سانحۂ شاہ نورانی اور سی پیک منصوبہ
ہم پاکستانیوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ برسوں سے بدامنی ودہشتگردی کومقدرکا لکھا سمجھ کر جھیل رہے ہیں
ہم پاکستانیوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ برسوں سے بدامنی ودہشتگردی کومقدرکا لکھا سمجھ کر جھیل رہے ہیں۔گزشتہ دس گیارہ برسوں میں ساٹھ ہزار لاشیں اٹھانے اور امن وسکون سے مکمل طور پر محروم ہوجانے کے بعد بھی دہشتگردی سے نجات حاصل نہیں کرسکے۔ ابھی ایک سانحے کا درد کچھ ہلکا ہوتا نہیں کہ خون میں لت پت دسیوں لاشیں لیے کوئی دوسرا سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔
دہشتگرد ہر بار نئے روپ میں آتے ہیں اور بے گناہ و بے بس شہریوں کو خون میں لتھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔ برسوں سے اپنی ہی لاشیں دیکھ دیکھ اب تو ہم اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کسی جگہ خود کش حملے یا دہشتگردی کی کسی واردات کی خبر سن کر بس روایتی سا دکھ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ دہشتگردی برداشت کر کے ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ بلوچستان تو دہشتگردی سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہے، جہاں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوں کہ بے گناہ لوگ دہشتگردی کی بھینٹ نہ چڑھتے ہوں اور بلوچستان کے لوگ بھی شاید یہ سب کچھ برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کے بعد حکومتی ارکان، اہم شخصیات کے مذمتی بیانات، دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے عزم کا اظہار، اپوزیشن ارکان کی جانب سے حکومت پر تنقید، الیکٹرانک میڈیا پر رات کے پروگرام میں اس حوالے سے کچھ تجزیے تبصرے، پرنٹ میڈیا پر دہشتگردی سے اگلے دن اس سانحے سے متعلق اہم خبریں اور دہشتگردوں سے متعلق اہم انکشافات اور سوشل میڈیا پر دہشتگردی سے متاثرین کی خون میں لتھڑی لاشوں کی تصاویر اور چند پوسٹس کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
دہشتگرد بہت آسانی کے ساتھ قوم کو ایک کے بعد دوسرا سانحہ سے دوچارکیے دیتے ہیں۔ ابھی ایک سانحہ بھولتا نہیں کہ دوسرا پوری المناکی کے ساتھ کئی گھروں کو اجاڑنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور چند روز کے بعد حکومتی ارکان مختلف ایشوز پر جھوٹے بیانات سے عوام کو بہلانے میں مگن، اپوزیشن ارکان اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکومت پر تنقید کرنے میں مشغول، الیکٹرانک میڈیا بریکنگ نیوز کے لیے اگلے سانحے کا منتظر ہوتا ہے، جب کہ ''مجاہدین'' سوشل میڈیا تو روز نت نئے موضوعات گھڑنے کے ماہر ہیں، ان کے پاس بیچنے کے لیے اور بہت سا منجن موجود ہوتا ہے۔
صرف ایک دو دن کے بعد سب معمولات زندگی میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ دو تین روز قبل اس ملک میں کوئی سانحہ بھی رونما ہوا تھا کہ نہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہر سانحہ کے بعد دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ہشتگردوں کا مکمل صفایا کرنے کا عزم کیا جاتا ہے، لیکن دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور دہشتگروں کا مکمل صفایا تو ایک طرف رہا، دہشتگردی کے واقعے کے اصل محرکات تک پہنچ کر دہشتگردی کے سدباب کے لیے لائحہ عمل تک طے نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان میں دہشتگردی کاالمناک واقعہ پوری قوم کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے، جس میں 70 بے گناہ لوگ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور200 سے زاید زخمی ہوئے۔
ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ سانحہ بھی بہت جلد بھلا دیا جائے گا، کیونکہ بلوچستان میں برسوں سے ہونے والی دہشتگردی تو ایک طرف رکھیے، صرف سال رواں بلوچستان میں چالیس حملے ہوچکے ہیں، جن میں 200 سے زاید افراد نشانہ بنے اور کئی گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں، لیکن یہ لوگ جن کے پیارے بچھڑے ان کے علاوہ شاید کسی کو کچھ یاد ہوں، ورنہ دہشتگردی کے مستقل سدباب کے لیے ضرور کچھ کیا جاتا۔
