ترک صدر کا پارلیمنٹ سے خطاب
ترکی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صائب تجویز دی ہے جس پر بھارتی حکومت کو سنجیدگی اور تدبر سے غور کرنا چاہیے
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ترکی اور پاکستان کا تعلق کئی خصوصیات کا حامل ہے، میں ترکی سے آپ سب کے لیے محبتیں سمیٹ کر آیا ہوں، میں نے 2012ء کے دورے کے دوران بھی پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا۔ پاکستان نے اپنی اقدار کے تحفظ کے ساتھ جمہوریت اور جمہوری عمل مستحکم کیا ہے، ایسا کر کے مسلم امہ کے لیے ایک اہم مثال پیش کی ہے۔
ہم نے پاکستان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا نہ کریں گے، ہم صرف الفاظ تک ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں، ہم پاکستان کے غم اور خوشی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ترک صدر کے خطاب سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان اور ترکی اپنی مشترکہ تاریخ، مذہب اور ثقافت کے لازوال رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں، دونوں ممالک کے عوام کے باہمی تعلقات دونوں ریاستوں کی تخلیق سے پرانے ہیں، دونوں اقوام نے ہمیشہ دنیا کے مظلوم ومحروم طبقات کی پرزور حمایت کی ہے۔
دریں اثنا ترک صدر رجب طیب اردوان نے کشمیر کے با معنی حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کا تصفیہ کریں، ترک صدر نے لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی اور کشمیری عوام کو درپیش مصائب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم کنٹرول لائن کا قریبی جائزہ لے رہے ہیں، اس صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی سے زیادہ کشمیریوں کی شناخت کا دکھ اور کون محسوس کر سکتا ہے جو گزشتہ کئی عشروں سے یہ تمنا کیے ہوئے ہے کہ یورپی تہذیب یا آج کی یورپی یونین اسے اپنا سمجھے۔ ترک صدر نے پاک چین اقتصادی راہداری پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ سمجھتے ہیںکہ یہ منصوبہ عالمی امن واستحکام کا ذریعہ بنے گا۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ترک عوام نے حوصلہ کے ساتھ جمہوریت کی سربلندی کے لیے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وہ لاہور میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ ترک صدر پاکستان کے دو روزہ سرکاری دورہ پر پاکستان پہنچے ہیں، ان کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی آیا ہے۔
پاک ترکی تعلقات برصغیر کی نوآبادیاتی ظلمت اور اس کے صبر آزما سیاسی و سماجی نشیب وفراز میں بھی کبھی متزلزل نہیں رہے، نہ ان میں کوئی سرد مہری دیکھی گئی، دونوں برادر ملک یک جان دو قالب کی مثالی تصویر ہیں۔ ترکی نے اقتصادی ترقی کے ساتھ دفاع، تعلیم، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، ادب و ثقافت سمیت دیگر شعبوں میں اپنی روشن خیالی اور مسلم شناخت کے متوازن احیا کے نظریہ سے جڑے رہتے ہوئے بڑی حیران کن پیشرفت کی ہے۔
ترکی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صائب تجویز دی ہے جس پر بھارتی حکومت کو سنجیدگی اور تدبر سے غور کرنا چاہیے، دوطرفہ سیاسی اوراسٹریٹجیکل تقاضوں کی تکمیل کے حوالہ سے اردوان نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں جب وہ وزیر اعظم تھے پاک ترکی اسٹریٹجیکل کونسل تشکیل پزیر ہوئی تھی، اب اس کا پانچواں سربراہی اجلاس جلد منعقد کیا جائے گا۔ قبل ازیں صدرمملکت ممنون حسین اور ترک صدررجب طیب اردوان نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور دفاعی تعلقات میں مزید گہرائی پیدا کرنے، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے، خطے میں امن، لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خاتمے، افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مشترکہ کوششوں اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ تعاون پر اتفاق کیا ہے جب کہ پاکستان نے نیوکلیئرسپلائرگروپ کے معاملے میں بھرپورحمایت پر ترکی کا شکریہ ادا کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ اتفاق رائے ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات میں سامنے آیا۔ دونوں رہنماؤں نے پہلے تنہائی میں ملاقات کی اس کے بعد دونوںملکوں کے وفود بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس موقع پرترک وزیرخارجہ میولٹ کاوس اولو، صدارتی ترجمان ابراہیم کالان، ترک سفیر صدیق بابرگرگن،پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری اور دیگراعلیٰ حکام شامل تھے۔ صدر مملکت نے اس موقع پر صائب تجویز پیش کی کہ پاکستان اور ترکی کو دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدتی دفاعی تعاون کے معاہدے کوجلد حتمی شکل دینی چاہیے جس سے ترک صدرنے اتفاق کیا۔
صدرممنون حسین نے پاکستانی آبدوز کو اپ گریڈ کرنے پر ترکی کے تعاون اور پاکستان سے سپرمشاق تربیتی طیاروںکے حصول پر اطمینان کا اظہار کیا۔ صدر رجب طیب اردوان نے کہا دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون میں مزید اضافہ ہو گا اور اس سلسلے میں تمام ضروری اقدامات کیے جائیںگے۔ ترک صدرنے دہشتگردی کے خلاف جنگ، پاکستانی عوام اورمسلح افواج کے عزم کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان بہت جلد امن کا گہوارا بن جائے گا۔ صدر مملکت ممنون حسین نے اس موقع پرتجویز پیش کی کہ دونوں ملک اپنے سفارتی تعلقات کی 70سالہ تقریبات بھرپورطریقے منائیں۔واضح رہے کہ 2017 ء دونوں برادار ملکوں کے سفارتی تعلقات کی سالگرہ کا سال ہے۔
