ایم کیو ایم کے 25 کارکنوں سمیت 53 لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں ٹاسک فورس
تمام قانون نافذکرنیوالے اداروں نے ان لاپتہ افراد کی اپنی تحویل میں موجودگی سے انکار کردیا ہے
لاپتہ افراد سے متعلق ٹاسک فورس نے 53 لاپتہ افراد کی بازیابی سے معذوری ظاہرکردی ہے، ان میں ایم کیو ایم کے 25 کارکن بھی شامل ہیں، لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے معاوضہ لینے کی حکومتی پیشکش ردکردی، تمام اداروں نے ان لاپتہ افرادکواپنی تحویل نہ ہونے سے متعلق رپورٹس پیش کی ہے۔
ٹاسک فورس کااعلان سنتے ہی لاپتہ افردکے بوڑھے والدین اور اہل خانہ پر قیامت ٹوٹ پڑی،لواحقین کاکہناتھاکہ اولاد پیسوں سے نہیں خریدی جاتی ،ہمیں ہمارے لخت جگردے دوپھر چاہے جوسزا انھیں دے دو،ایم کیو ایم نے بھی ان لاپتہ افراد کی فائلیں بند کرنے اور معاوضہ لینے سے انکار کر دیا۔تفصیلات کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ میں لاپتہ افرادسے متعلق صوبائی ٹاسک فورس کااجلاس سیکریٹری داخلہ سندھ شکیل منگنیجوکی صدارت میں ہوا،
اجلاس میں پولیس ودیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے حکام اورمسنگ پرسنز کمیشن کے افسران نے شرکت کی ،ٹاسک فورس نے کراچی سے لاپتہ 53 افرادکے اہلخانہ کو بھی محکمہ داخلہ بلایاتھا جو صبح 11بجے سے اپنے پیاروں سے متعلق سرکاری اطلاع سننے کیلیے بے چین محکمہ داخلہ کے دفتر میں بیٹھے رہے ،ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو فرداً فرداً بلایا اور تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی رپورٹس سے آگاہ کیا۔
صوبائی ٹاسک فورس نے بتایا کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے 53 افراد کی اپنے پاس موجودگی سے انکار کردیاہے،مسنگ پرسنز کمیشن کی جانب سے صوبائی ٹاسک فورس کوبھیجے گئے ان کیسز کے بارے میں کہاگیا کہ ان لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں رہی، حکومت تلاش کے لیے کوشاں ہے تاہم صوبائی ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کومعاوضے کی پیشکش بھی کی ہے ، ٹاسک فورس کا یہ موقف سنتے ہی محکمہ داخلہ سندھ کے دفتر کے باہر موجود بوڑھے ماں باپ، بہن، بھائی اور دیگر اہلخانہ دم بخودرہ گئے۔
اجلاس میں شرکت کے بعد باہر آکر ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن محفوظ یار خان نے کہاکہ ان لاپتہ افراد میں ایم کیو ایم کے 25 کارکنان بھی شامل ہیں، ایم کیوایم اپنے لاپتہ افراد کا کوئی معاوضہ نہیں لے گی اگر حکومت انسانی ہمدردی کے تحت کچھ کرناچاہتی ہے تو ان لاپتہ افراد کے بچوں کی کفالت کی ذمے داری لے اور ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرے، ایم کیو ایم اپنے لاپتہ افراد کی فائلوں کوبند کرنے نہیں دیگی ،ماں باپ کیسے اپنے پیارے کو دیکھے بغیر اس کی تلاش سے دستبردارہوسکتے ہیں؟
ٹاسک فورس لاپتہ افرادسے متعلق ہم سے مزید تجاویز مانگ رہی ہے اورہمیں پیشکش بھی کی گئی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے معاوضے بھی لے لیں ، محکمہ داخلہ سندھ اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے اور کاغذی کارروائی سے آگے بات نہیں بڑھ رہی۔اس موقع پر لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے بتایا کہ وہ کسی صورت میں اپنے پیاروں کا معاوضہ نہیں لیں گے ،ہم21سال سے اپنے پیاروں کا انتظار کررہے ہیں ہمیں یہ بتایاجائے کہ ہمارے پیارے کہاں اور کس حال میں ہیں، اپنے بچوں کی راہ تکتے بعض کے والدین بھی دنیا سے چلے گئے اگر ہمیں معاوضہ لینا ہوتا تو21 سال پہلے ہی لے لیتے۔
انھوں نے سوال کیا کہ ہمیں بار بار کیوں تڑپایا جا رہا ہے؟۔گارڈن کے علاقے سے سال 2013 سے لاپتہ ارشاد عرف ماموں کی والدہ نے کہا کہ پورے پاکستان کی دولت بھی مجھے مل جائے توٹھکرادوں گی،مجھے دولت نہیں اپنا بیٹا چاہیے ۔لاپتہ فرحان کے68 سالہ والد نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہاکہ وہ اوران کی اہلیہ3 سال سے ہردروازے پر دستک دے چکے ہیں اگر ہمارا بیٹا کسی ادارے کے پاس نہیں تو وہ کہاں ہے، حکومت مجھے یہ کہہ دے کہ میرا بیٹا مر گیا ہے تو میں صبر کرلوں گا،غریب آدمی کا بیٹا ہے تو کسی ادارے کو تلاش کرنے کا وقت نہیں۔
لاپتہ افراد کے والدین کا کہنا تھا کہ ہمیں تو اپنے پیاروں کا انتظارہے اگر ان کا کوئی جرم ہے تو منظر عام پر لاکر عدالتوں میں پیش کیاجائے اور جرم ثابت کر کے سزا دے دی جائے تو ہمیں قبول ہوگا ۔20 ماہ سے لاپتہ شخص کی اہلیہ نے کہا کہ میرا شوہر بے گناہ ہے اور ہم کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں، معاوضہ لینے کی پیشکش زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ایک اور خاتون نے سوال کیا کہ کیا انسان اور اولاد کی قیمت لگائی جاتی ہے ،حکمران کیا سمجھتے ہیں کہ انسانوں کی فروخت کا کاروبار قانون بن گیاہے،صوبائی ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے جواب پر معاملہ اگلے اجلاس تک مؤخر کردیا۔دریں اثنا صوبائی مسنگ پرسنزکمیشن کا اجلاس کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں آج (جمعرات) کوہوگا جو مزید 51لاپتہ افراد کے کیسز کی سماعت کریگا۔
ٹاسک فورس کااعلان سنتے ہی لاپتہ افردکے بوڑھے والدین اور اہل خانہ پر قیامت ٹوٹ پڑی،لواحقین کاکہناتھاکہ اولاد پیسوں سے نہیں خریدی جاتی ،ہمیں ہمارے لخت جگردے دوپھر چاہے جوسزا انھیں دے دو،ایم کیو ایم نے بھی ان لاپتہ افراد کی فائلیں بند کرنے اور معاوضہ لینے سے انکار کر دیا۔تفصیلات کے مطابق محکمہ داخلہ سندھ میں لاپتہ افرادسے متعلق صوبائی ٹاسک فورس کااجلاس سیکریٹری داخلہ سندھ شکیل منگنیجوکی صدارت میں ہوا،
اجلاس میں پولیس ودیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے حکام اورمسنگ پرسنز کمیشن کے افسران نے شرکت کی ،ٹاسک فورس نے کراچی سے لاپتہ 53 افرادکے اہلخانہ کو بھی محکمہ داخلہ بلایاتھا جو صبح 11بجے سے اپنے پیاروں سے متعلق سرکاری اطلاع سننے کیلیے بے چین محکمہ داخلہ کے دفتر میں بیٹھے رہے ،ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو فرداً فرداً بلایا اور تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی رپورٹس سے آگاہ کیا۔