گزشتہ صرف دس ماہ میں بلوچستان میں دو سو حملے ہوچکے ہیں، لیکن حکومتی ارکان اور انتظامیہ اسی بات پر فخر کر رہے ہیں کہ بلوچستان سے دہشتگردی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بات بجا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر تو ہوئی، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس نے ایک بار پھر سے یاد دہانی کرادی ہے کہ ایک بڑے آپریشن کے باوجود بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے سیاسی و عسکری قیادت کا بیان کافی اہمیت رکھتا ہے، جو انھوں نے شاہ نورانی مزار پر حملے کے فوری بعد ہنگامی اجلاس میں دیا ہے۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ''ملک دشمن قوتیں سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کے دیگر منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشتگردی کی کارروائیاں کروا رہی ہیں اور ان بزدلانہ حملوں کا ہدف بے گناہ لوگ ہیں، اپنے مذموم مقاصد کے لیے بزدل دہشتگرد کمزور اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔''
وزیر دفاع خواجہ آصف بھی کہتے ہیں کہ ''شاہ نورانی دھماکے کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں۔ بھارت افغانستان کے ذریعے دہشتگردی کرواتا ہے۔'' وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بھی دہشتگردی میں پڑوسی ملک کی ایجنسیز کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ ذرایع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شاہ نورانی دھماکے میں افغانستان اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ بھارتی ایجنسی سی پیک کے افتتاح سے پہلے بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنا چاہتی تھی، اسی لیے تجارتی جہازکی گوادر پورٹ سے روانگی سے چند گھنٹے قبل یہ دھماکا کیا گیا ہے۔
بھارت کی جانب سے کی جانے والی پاکستان مخالف سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان کو دو لخت کرنے سے لے کر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی و بدامنی کو فروغ دینے تک بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ بھارت کی بدنام زمانہ تنظیم ''را'' بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں سرگرم عمل ہے۔ بہت سے بھارتی دہشتگرد مختلف اوقات میں پاکستان سے پکڑے گئے ہیں، لیکن کچھ عرصے سے بھارت کو سی پیک منصوبہ آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، جس کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے ہر حربہ استعمال کیا ہے۔
سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا، بلکہ اپنے کئی حاضر سروس آفیسرز کو سی پیک منصوبہ کو ناکام بنانے کا ٹاسک دیا۔ بھارتی ایجنٹ کلبوشن یادیو نے گرفتاری کے بعد میڈیا پر آکر دنیا کے سامنے بھارت کی منافقت اور سازشوں کا پردہ چاک کیا، جب کہ سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے گزشتہ دنوں بھی بھارتی سفارت خانے کے آٹھ اہلکار دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے، جو سی پیک کے حوالے سے کئی سطح پر کام کر رہے تھے اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کو سبوتاژ کرنا اور دیگر بہت سے تخریبی کام جن کے مقاصد کا حصہ تھا۔
یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان خصوصا بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے، لیکن یہ تلخ حقیقت بھی واضح رہے کہ ملک دشمن ایجنسیز کے ہاتھوں استعمال ہونے والے خود پاکستان کے ہی لوگ ہوتے ہیں، جودشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر مذہب، صوبائیت اور لسانیت کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں کا خون لینے پر تل جاتے ہیں۔ ان محرکات کا سدباب کرنا ازحد ضروری ہے، جو برگشتہ عناصر کو ملک کی سلامتی کمزورکرنے کی بھارتی سازشوں میں آلہ کار بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
شکر خدا کا کہ تمام اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود سی پیک منصوبے کے تحت گوادر پورٹ کا باقاعدہ افتتاح کردیا گیا ہے اور گوادربندرگاہ سے پہلے روز سی پیک منصوبے کے تحت 300 کنٹینرز پر مشتمل پہلا میگا پائلٹ ٹریڈ کارگو گوادر سے روانہ ہوا۔خدا سی پیک منصوبے کو ہمارے ملک ترقی کا باعث بنائے، لیکن یہ خیال رہے کہ دشمن سی پیک منصوبے کی تجارتی شاہراہ کو سیکیورٹی خدشات سے دوچار کرنے کی کوشش کرے گا۔