ہم نے پاکستان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا نہ کریں گے، ہم صرف الفاظ تک ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں، ہم پاکستان کے غم اور خوشی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ترک صدر کے خطاب سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان اور ترکی اپنی مشترکہ تاریخ، مذہب اور ثقافت کے لازوال رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں، دونوں ممالک کے عوام کے باہمی تعلقات دونوں ریاستوں کی تخلیق سے پرانے ہیں، دونوں اقوام نے ہمیشہ دنیا کے مظلوم ومحروم طبقات کی پرزور حمایت کی ہے۔
دریں اثنا ترک صدر رجب طیب اردوان نے کشمیر کے با معنی حل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے ذریعہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات اور امنگوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کا تصفیہ کریں، ترک صدر نے لائن آف کنٹرول پر جاری کشیدگی اور کشمیری عوام کو درپیش مصائب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم کنٹرول لائن کا قریبی جائزہ لے رہے ہیں، اس صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ترکی سے زیادہ کشمیریوں کی شناخت کا دکھ اور کون محسوس کر سکتا ہے جو گزشتہ کئی عشروں سے یہ تمنا کیے ہوئے ہے کہ یورپی تہذیب یا آج کی یورپی یونین اسے اپنا سمجھے۔ ترک صدر نے پاک چین اقتصادی راہداری پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ سمجھتے ہیںکہ یہ منصوبہ عالمی امن واستحکام کا ذریعہ بنے گا۔
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ترک عوام نے حوصلہ کے ساتھ جمہوریت کی سربلندی کے لیے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ وہ لاہور میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ ترک صدر پاکستان کے دو روزہ سرکاری دورہ پر پاکستان پہنچے ہیں، ان کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطح کا وفد بھی آیا ہے۔
پاک ترکی تعلقات برصغیر کی نوآبادیاتی ظلمت اور اس کے صبر آزما سیاسی و سماجی نشیب وفراز میں بھی کبھی متزلزل نہیں رہے، نہ ان میں کوئی سرد مہری دیکھی گئی، دونوں برادر ملک یک جان دو قالب کی مثالی تصویر ہیں۔ ترکی نے اقتصادی ترقی کے ساتھ دفاع، تعلیم، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، ادب و ثقافت سمیت دیگر شعبوں میں اپنی روشن خیالی اور مسلم شناخت کے متوازن احیا کے نظریہ سے جڑے رہتے ہوئے بڑی حیران کن پیشرفت کی ہے۔
ترکی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صائب تجویز دی ہے جس پر بھارتی حکومت کو سنجیدگی اور تدبر سے غور کرنا چاہیے، دوطرفہ سیاسی اوراسٹریٹجیکل تقاضوں کی تکمیل کے حوالہ سے اردوان نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں جب وہ وزیر اعظم تھے پاک ترکی اسٹریٹجیکل کونسل تشکیل پزیر ہوئی تھی، اب اس کا پانچواں سربراہی اجلاس جلد منعقد کیا جائے گا۔ قبل ازیں صدرمملکت ممنون حسین اور ترک صدررجب طیب اردوان نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور دفاعی تعلقات میں مزید گہرائی پیدا کرنے، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے، خطے میں امن، لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے خاتمے، افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مشترکہ کوششوں اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ تعاون پر اتفاق کیا ہے جب کہ پاکستان نے نیوکلیئرسپلائرگروپ کے معاملے میں بھرپورحمایت پر ترکی کا شکریہ ادا کیا ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ اتفاق رائے ایوان صدر میں ہونے والی ملاقات میں سامنے آیا۔ دونوں رہنماؤں نے پہلے تنہائی میں ملاقات کی اس کے بعد دونوںملکوں کے وفود بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس موقع پرترک وزیرخارجہ میولٹ کاوس اولو، صدارتی ترجمان ابراہیم کالان، ترک سفیر صدیق بابرگرگن،پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری اور دیگراعلیٰ حکام شامل تھے۔ صدر مملکت نے اس موقع پر صائب تجویز پیش کی کہ پاکستان اور ترکی کو دونوں ملکوں کے درمیان طویل المدتی دفاعی تعاون کے معاہدے کوجلد حتمی شکل دینی چاہیے جس سے ترک صدرنے اتفاق کیا۔
صدرممنون حسین نے پاکستانی آبدوز کو اپ گریڈ کرنے پر ترکی کے تعاون اور پاکستان سے سپرمشاق تربیتی طیاروںکے حصول پر اطمینان کا اظہار کیا۔ صدر رجب طیب اردوان نے کہا دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون میں مزید اضافہ ہو گا اور اس سلسلے میں تمام ضروری اقدامات کیے جائیںگے۔ ترک صدرنے دہشتگردی کے خلاف جنگ، پاکستانی عوام اورمسلح افواج کے عزم کی تعریف کی اور کہا کہ پاکستان بہت جلد امن کا گہوارا بن جائے گا۔ صدر مملکت ممنون حسین نے اس موقع پرتجویز پیش کی کہ دونوں ملک اپنے سفارتی تعلقات کی 70سالہ تقریبات بھرپورطریقے منائیں۔واضح رہے کہ 2017 ء دونوں برادار ملکوں کے سفارتی تعلقات کی سالگرہ کا سال ہے۔