صوبائی ٹاسک فورس نے بتایا کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے 53 افراد کی اپنے پاس موجودگی سے انکار کردیاہے،مسنگ پرسنز کمیشن کی جانب سے صوبائی ٹاسک فورس کوبھیجے گئے ان کیسز کے بارے میں کہاگیا کہ ان لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن نہیں رہی، حکومت تلاش کے لیے کوشاں ہے تاہم صوبائی ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کومعاوضے کی پیشکش بھی کی ہے ، ٹاسک فورس کا یہ موقف سنتے ہی محکمہ داخلہ سندھ کے دفتر کے باہر موجود بوڑھے ماں باپ، بہن، بھائی اور دیگر اہلخانہ دم بخودرہ گئے۔
اجلاس میں شرکت کے بعد باہر آکر ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رکن محفوظ یار خان نے کہاکہ ان لاپتہ افراد میں ایم کیو ایم کے 25 کارکنان بھی شامل ہیں، ایم کیوایم اپنے لاپتہ افراد کا کوئی معاوضہ نہیں لے گی اگر حکومت انسانی ہمدردی کے تحت کچھ کرناچاہتی ہے تو ان لاپتہ افراد کے بچوں کی کفالت کی ذمے داری لے اور ان کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرے، ایم کیو ایم اپنے لاپتہ افراد کی فائلوں کوبند کرنے نہیں دیگی ،ماں باپ کیسے اپنے پیارے کو دیکھے بغیر اس کی تلاش سے دستبردارہوسکتے ہیں؟
ٹاسک فورس لاپتہ افرادسے متعلق ہم سے مزید تجاویز مانگ رہی ہے اورہمیں پیشکش بھی کی گئی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے معاوضے بھی لے لیں ، محکمہ داخلہ سندھ اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے اور کاغذی کارروائی سے آگے بات نہیں بڑھ رہی۔اس موقع پر لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے بتایا کہ وہ کسی صورت میں اپنے پیاروں کا معاوضہ نہیں لیں گے ،ہم21سال سے اپنے پیاروں کا انتظار کررہے ہیں ہمیں یہ بتایاجائے کہ ہمارے پیارے کہاں اور کس حال میں ہیں، اپنے بچوں کی راہ تکتے بعض کے والدین بھی دنیا سے چلے گئے اگر ہمیں معاوضہ لینا ہوتا تو21 سال پہلے ہی لے لیتے۔
انھوں نے سوال کیا کہ ہمیں بار بار کیوں تڑپایا جا رہا ہے؟۔گارڈن کے علاقے سے سال 2013 سے لاپتہ ارشاد عرف ماموں کی والدہ نے کہا کہ پورے پاکستان کی دولت بھی مجھے مل جائے توٹھکرادوں گی،مجھے دولت نہیں اپنا بیٹا چاہیے ۔لاپتہ فرحان کے68 سالہ والد نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہاکہ وہ اوران کی اہلیہ3 سال سے ہردروازے پر دستک دے چکے ہیں اگر ہمارا بیٹا کسی ادارے کے پاس نہیں تو وہ کہاں ہے، حکومت مجھے یہ کہہ دے کہ میرا بیٹا مر گیا ہے تو میں صبر کرلوں گا،غریب آدمی کا بیٹا ہے تو کسی ادارے کو تلاش کرنے کا وقت نہیں۔
لاپتہ افراد کے والدین کا کہنا تھا کہ ہمیں تو اپنے پیاروں کا انتظارہے اگر ان کا کوئی جرم ہے تو منظر عام پر لاکر عدالتوں میں پیش کیاجائے اور جرم ثابت کر کے سزا دے دی جائے تو ہمیں قبول ہوگا ۔20 ماہ سے لاپتہ شخص کی اہلیہ نے کہا کہ میرا شوہر بے گناہ ہے اور ہم کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں، معاوضہ لینے کی پیشکش زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ایک اور خاتون نے سوال کیا کہ کیا انسان اور اولاد کی قیمت لگائی جاتی ہے ،حکمران کیا سمجھتے ہیں کہ انسانوں کی فروخت کا کاروبار قانون بن گیاہے،صوبائی ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے جواب پر معاملہ اگلے اجلاس تک مؤخر کردیا۔دریں اثنا صوبائی مسنگ پرسنزکمیشن کا اجلاس کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں آج (جمعرات) کوہوگا جو مزید 51لاپتہ افراد کے کیسز کی سماعت کریگا۔