ٹرمپ ’تبدیلی‘ ہیلری ’تنگ دستی‘ کی علامت

عظیم مفکر، نوم چومسکی کے تازہ انٹرویو کی چند جھلکیاں


November 17, 2016
امریکا روس تعلقات سے متعلق انھوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں میں تناؤ کچھ کم ہوگا۔ فوٹو: فائل

KARACHI: معروف امریکی دانش وَر، نوم چومسکی نے ستمبر میں ''گارجین'' کو دیے جانے والے انٹرویو میں جب ٹرمپ کی مخالفت کی، تو ''کلائمینٹ چینج'' سے متعلق اُس کی رائے پر بالخصوص ناپسندیدگی ظاہر کی تھی۔

انتخابات کے بعد بائیں بازو کی معروف سائٹ ZNet کے لیے CJ Polychroniou نے ان کا انٹرویو کیا، جو 14 نوم کو Trump in the White House کے عنوان سے شایع ہوا۔ نوم چومسکی نے بات چیت کا آغاز کلائمینٹ چینج سے متعلق 8 نومبر ہی کو پیش ہونے والی ایک رپورٹ سے کرتے ہیں، جسے وہ انتہائی اہم ٹھہراتے ہیں۔

اس کے بعد عین اس روز انتخابات میں ری پبلیکن پارٹی کی فتح کا تذکرہ کرتے ہوئے اُسے تاریخ کی سب سے خطرناک تنظیم قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کلائمینٹ چینج سے متعلق ری پبلیکن امیدواروں کے غیرسنجیدہ رویوں اور موجودہ امریکی صدر کی جانب سے fossil فیول کے استعمال میں اضافے پر اصرار کا تذکرہ کیا، اور اس ضمن میں برتی جانے والی غفلت کے ہول ناک نتائج کا ذکر کیا۔

وہ تاریخی، معاشرتی اور معاشی حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں: ''ٹرمپ نے ورکنگ کلاس، لوئر مڈل کلاس، دیہی آبادی اور کالج کی تعلیم سے محروم سفید فام طبقات کی حمایت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس طبقے میں اسٹیبلشمنٹ اور ناکام اقتصادی پالیسیوں کے خلاف شدید غم و غصہ غصہ پایا جاتا ہے۔'' وہ مختلف واقعات بیان کرتے ہوئے ٹرمپ کے حامیوں کی تصور کھینچتے ہیں، جو امریکا کے عام شہری ہیں، جنھوں نے ٹرمپ کو تبدیلی اور ہیلری کو تن دستی کی علامت کے طور پر دیکھا۔ ان کے مطابق ٹرمپ کی ''تبدیلی'' پُرخطر، بلکہ بدترین ہوسکتی ہے، مگر یہ واضح ہے کہ عام ووٹر کو اس کا قطعی ادراک نہیں تھا۔

انھوں نے یہ بھی کہا، سفید فاموں کی بالادستی کا تصور جنوبی افریقا کے مقابلے میں امریکا میں زیادہ شدید ہے، اور یہ بھی سچ ہے کہ سفید فام آبادی مسائل کا شکار ہے، مستقبل میں اکثریت، اقلیت بن سکتی ہے۔ ٹرمپ نے اُنھیں آواز دینے کی کوشش کی، جنھوں نے نہ صرف اپنی ملازمتیں، بلکہ اپنی شخصیت بھی کھو دی تھی۔

وہ ٹرمپ کے اِس دعوے کو کہ 'میں پورے امریکا کا نمایندہ ہوں' یوں مشکوک سمجھتے ہیں کہ امریکی بَٹ چکے ہیں، پھر ٹرمپ خود بعض گروہ، جیسے اقلیتیں اور خواتین، کی بابت نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ بریکسٹ (ریفرنڈم، جس میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا) اور ٹرمپ کی جیت میں مماثلت کا تذکرہ کرتے ہوئے اشارہ کرتے ہیں کہ یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں نے اس واقعے کو خوش آیند ٹھہرایا ہے۔

ستمبر میں ''گارجین'' کو دیے جانے انٹرویو میں نوم چومسکی نے ٹرمپ کی بیک وقت متضاد باتیں کرنے کی صلاحیت کی جانب اشارہ کیا تھا۔ تازہ انٹرویو میں بھی وہ ٹرمپ کی جانب سے اپنے ہی پیدا کردہ مسائل کو سنبھالنے کے تناظر میں اس کی unpredictability کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کام یابی کے امکان کو مشیروں کے تعیناتی سے جوڑتے ہیں۔ اس انفرااسٹرکچر پروگرام کو مثبت ٹھہراتے ہیں، جس کا ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا۔

امریکا روس تعلقات سے متعلق انھوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں میں تناؤ کچھ کم ہوگا۔ البتہ اس کا امکان ہے کہ یورپ کے چند ممالک ٹرمپ کے امریکا سے سفارتی فاصلہ پیدا کرلیں۔ کیا ٹرمپ کی خارجہ پالیسی جنگوں کو بڑھاوا دے سکتی ہے؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''اِس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ خاصے خطرات ہیں، اور ٹرمپ خاصے unpredictable ہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