرنے کی تیاریاں ہیں، دونوں کو سال میں صرف 45 دن کی کوچنگ کے 25،25 لاکھ روپے ملیں گے، کچھ عرصے قبل پی سی بی نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر وصول شدہ 70 لاکھ روپے شعیب کو لوٹا دیے تھے، حال ہی میں یوسف کی بھارت میں عدالتی کارروائی کے دوران خرچ ہونے والے17 لاکھ روپے بھی معاف کیے گئے۔

محمد الیاس کو کلب کرکٹ کوآرڈینیٹر بنا دیا گیا، سابق کرکٹرز کی خدمات سے ضرور فائدہ اٹھائیں مگر میڈیا میں زبانیں بند کرانے کیلیے نہیں، ان کی اہلیت کے مطابق کام لیں تو ملکی کرکٹ کو بھی فائدہ ہوگا، ابھی کسی کو احساس نہیں مگر ہماری ٹیم ورلڈکپ کیلیے براہ راست کوالیفائی کرنے سے تیزی سے دور ہوتی جا رہی ہے، ویسٹ انڈین سائیڈ آٹھویں نمبر پر تقریباًآچکی اور ہمارا نمبر نواں ہو جائے گا، افسوس حکام کو اس کا دکھ نہیں، بورڈ والے صرف اپنی بھاری تنخواہوں اورٹورز پر لگے ہوئے ہیں، چیمپئنز ٹرافی کیلیے بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا اورجگہ بنائی تھی۔

اگر سابق چیمپئن ٹیم کو ورلڈکپ کا کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑا تو حکام کیلیے یہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہو گا، اب بھی وقت ہے ، رسوائی سے بچنے کیلیے حکمت عملی تیار کرنی چاہیے، سب سے پہلے کپتان کا فیصلہ کریں، جب آپ کے پاس سرفراز احمد جیسا جارح مزاج کرکٹر موجود ہے تو دیر کس بات کی، فوری طور پر انھیں ون ڈے میں بھی ذمہ داری سونپ دینی چاہیے۔

ویسٹ انڈیز کیخلاف کلین سوئپ پر خوشی کے شادیانے بجانے کی کوئی ضرورت نہیں، سب کو اس کا حال پتا ہے، ایک ایک کر کے کئی بڑے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کیا جا چکا،بورڈ اور پلیئرز آپس میں دست گریباں ہیں، آگے دیکھنا چاہیے کہ کس سے مقابلہ کرنا ہونا ہے، نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ کے بعد آسٹریلوی ٹیم منتظر ہو گی جو حالیہ شکستوں کے بعد زخمی شیر بن سکتی ہے۔

چیف سلیکٹر انضمام الحق بہت بڑے کھلاڑی رہے اور کرکٹ کیریئر کے دوران دنیا گھوم چکے، پیسوں کی بھی کمی نہیں کہ ڈیلی الاؤنسز اور فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام کو کشش قرار دیا جائے، مگر نجانے کیوں وہ کسی ٹور میں جانے کا موقع نہیں چھوڑ رہے، پہلے انگلینڈ میں طویل قیام کیا، پھر یو اے ای میں مقیم رہے، سنا ہے اب ان کا دل آسٹریلیا جانے کیلیے مچل رہا ہے، انھیں نیا ٹیلنٹ لندن، دبئی یا برسبین نہیں بلکہ کراچی، لاہور، فیصل آباد و دیگر بڑے چھوٹے شہروں میں ملے گا۔

اس وقت ٹیم کو معیاری آف اسپنرز اور آل راؤنڈرز کی ضرورت ہے انھیں تلاش کرنا چاہیے، ملک میں اتنی کرکٹ ہوتی ہے کوئی تو باصلاحیت اسپنر یا آل راؤنڈر ہوگا، ان کی صلاحیتیں نکھار کر ٹیم کی نمائندگی کیلیے تیار کریں،انضمام نے چن چن کر سلیکشن کمیٹی میں ایسے لوگ رکھے جو جی انزی بھائی کے سوا کچھ نہیں کہتے ورنہ فواد عالم اور تابش خان جیسے کھلاڑی ایسے نظر انداز نہ ہوتے، اب بھی وقت ہے، سب سے پہلے ون ڈے میں کارکردگی بہتر بنانے اور اچھا کمبی نیشن تیار کرنے پر توجہ دیں تاکہ ورلڈکپ میں براہ راست جگہ بن سکے۔

بورڈ حکام کی بھی کوشش یہی ہو گی کہ کسی طرح آسٹریلیا کی سیر پر جایا جائے، انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ سیر سپاٹے ٹیم کے دم سے ہی ہیں، اس کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو چاہے جتنے سابق کرکٹرز کو ملازمت فراہم کر دیں تنقید کا طوفان انھیں بہا لے جائے گا، حکمرانوں نے پہلے تو بچا لیا لیکن جب کوئی خود ڈوب رہا ہو تو اسے اردگرد کی زیادہ فکر نہیں ہوتی، یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