اپوزیشن سے عوام کی ٹوٹتی اُمیدیں دوسرا حصہ

اپوزیشن حقیقی آئینی کردار کے بجائے عارضی و غیر آئینی کردار کی طرف زیادہ مائل ہوتی جارہی ہے۔


شاہد کاظمی November 18, 2016
اپوزیشن سارا زور اس پر صرف کر دیتی ہے کہ کب یہ حکومت بوریا بسترا سمیٹے اور ان کو حکومت کے ایوان تک رسائی مل جائے۔فوٹو:فائل

حکومت مخالف فریقین کا جائزہ لیا جائے تو وہاں وابستہ امیدیں بھی دن بدن ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن کی بڑی پارٹی تو شاید میثاق جمہوریت کی توقیر میں اس قدر آگے نکل چکی ہے کہ وہ اپنے تئیں ارادہ بناچکی ہے کہ جناب ہم اپنی باری سے پہلے کچھ نہیں بولیں گے۔ کسی کو اعتراض نہیں کہ جمہوریت پہ قدغن لگے، مگر کم از کم حقیقی اپوزیشن کا کردار تو یہ ہونا چاہیئے کہ کم از کم حکومتی کوتاہیوں کی نشاندہی تو کی جائے۔

اس کی مخالفت تو کی جائے کہ جناب یہ بادشاہت کے طور طریقے جمہوریت میں تو نہ آزمائیں، مگر ایک فقرہ اپنالیا گیا ہے کہ ہم تو جمہوریت کے ساتھ ہیں اور ذمہ داری پوری لیکن تُف ہے کہ اس نعرے میں عوام کے بنیادی حقوق کی تلفی پر بھی توجہ دینا جرم سمجھ لیا گیا ہے اور ایسی خاموشی طاری ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ سب اس حمام میں ننگے ہیں۔

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)

پینشنرز الگ رونا رو رہے ہیں، کسان الگ واویلا مچا رہے ہیں، تنخواہ دار طبقہ اپنا افسردہ راگ الاپ رہا ہے، کاروباری حضرات اپنی جگہ پریشان ہیں، پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ افراد ٹیکسوں کی بھرمار سے احتجاج کرنے پر مجبور ہیں، مگر حیرت ہے ایسی اپوزیشن پر جس نے اپنا کردار اتنا محدود کرلیا ہے کہ بس احتجاجیوں کے ساتھ ایک تصویر بنالی جائے اور میڈیا کے لیے نت نئے بیان داغ دئیے جائیں جو بریکنگ نیوز کے طور پر چل جائے، اور دوسرے دن کے اخبارات میں نمایاں جگہ پر شائع ہوجائے۔ اکثر یہ بیانات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ،
ہم ظلم نہیں ہونے دیں گے،

ہم غریبوں کے ساتھ کھڑے ہیں،

ہم حکومت نہیں چلنے دیں گے،

ایسے حکومت نہیں چل سکتی،

کرپشن کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں گے، وغیرہ

لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ تو وہ بیانات ہیں جو وہ صرف اپوزیشن میں آکر ہی دیتے ہیں۔ کیوں کہ حکومت میں تو سب ایک ہی تھالی کے بینگن ہوتے ہیں۔ ایک پارٹی اپنے شہیدوں کا رونا رو رو کر اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ایک صوبے میں سالہا سال سے اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی وہاں کوئی کارہائے نمایاں سر انجام نہیں دے سکی۔ اور دوسری بڑی اپوزیشن پارٹی کی حالت ہے کہ جنگ زدہ صوبے کی حکومت پانے کے باوجود دھرنا دھرنا کھیلنے میں مصروف ہے۔ اور مکمل طور پہ ذاتیات کے گرد گھوم رہی ہے۔ رہنماؤں کا یہ حال ہے کہ تمام رہنما پارٹی چیئرمین کی خوشنودی کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام نہیں کر رہے۔ حکومت کی اصلاح تو درکنار وہ بیچارے اپنی اصلاح تک نہیں کر پارہے۔

پاکستان میں اپوزیشن کا کردار سیاست میں صرف اور صرف بیانات کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ اپوزیشن کے ذہنوں میں صرف اور صرف یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ان کا عوام سے رابطہ صرف اور صرف حکومت پانے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ان عقل کے اندھوں کو کوئی صرف یہ بتا دے کہ بھئی اگر اس دفعہ حکومت نہیں ملی تو موجودہ حکومت کی ٹانگیں کھینچنے سے تو کئی درجہ بہتر یہ عمل ہے کہ اپنا رابطہ عوام سے استوار کرلو اور عوام کو احساس دلاؤ کہ آپ کا ووٹ آئندہ صرف ہمارا ہے۔ ہم اس کے اصل حقدار ہیں۔ لیکن عوام بے چاری اپوزیشن سے بھی کیا امیدیں وابستہ کرے کہ وہ اپنے اقتدار کی خواہش کے لئے غریبوں کو آنسو گیس کے شیل کے آگے تو پھینک سکتے ہیں، مگر رہنما خود سامنے نہیں آسکتے۔

پاکستانی اپوزیشن خواہ کوئی بھی پارٹی ہو وہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ حکومت ٹھیک کام نہیں کررہی، لیکن وہ حکومت کی غلطیوں کو سدھارنے، ان کی اصلاح کرنے، عوام میں شعور بیدار کرنے، حکومتی کوتاہیوں کی پکڑ کرنے کے بجائے سارا زور اس پر صرف کر دیتے ہیں کہ کب یہ حکومت بوریا بسترا سمیٹے اور ان کو حکومت کے ایوان تک رسائی مل جائے۔

پاکستان میں عوام جو امیدیں اپوزیشن سے وابستہ کئے ہوئے تھی۔ وہ بھی رفتہ رفتہ کرچی ہورہی ہیں، کیوں کہ اپوزیشن اپنے حقیقی آئینی کردار کے بجائے عارضی و غیر آئینی کردار کی طرف زیادہ مائل ہوتی جا رہی ہے۔ اور ان کے نزدیک اپوزیشن کا کام حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھ کر کوتاہیوں کو درست کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے اقتدار دوبارہ حاصل کرنا ہی رہ گیا ہے۔ جہاں حکومت کے کرتا دھرتاؤں سے عوام کی امیدیں ٹوٹ رہی ہیں، وہیں پر اپوزیشن بھی عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پارہی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں