بھارتی کرنسی نوٹوں کی منسوخی

مودی کی حکومت البتہ یک جہتی کا تاثر دینے میں ناکام رہی ہے


کلدیپ نئیر November 18, 2016

بھارت میں کرنسی کے بڑے نوٹوں کی منسوخی پر ہونے والی بحث سے ظاہر ہوا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کا بزنس کرنے والوں نے صرف5 فیصد کاروبار نقد رقم پر کیا ہے جب کہ95 فیصد سودے ادھار پر یعنی زبانی وعدے پر ہوتے رہے۔ اگرچہ یہ خلا بہت زیادہ ہے مگر اس سے ایک حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان کاروباری لوگوں میں دونوں طرف بہت دیانتدارانہ افہام و تفہیم موجود ہے۔

مودی کی حکومت البتہ یک جہتی کا تاثر دینے میں ناکام رہی ہے۔ کرنسی نوٹوں کی تنسیخ کا محرک کیا تھا' اس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جب کہ اس کے مقصد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے لہٰذا جو بحث ہو رہی ہے اس میں زیادہ زور لوگوں کو اپنے کرنسی نوٹ تبدیل کرانے میں ہونے والی مصیبت پر دیا جا رہا ہے جب کہ اس کے مقصد پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو رقوم ملک سے باہر بھیجی جا چکی ہیں یا اندرون ملک ملک دشمن عناصر کے قبضے میں ہیں وہ ظاہر ہے کہ اب کسی کے کام نہیں آ سکیں گی۔ یہ تو وہی انگریزی محاورے والی مثال ہے کہ بچے کو نہانے کے ٹب میں نہلایا جائے اور جب پانی بہت زیادہ گندہ ہو جائے تو پانی بچے سمیت پھینک دیا جائے۔ بیرون ملک بہت سے دیانتدار کاروباری لوگ بیٹھے ہیں۔ اب ان کو اپنی کرنسی کے تبادلے میں خاصی دقت پیش آئے گی۔ کئی لوگوں کا کاروبار بالکل تباہ ہو جائے گا لیکن اگر اس سے حکومت کا اصل مقصد پورا ہوتا ہو تو پھر یہ خسارے کا سودا نہیں۔

آخر اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے خلاف اکٹھا ہو گئی ہیں جو کہ قابل فہم ہے۔ جس رقم کا کوئی حساب کتاب نہیں اس کو اب استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ بی جے پی پر یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے اپنے لوگوں کو قبل از وقت اطلاع دیدی تھی تاکہ وہ اپنی رقم بینکوں میں جمع کرا سکیں۔ مثال کے طور پر کرناٹک میں کرنسی کی تنسیخ سے ایک رات پہلے بہت سے لوگوں نے بینکوں میں اپنی رقوم جمع کرائیں۔

بہرحال اب جو بھی نتیجہ نکلے یہ قدم اٹھا لیا گیا ہے لہٰذا توقع یہی کی جانی چاہیے کہ اس کا نتیجہ قومی مفاد میں ہی نکلے گا۔ چوٹی کے بیوروکریٹس اور سیاستدانوں میں بہت کم ایسے ہونگے جن کے بیرون ممالک میں اکاؤنٹ نہیں لیکن بھارت کے اندر بڑی شدت سے یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ کالا دھن بیرون ممالک سے واپس منگوایا جائے جو کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے۔

دوسری طرف یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ حکومت کالے دھن کی بھاری مقدار کو عوام سے چھپانے کی کوشش کرے گی۔ جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ بیرون ملک بینکوں میں رکھی ہوئی دولت عوام کی بھلائی کے لیے استعمال کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیتی ہے لیکن یہ پہلا موقع نہیں جب سپریم کورٹ نے حکومت کو اس سے پہلے بھی تنبیہہ کی تھی کہ وہ کالے دھن کی تحیقیقات میں اتنی زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی جتنا کہ کرنا چاہیے اور کرپشن کے بارے میں کسی حد تک صرف نظر سے کام لے رہی ہے۔