سی پیک منصوبے کو محفوظ بنانے اور پوری قوم کو دہشتگردی کے ناسور سے نجات دلانے کے لیے ملک سے بھارتی ایجنٹوں اور ان کے معاونین کی بیخ کنی ضروری ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب پوری قوم مستقل طور پر بیدار و متحد ہوکر دہشتگردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔
دہشتگرد ہر بار نئے روپ میں آتے ہیں اور بے گناہ و بے بس شہریوں کو خون میں لتھڑا چھوڑ جاتے ہیں۔ برسوں سے اپنی ہی لاشیں دیکھ دیکھ اب تو ہم اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کسی جگہ خود کش حملے یا دہشتگردی کی کسی واردات کی خبر سن کر بس روایتی سا دکھ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ دہشتگردی برداشت کر کے ہم بے حس ہوچکے ہیں۔ بلوچستان تو دہشتگردی سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہے، جہاں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہوں کہ بے گناہ لوگ دہشتگردی کی بھینٹ نہ چڑھتے ہوں اور بلوچستان کے لوگ بھی شاید یہ سب کچھ برداشت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشتگردی کے بعد حکومتی ارکان، اہم شخصیات کے مذمتی بیانات، دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے عزم کا اظہار، اپوزیشن ارکان کی جانب سے حکومت پر تنقید، الیکٹرانک میڈیا پر رات کے پروگرام میں اس حوالے سے کچھ تجزیے تبصرے، پرنٹ میڈیا پر دہشتگردی سے اگلے دن اس سانحے سے متعلق اہم خبریں اور دہشتگردوں سے متعلق اہم انکشافات اور سوشل میڈیا پر دہشتگردی سے متاثرین کی خون میں لتھڑی لاشوں کی تصاویر اور چند پوسٹس کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
دہشتگرد بہت آسانی کے ساتھ قوم کو ایک کے بعد دوسرا سانحہ سے دوچارکیے دیتے ہیں۔ ابھی ایک سانحہ بھولتا نہیں کہ دوسرا پوری المناکی کے ساتھ کئی گھروں کو اجاڑنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور چند روز کے بعد حکومتی ارکان مختلف ایشوز پر جھوٹے بیانات سے عوام کو بہلانے میں مگن، اپوزیشن ارکان اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکومت پر تنقید کرنے میں مشغول، الیکٹرانک میڈیا بریکنگ نیوز کے لیے اگلے سانحے کا منتظر ہوتا ہے، جب کہ ''مجاہدین'' سوشل میڈیا تو روز نت نئے موضوعات گھڑنے کے ماہر ہیں، ان کے پاس بیچنے کے لیے اور بہت سا منجن موجود ہوتا ہے۔
صرف ایک دو دن کے بعد سب معمولات زندگی میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ دو تین روز قبل اس ملک میں کوئی سانحہ بھی رونما ہوا تھا کہ نہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہر سانحہ کے بعد دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور ہشتگردوں کا مکمل صفایا کرنے کا عزم کیا جاتا ہے، لیکن دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور دہشتگروں کا مکمل صفایا تو ایک طرف رہا، دہشتگردی کے واقعے کے اصل محرکات تک پہنچ کر دہشتگردی کے سدباب کے لیے لائحہ عمل تک طے نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان میں دہشتگردی کاالمناک واقعہ پوری قوم کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے، جس میں 70 بے گناہ لوگ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں اور200 سے زاید زخمی ہوئے۔
ماضی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں کہ یہ سانحہ بھی بہت جلد بھلا دیا جائے گا، کیونکہ بلوچستان میں برسوں سے ہونے والی دہشتگردی تو ایک طرف رکھیے، صرف سال رواں بلوچستان میں چالیس حملے ہوچکے ہیں، جن میں 200 سے زاید افراد نشانہ بنے اور کئی گنا زیادہ زخمی ہوئے ہیں، لیکن یہ لوگ جن کے پیارے بچھڑے ان کے علاوہ شاید کسی کو کچھ یاد ہوں، ورنہ دہشتگردی کے مستقل سدباب کے لیے ضرور کچھ کیا جاتا۔
