تکریم و حقوقِ نسواں
اسلام عورت کو اپنے حقوق کے تحفظ کے ساتھ پرامن، خوش گوار اور پرسکون زندگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے
یہ سب کچھ جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں یعنی دنیا کی نیرنگیاں، زرق برق ملبوسات، خوب صورت محلات، رنگا رنگ تقریبات، جشن کے نام پر خرافات، غم غلط کر نے کے لیے مے نوشی، حسن کے مقابلے، نام و نمود، شہرت، غیر فطری مراسم، گم راہ کن منصوبہ بندی، پھیکی مسکراہٹیں، کھوکھلے دعوے، بے سر و پا باتیں اور جھوٹی محبتیں۔ یہ کوئی نئی بات تھوڑی ہے یہ تو اسلام سے بہت پہلے کے معاشرے کا عکس اور دستور تھیں۔
اْس دور میں عورت کا وجود محض ایک کھلونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ عورت معاشرے میں نہ صرف یہ کہ مظلوم تھی بل کہ سماجی و معاشرتی عزت و توقیر اور ادب و احترام سے بھی محروم تھی۔ روما جیسی تہذیب جو خود کو روشن خیال اور ترقی یافتہ کہتی تھی، عورت کو ثانوی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یونانی فلاسفہ نے عورت کو ''شجرہ مسمومہ'' یعنی ایک زہر آلود درخت قرار دے کر عام خیال میں مرد سے کئی گنا زیادہ معیوب، بدکردار، آوارہ اور ترش و تلخ گو باور کیا۔
رومی تہذیب نے عورت کا کیا مقام بتایا ہے تاریخ کے جھرونکوں میں آج بھی دھندلے سے الفاظ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ''عورت کے لیے کوئی روح نہیں بل کہ یہ عذابوں کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔'' ہندی ویدوں کے احکام کے مطابق: '' عورت مذہبی کتاب کو چھو بھی نہیں سکتی اور اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چُھولے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہوجاتا ہے لہٰذا اس کو پھینک دینا چاہیے۔''
لیکن جب اسلام آیا اور ہدایت کا نیّر تاباں جلوہ فگن ہوا، قرآن کا آفتاب عالم تاب چمکا تو یونانی تہذیب سے لے کر نصرانی ثقافت تک تمام کلچر اور تمام تہذیبیں پاش پاش ہوگئیں، سارے تمدن دھڑام سے نیچے آگرے۔ اسلام ساری انسانیت کے لیے احترام کا دستور لایا۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام بخشا کہ جس کی مثال کسی اور مذہب اور کسی دین میں نہیں ملتی۔
نبی رحمت ﷺ کا یہ ارشاد کہ '' بیٹی، بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہی کیوں نہ ہو۔'' توقیر عورت کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اسلام نے عورت کو بے جا غلامی، ذلت اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دلائی۔ اسلام صنف نازک کے لیے نوید صبح مسرت بن کر آیا اور عورت کے لیے احترام کا پیام بر ثابت ہوا۔ اب اگر یہی عورت ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنت کو لاکر بسا دیا، بیٹی ہو تو نعمت عظمیٰ، اگر رشتہ بہن کا ہو تو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہو تو اس کو جنت کی حوروں کی بھی سردار قرار دیا۔
اسلام عورت کو حقوق کے تحفظ کے ساتھ پرامن، خوش گوار، پرسکون ، راحت بخش اور اطمینان والی زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے جن کی بہ دولت اس کی عزت و آبرو، عفت و حیا اور پاک دامنی محفوظ رہتی ہے۔
اْس دور میں عورت کا وجود محض ایک کھلونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ عورت معاشرے میں نہ صرف یہ کہ مظلوم تھی بل کہ سماجی و معاشرتی عزت و توقیر اور ادب و احترام سے بھی محروم تھی۔ روما جیسی تہذیب جو خود کو روشن خیال اور ترقی یافتہ کہتی تھی، عورت کو ثانوی حیثیت دینے کے لیے بھی تیار نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ یونانی فلاسفہ نے عورت کو ''شجرہ مسمومہ'' یعنی ایک زہر آلود درخت قرار دے کر عام خیال میں مرد سے کئی گنا زیادہ معیوب، بدکردار، آوارہ اور ترش و تلخ گو باور کیا۔
رومی تہذیب نے عورت کا کیا مقام بتایا ہے تاریخ کے جھرونکوں میں آج بھی دھندلے سے الفاظ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ''عورت کے لیے کوئی روح نہیں بل کہ یہ عذابوں کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔'' ہندی ویدوں کے احکام کے مطابق: '' عورت مذہبی کتاب کو چھو بھی نہیں سکتی اور اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چُھولے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہوجاتا ہے لہٰذا اس کو پھینک دینا چاہیے۔''
لیکن جب اسلام آیا اور ہدایت کا نیّر تاباں جلوہ فگن ہوا، قرآن کا آفتاب عالم تاب چمکا تو یونانی تہذیب سے لے کر نصرانی ثقافت تک تمام کلچر اور تمام تہذیبیں پاش پاش ہوگئیں، سارے تمدن دھڑام سے نیچے آگرے۔ اسلام ساری انسانیت کے لیے احترام کا دستور لایا۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام بخشا کہ جس کی مثال کسی اور مذہب اور کسی دین میں نہیں ملتی۔
نبی رحمت ﷺ کا یہ ارشاد کہ '' بیٹی، بیٹی ہوتی ہے خواہ کافر کی ہی کیوں نہ ہو۔'' توقیر عورت کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ اسلام نے عورت کو بے جا غلامی، ذلت اور ہتک آمیز رویوں سے نجات دلائی۔ اسلام صنف نازک کے لیے نوید صبح مسرت بن کر آیا اور عورت کے لیے احترام کا پیام بر ثابت ہوا۔ اب اگر یہی عورت ماں بن جائے تو اس کے قدموں میں جنت کو لاکر بسا دیا، بیٹی ہو تو نعمت عظمیٰ، اگر رشتہ بہن کا ہو تو احترام کا پیکر اور اہلیہ ہو تو اس کو جنت کی حوروں کی بھی سردار قرار دیا۔
اسلام عورت کو حقوق کے تحفظ کے ساتھ پرامن، خوش گوار، پرسکون ، راحت بخش اور اطمینان والی زندگی گزارنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے جن کی بہ دولت اس کی عزت و آبرو، عفت و حیا اور پاک دامنی محفوظ رہتی ہے۔