عدالت نے حکومت کو یہ انتباہ بھی کیا کہ سوئزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کرائی جانے والی تمام رقوم ضروری نہیں کہ ٹیکسوں کو بچا کر ہی حاصل کی گئی ہوں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ دولت منشیات' دہشتگردی یا دیگر غیرقانونی ذرایع سے حاصل کی گئی ہو تو کیا اب حکومت ان رقوم پر دوہرے ٹیکس عاید کرے گی؟سوئس بینکنگ ایسوسی ایشن نے 2006ء میں رپورٹ جاری کی تھی کہ سوئس بینکوں میں سب سے زیادہ مقدار میں بھارت کے کالے دھن کی رقم ہے جس کی مقدار ایک ہزار چار سو چھپن ارب ڈالر$1,456 billion ہے۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی رقم دیگر تمام ملکوں کی مجموعی رقوم سے بھی زیادہ ہے جو کہ بھارت کے غیرملکی قرضے سے 13گنا زیادہ ہے۔ اس رقم سے بھارت کے 45کروڑ لوگوں کو فی کس ایک ایک لاکھ روپے دیے جا سکتے ہیں۔ یہ تمام رقم اگر بھارت کو واپس مل جائے تو نہ صرف بھارت کے تمام قرضے اتر جائیں گے بلکہ بھارت کے مجموعی قرضوں سے بارہ گنا زیادہ رقم بھارت کے پاس بچ جائے گی۔

اگر یہ رقم سرمایہ کاری میں لگا دی جائے تو اس کا صرف سود مرکزی حکومت کے سالانہ بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہو گا۔ تب اگر حکومت تمام ٹیکس ختم کر دے اس کے باوجود حکومت کے پاس ٹیکسوں سے زیادہ رقم بچ جائے گی۔

سپریم کورٹ نے سرکاری تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) بنانے پر زور دیا ہے جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ جج کریں گے اور وہ کالے دھن کے تمام مقدمات کا پیچھا کریں اور اس ساری تحقیقات کی نگرانی خود سپریم کورٹ کرے گی۔

اس حوالے سے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ ''سیاستدان' بیوروکریٹس اور بزنس مین اپنی دولت باہر لے جاتے ہیں اور پھر غیر ملکی مالیاتی سرمایہ کاروں کے وساطت سے ان رقوم کو ملک میں واپس لایا جاتا ہے۔ گو کہ یہ ریمارکس بہت تکلیف دہ ہیں مگر ان کا ایک ایک لفظ سچ ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ آیا حکومت پر سپریم کورٹ کے اس انتباہ کا کوئی اثر ہو گا کیونکہ حکومت نے بیرون ملک موجود کالے دھن کے حصول کے لیے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہ بات واضح ہے کہ کانگریس کی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ اس حوالے سے بعض ناموں کا پبلک میں افشا ہو کیونکہ ان ناموں کا ظاہر ہو جانا کانگریس کے لیے خجالت کا باعث بن سکتا تھا۔

اب حکومت کی ایک اور غلطی پکڑی گئی ہے۔ اسے کچھ عرصہ قبل جرمنی سے دوہرے ٹیکس کے سمجھوتے کے تحت 26 نام دیے گئے تھے۔ اگرچہ جرمنی کے پاس سیکڑوں نام تھے مگر اس نے صرف 26 ناموں پر اکتفا کیا۔ نئی دہلی حکومت انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ لیکن وزیر خزانہ پرتاب مکھرجی نے کیوں کہا ہے کہ ''فائدہ اٹھانے والوں کے ناموں کا افشا نہیں کیا جائے گا۔ توکیا اس بارے میں کوئی خفیہ سمجھوتہ موجود ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ نئی دہلی حکومت کا قصور ہو گا۔

دریں اثناء سپریم کورٹ نے سرکاری موقف کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ان تمام ناموں کا افشا کرے۔ لیکن ابھی تک حکومت ایسا کرتی نظر نہیں آ رہی۔بی جے پی اور این ڈی اے میں اس کی اتحادی جماعتوں نے کہا ہے کہ ان کی کوئی رقوم بیرون ملک نہیں ہیں۔ یہ بیان کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے لیے دباؤ کا کام کر سکتا ہے۔ بعض اتحادی جماعتیں حکومت سے فاصلہ پیدا کر سکتی ہیں۔ اب اس کے پاس ان 26 ناموں کے افشا کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ تب انھیں یقیناً کیفر کردار کو پہنچایا جائے گا۔

میں نے بھارت کو کرپشن میں اتنا زیادہ ڈوبا ہوا پہلے کبھی نہیں دیکھا جتنا کہ وہ اب ہے۔ اور نہ ہی میں نے حکومت کے خلاف اتنی زیادہ تنقید سنی ہے۔ کاش کہ حکومت کی طرف سے اس تنقید کا کوئی جواب بھی دیا جائے۔ سکروٹنی ضرور ہونی چاہیے مگر یہ عمل بہت سست روی کا شکار ہے اور اس میں بھی کرپشن کا عمل دخل ہے جس کی وجہ سے معاملہ انجام تک پہنچتا نظر نہیں آتا اور سالہا سال میں بھی ذمے داروں کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکے گی۔ حکومت کو اس معاملے میں تیزی لانے کا کوئی بندوبست کرنا چاہیے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |