سپریم کورٹ نے اشتہاری ایجنسی میڈاس سے 5 سوالوں کا جواب طلب کرلیا
میڈیا مہم کے لیے سلیکشن کس معیار پر ہوئی، کیا یہ رولز کے مطابق تھی؟ کس وزارت یا ادارے نے اشتہاری مہم دی؟
WASHINGTON:
سپریم کورٹ نے اشتہاری ایجنسی میڈاس کو13کروڑ50لاکھ روپے کی غلط اور غیرقانونی ادائیگی کے مقدمے میں مذکورہ ایجنسی سے 5سوالوں کا جواب طلب کرلیا ہے۔
جبکہ میڈیا کمیشن کی تشکیل کے بارے میں پٹیشن میں حکومت کو چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے علاوہ بورڈ کے دیگر ارکان کی تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کرنے کیلئے آج تک مہلت دی ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارٖف حسین پر مشتمل بنچ نے میڈاس پرائیویٹ لمٹیڈ کو ہدایت کی ہے کہ اس سوال کا جواب دیا جائے کہ میڈیا مہم کیلئے اسکی سلیکشن کس معیار پر ہوئی اور کیا یہ سلیکشن پیپرا رولز کے مطابق تھی؟ کس وزارت یا ادارے نے ایجنسی کو اشتہاری مہم دی، کتنا بجٹ ملا، ایجنسی نے کس طریقہ کار کے تحت اشتہاری مہم کو آگے بڑھایا اور کس کس ادارے کو کتنی رقم اشتہاروں کی مد میں ادا کی گئی؟
جبکہ عدالت نے اس بارے بھی وضاحت طلب کی ہے کہ میڈاس کے بارے میں پنجاب حکومت کی انکوائری کے بعد موجودہ صورتحال کیا ہے؟ عدالت نے میڈاس کو غیر قانونی ادائیگی اور میڈیا کمیشن کیس کی ایک ساتھ سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ عوام کے خون پسینے کے پیسے اگر شفاف طریقے سے خرچ نہ ہوں تو عدالت کو اسکا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے، عدالت یقینی بنائے گی کہ سرکاری فنڈ کا غلط استعمال نہ ہو۔ حامد میر نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں پر الزامات کا جائزہ لینا چاہئے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر کسی شخص پر انفرادی الزام لگایا گیا ہے تو داد رسی کیلئے قانون موجود ہے، حامد میر نے قائم مقام چیئرمین پیمرا کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی پیش کیا اور کہا کہ ڈاکٹر عبدالجبار کو عارضی طور پر دیکھ بھال کا اختیار دیا گیا قائم مقام نہیں لگایا گیا۔
پیمرا کے وکیل نے تقرری کا دفاع کیا اور کہا کہ انھیں ممبر ایگزیکٹیو تعینات کیا گیا اور جب چیئرمین کا عہدہ خالی ہوا تو انھیں چیئرمین کی عارضی ذمہ داری دی گئی جو قانون کے مطابق ہے۔ عدالت نے ان دلائل سے اتفاق نہیں کیا جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ذمہ داری دینے اور قائم مقام چیئرمین مقرر کرنے میں فرق ہے، بطور قائم مقام چیئرمین پیمرا ڈاکٹر عبدالجبار کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا، اگر اس تقرری پر ڈیفکٹو ڈاکٹرائن کا اطلاق کیا جائے پھر بھی یہ تقرری قانون کے مطابق نہیں کیونکہ اس صورتحال میں وجوہات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
جسٹس جواد نے کہا عارضی نوٹیفکیشن کچھ وقت کیلئے ہوتا ہے کل وقتی نہیں ہوتا لیکن ڈاکٹر عبدالجبار گزشتہ دو سال سے اس عہدے پر فائز ہیں، انھوں نے کہا ایک خود مختار ادارے کو اسطرح نہیں چلایا جا سکتا، بادی النظر میں اسوقت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی موجود ہی نہیں ہے، ایک خود مختار ادارے کو حکومت اپنی مرضی سے نہیں چلا سکتی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی نے چیئرمین کا دفاع کیا اور کہا کہ بیشک چیئرمین کو بطور نگران ذمہ داری دی گئی لیکن یہ اختیار غیرقانونی نہیں کیونکہ اتھارٹی کو بورڈ چلاتا ہے اور ڈاکٹر عبدالجبار پہلے سے بورڈ کا رکن ہے اور وہ اتھارٹی کیلئے اجنبی نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا بورڈ بارہ افراد پر مشتمل ہے باقی گیارہ افراد کا نوٹیفکیشن کہاں ہے۔
فاضل جج نے کہا بورڈ میں صرف ایک رکن کی تقرری وفاقی حکومت کر سکتی ہے اگر باقی افراد کی تقرری بھی وفاقی حکومت نے کی ہے تو بورڈ کی تشکیل درست نہیں اس لئے اسکا وجود ہی نہیں، جسٹس جواد نے کہا قانون کا کمانڈ حکومت پر لازم ہے اور اگر حکومت قانون کے مطابق عمل نہ کرے تو پھر عدالت اس پر فیصلہ دینے کی مجاز ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن پیش کرنے کیلئے مہلت کی درخواست کی۔ وزارت اطلاعات کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے کہا وزارت اطلاعات میں مجموعی طور پر 12کروڑ روپے سیکرٹ فنڈ کی مد میں استعمال ہوتے ہیں جس میں دس کروڑ سپیشل پبلسٹی فنڈ اور دو کروڑ سیکرٹ سروس فنڈ کیلئے ہیں، باقی رقم میں سے تین ارب چالیس کروڑ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور اڑتیس کروڑ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) پر خرچ ہوئے۔
عدالت نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا جسٹس جواد نے کہا یہ تو انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کہ خود مختار کارپوریشن پر قوم کی دولت خرچ ہو اور حکمران اسکو اپنے پراپیگنڈے کیلئے استعمال کرتے رہیں، ہم نہیں چاہتے کہ اے پی پی اور پی بی سی بند ہو لیکن ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ قوم کے خون پسینے کے اربوں روپے کا استعمال شفاف ہے یا نہیں۔
جسٹس جواد نے کہا عدالت کے سامنے پی ٹی وی اور پی بی سی کا معاملہ ایک اور پٹیشن میں زیر التوا ہے اور اس کیس میں وکیل ہمیں ان اداروں کے اخراجات کے بارے مطمئن نہیں کر سکے ہیں، سرکار کا کام یہ نہیں کہ ادارے اپنے پراجیکشن کیلئے استعمال کریں، یہ ادارے حکومت کی پراپیگنڈہ مشینری نہیں۔ وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹر جنرل ناصر نے بتایا کہ اے پی پی کو بورڈ چلاتا ہے اور اس میں دو نمائندے صحافیوں کے بھی ہوتے ہیں۔ ابصار عالم نے عدالت کو بتایا سیکرٹ فنڈ سے بعض نیوز ایجنسیوں کو بھی چوبیس چوبیس لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ اسد کھرل نے عدالت کو بتایا کہ 27سرکاری محکموں کے پاس پونے پانچ ارب روپے کے سیکرٹ فنڈز ہیں، سماعت آج بھی جاری رہے گی۔
سپریم کورٹ نے اشتہاری ایجنسی میڈاس کو13کروڑ50لاکھ روپے کی غلط اور غیرقانونی ادائیگی کے مقدمے میں مذکورہ ایجنسی سے 5سوالوں کا جواب طلب کرلیا ہے۔
جبکہ میڈیا کمیشن کی تشکیل کے بارے میں پٹیشن میں حکومت کو چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے علاوہ بورڈ کے دیگر ارکان کی تقرری کا نوٹیفکیشن پیش کرنے کیلئے آج تک مہلت دی ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارٖف حسین پر مشتمل بنچ نے میڈاس پرائیویٹ لمٹیڈ کو ہدایت کی ہے کہ اس سوال کا جواب دیا جائے کہ میڈیا مہم کیلئے اسکی سلیکشن کس معیار پر ہوئی اور کیا یہ سلیکشن پیپرا رولز کے مطابق تھی؟ کس وزارت یا ادارے نے ایجنسی کو اشتہاری مہم دی، کتنا بجٹ ملا، ایجنسی نے کس طریقہ کار کے تحت اشتہاری مہم کو آگے بڑھایا اور کس کس ادارے کو کتنی رقم اشتہاروں کی مد میں ادا کی گئی؟
جبکہ عدالت نے اس بارے بھی وضاحت طلب کی ہے کہ میڈاس کے بارے میں پنجاب حکومت کی انکوائری کے بعد موجودہ صورتحال کیا ہے؟ عدالت نے میڈاس کو غیر قانونی ادائیگی اور میڈیا کمیشن کیس کی ایک ساتھ سماعت کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ عوام کے خون پسینے کے پیسے اگر شفاف طریقے سے خرچ نہ ہوں تو عدالت کو اسکا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے، عدالت یقینی بنائے گی کہ سرکاری فنڈ کا غلط استعمال نہ ہو۔ حامد میر نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں پر الزامات کا جائزہ لینا چاہئے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر کسی شخص پر انفرادی الزام لگایا گیا ہے تو داد رسی کیلئے قانون موجود ہے، حامد میر نے قائم مقام چیئرمین پیمرا کی تقرری کا نوٹیفکیشن بھی پیش کیا اور کہا کہ ڈاکٹر عبدالجبار کو عارضی طور پر دیکھ بھال کا اختیار دیا گیا قائم مقام نہیں لگایا گیا۔
پیمرا کے وکیل نے تقرری کا دفاع کیا اور کہا کہ انھیں ممبر ایگزیکٹیو تعینات کیا گیا اور جب چیئرمین کا عہدہ خالی ہوا تو انھیں چیئرمین کی عارضی ذمہ داری دی گئی جو قانون کے مطابق ہے۔ عدالت نے ان دلائل سے اتفاق نہیں کیا جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ذمہ داری دینے اور قائم مقام چیئرمین مقرر کرنے میں فرق ہے، بطور قائم مقام چیئرمین پیمرا ڈاکٹر عبدالجبار کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا، اگر اس تقرری پر ڈیفکٹو ڈاکٹرائن کا اطلاق کیا جائے پھر بھی یہ تقرری قانون کے مطابق نہیں کیونکہ اس صورتحال میں وجوہات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
جسٹس جواد نے کہا عارضی نوٹیفکیشن کچھ وقت کیلئے ہوتا ہے کل وقتی نہیں ہوتا لیکن ڈاکٹر عبدالجبار گزشتہ دو سال سے اس عہدے پر فائز ہیں، انھوں نے کہا ایک خود مختار ادارے کو اسطرح نہیں چلایا جا سکتا، بادی النظر میں اسوقت پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی موجود ہی نہیں ہے، ایک خود مختار ادارے کو حکومت اپنی مرضی سے نہیں چلا سکتی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی نے چیئرمین کا دفاع کیا اور کہا کہ بیشک چیئرمین کو بطور نگران ذمہ داری دی گئی لیکن یہ اختیار غیرقانونی نہیں کیونکہ اتھارٹی کو بورڈ چلاتا ہے اور ڈاکٹر عبدالجبار پہلے سے بورڈ کا رکن ہے اور وہ اتھارٹی کیلئے اجنبی نہیں۔ جسٹس جواد نے کہا بورڈ بارہ افراد پر مشتمل ہے باقی گیارہ افراد کا نوٹیفکیشن کہاں ہے۔
فاضل جج نے کہا بورڈ میں صرف ایک رکن کی تقرری وفاقی حکومت کر سکتی ہے اگر باقی افراد کی تقرری بھی وفاقی حکومت نے کی ہے تو بورڈ کی تشکیل درست نہیں اس لئے اسکا وجود ہی نہیں، جسٹس جواد نے کہا قانون کا کمانڈ حکومت پر لازم ہے اور اگر حکومت قانون کے مطابق عمل نہ کرے تو پھر عدالت اس پر فیصلہ دینے کی مجاز ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن پیش کرنے کیلئے مہلت کی درخواست کی۔ وزارت اطلاعات کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے کہا وزارت اطلاعات میں مجموعی طور پر 12کروڑ روپے سیکرٹ فنڈ کی مد میں استعمال ہوتے ہیں جس میں دس کروڑ سپیشل پبلسٹی فنڈ اور دو کروڑ سیکرٹ سروس فنڈ کیلئے ہیں، باقی رقم میں سے تین ارب چالیس کروڑ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور اڑتیس کروڑ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) پر خرچ ہوئے۔
عدالت نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا جسٹس جواد نے کہا یہ تو انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کہ خود مختار کارپوریشن پر قوم کی دولت خرچ ہو اور حکمران اسکو اپنے پراپیگنڈے کیلئے استعمال کرتے رہیں، ہم نہیں چاہتے کہ اے پی پی اور پی بی سی بند ہو لیکن ہم یہ ضرور دیکھیں گے کہ قوم کے خون پسینے کے اربوں روپے کا استعمال شفاف ہے یا نہیں۔
جسٹس جواد نے کہا عدالت کے سامنے پی ٹی وی اور پی بی سی کا معاملہ ایک اور پٹیشن میں زیر التوا ہے اور اس کیس میں وکیل ہمیں ان اداروں کے اخراجات کے بارے مطمئن نہیں کر سکے ہیں، سرکار کا کام یہ نہیں کہ ادارے اپنے پراجیکشن کیلئے استعمال کریں، یہ ادارے حکومت کی پراپیگنڈہ مشینری نہیں۔ وزارت اطلاعات کے ڈائریکٹر جنرل ناصر نے بتایا کہ اے پی پی کو بورڈ چلاتا ہے اور اس میں دو نمائندے صحافیوں کے بھی ہوتے ہیں۔ ابصار عالم نے عدالت کو بتایا سیکرٹ فنڈ سے بعض نیوز ایجنسیوں کو بھی چوبیس چوبیس لاکھ روپے دیے گئے ہیں۔ اسد کھرل نے عدالت کو بتایا کہ 27سرکاری محکموں کے پاس پونے پانچ ارب روپے کے سیکرٹ فنڈز ہیں، سماعت آج بھی جاری رہے گی۔