گزشتہ صرف دس ماہ میں بلوچستان میں دو سو حملے ہوچکے ہیں، لیکن حکومتی ارکان اور انتظامیہ اسی بات پر فخر کر رہے ہیں کہ بلوچستان سے دہشتگردی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بات بجا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر تو ہوئی، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس نے ایک بار پھر سے یاد دہانی کرادی ہے کہ ایک بڑے آپریشن کے باوجود بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے سیاسی و عسکری قیادت کا بیان کافی اہمیت رکھتا ہے، جو انھوں نے شاہ نورانی مزار پر حملے کے فوری بعد ہنگامی اجلاس میں دیا ہے۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ''ملک دشمن قوتیں سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کے دیگر منصوبوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے دہشتگردی کی کارروائیاں کروا رہی ہیں اور ان بزدلانہ حملوں کا ہدف بے گناہ لوگ ہیں، اپنے مذموم مقاصد کے لیے بزدل دہشتگرد کمزور اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔''
وزیر دفاع خواجہ آصف بھی کہتے ہیں کہ ''شاہ نورانی دھماکے کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں۔ بھارت افغانستان کے ذریعے دہشتگردی کرواتا ہے۔'' وزیر اعلیٰ بلوچستان نے بھی دہشتگردی میں پڑوسی ملک کی ایجنسیز کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ ذرایع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شاہ نورانی دھماکے میں افغانستان اور بھارتی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔ بھارتی ایجنسی سی پیک کے افتتاح سے پہلے بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنا چاہتی تھی، اسی لیے تجارتی جہازکی گوادر پورٹ سے روانگی سے چند گھنٹے قبل یہ دھماکا کیا گیا ہے۔
بھارت کی جانب سے کی جانے والی پاکستان مخالف سرگرمیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان کو دو لخت کرنے سے لے کر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں دہشتگردی و بدامنی کو فروغ دینے تک بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ بھارت کی بدنام زمانہ تنظیم ''را'' بلوچستان میں بدامنی پھیلانے میں سرگرم عمل ہے۔ بہت سے بھارتی دہشتگرد مختلف اوقات میں پاکستان سے پکڑے گئے ہیں، لیکن کچھ عرصے سے بھارت کو سی پیک منصوبہ آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے، جس کو ناکام بنانے کے لیے بھارت نے ہر حربہ استعمال کیا ہے۔
سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا، بلکہ اپنے کئی حاضر سروس آفیسرز کو سی پیک منصوبہ کو ناکام بنانے کا ٹاسک دیا۔ بھارتی ایجنٹ کلبوشن یادیو نے گرفتاری کے بعد میڈیا پر آکر دنیا کے سامنے بھارت کی منافقت اور سازشوں کا پردہ چاک کیا، جب کہ سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے گزشتہ دنوں بھی بھارتی سفارت خانے کے آٹھ اہلکار دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے، جو سی پیک کے حوالے سے کئی سطح پر کام کر رہے تھے اور چین، پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک کو سبوتاژ کرنا اور دیگر بہت سے تخریبی کام جن کے مقاصد کا حصہ تھا۔
یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان خصوصا بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں بھارت ملوث ہے، لیکن یہ تلخ حقیقت بھی واضح رہے کہ ملک دشمن ایجنسیز کے ہاتھوں استعمال ہونے والے خود پاکستان کے ہی لوگ ہوتے ہیں، جودشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر مذہب، صوبائیت اور لسانیت کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں کا خون لینے پر تل جاتے ہیں۔ ان محرکات کا سدباب کرنا ازحد ضروری ہے، جو برگشتہ عناصر کو ملک کی سلامتی کمزورکرنے کی بھارتی سازشوں میں آلہ کار بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
شکر خدا کا کہ تمام اندرونی و بیرونی سازشوں کے باوجود سی پیک منصوبے کے تحت گوادر پورٹ کا باقاعدہ افتتاح کردیا گیا ہے اور گوادربندرگاہ سے پہلے روز سی پیک منصوبے کے تحت 300 کنٹینرز پر مشتمل پہلا میگا پائلٹ ٹریڈ کارگو گوادر سے روانہ ہوا۔خدا سی پیک منصوبے کو ہمارے ملک ترقی کا باعث بنائے، لیکن یہ خیال رہے کہ دشمن سی پیک منصوبے کی تجارتی شاہراہ کو سیکیورٹی خدشات سے دوچار کرنے کی کوشش کرے گا۔
سی پیک منصوبے کو محفوظ بنانے اور پوری قوم کو دہشتگردی کے ناسور سے نجات دلانے کے لیے ملک سے بھارتی ایجنٹوں اور ان کے معاونین کی بیخ کنی ضروری ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے، جب پوری قوم مستقل طور پر بیدار و متحد ہوکر دہشتگردی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