کیا اس کا بھی کوئی حل ہے

ٹریفک حادثات کی روک تھام کیلئے باقاعدہ ٹرانسپورٹ پالیسی بنائی جائے اور قانون پر سختی سےعمل درآمد کروایا جائے۔


محمد شعیب ملک November 19, 2016
اگر گھر بیٹھے گاڑیوں کے روڈ ٹیسٹ اور روٹ پرمٹ ’’اوکے‘‘ ہوتے رہے تو حادثات میں کمی نہیں زیادتی ہوگی۔ فوٹو:فائل

پاکستان گزشتہ چند برسوں سے لوڈشیڈنگ، دہشت گردی، کرپشن سمیت متعدد بحرانوں میں گھرا ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں دہشت گردی(معاشی اور معاشرتی) پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم اسے کبھی امریکہ کی اور کبھی اپنی جنگ قرار دیتے آئے ہیں مگربالواسطہ یا بلا واسطہ اس جنگ کا حصہ رہے ہیں۔ جس کے باعث پاکستان کو بےپناہ جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن آج لکھنے کا سبب ایک اور جنگ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، جس کو کوئی بھی اپنی یا پرائی جنگ نہیں کہتا، جو گزشتہ برسوں(2004 سے 2014) میں 61887 پاکستانیوں کی جان لے چکی ہے، زخمیوں اور ہمیشہ کے لئے معذور ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ یہ جنگ جو ''ٹریفک حادثات '' کی صورت میں ہمارے گلی محلوں سے لیکر مرکزی شاہراؤں تک جاری ہے۔

اگر اعداد و شمار کو جائزہ جائے تو وہ نہایت خوفناک ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تشویشناک ہیں۔ اسارٹ (ایسوسی ایشن فار سیف انٹرنیشنل روڈ ٹریول) کے مطابق دنیا میں سالانہ 1.3 ملین افراد ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوجاتے ہیں، جبکہ 20 ملین سے زائد زخمی یا معذور ہو جاتے ہیں۔ ان حادثات کا شکار 50 فیصد افراد کی عمریں 15 سے 44 سال کے درمیان ہوتے ہیں۔ روڈ ایکسیڈنٹ کو دنیا میں اموات کی نویں بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے اور اگر اسی رفتار سے ٹریفک حادثات ہوتے رہے تو 2030 تک یہ دنیا میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ بن جائے گی۔

دنیا کے90 فی صد حادثات ترقی پذیر ممالک میں پیش آتے ہیں، جہاں دنیا کی 54 فیصد گاڑیاں چلتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ قانون پر عمل نہ کرنے کے ساتھ ساتھ مربوط ٹریفک پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں ان حادثات کی شرح صرف 10 فی صد ہے جو دنیا کی 46 فی صد ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ حادثات افریقہ جبکہ سب سے کم یورپ میں ہوتے ہیں۔ انہی ٹریفک حادثات کی وجہ سے دنیا میں مجموعی طور پر سالانہ 518 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر صرف پاکستان میں دیکھا جائے تو 2004-05 میں 5112، 2005-06 میں 4868، 2006-07 میں سب سے زیادہ 10466، 2007-08 میں 5616، 2008-09 میں 4907، 2009-10 میں 5280، 2010-11 میں 5271، 2011-12 میں 4758، 2012-13 میں 4719، 2013-14 میں 5421 افراد ٹریفک حادثات کا نشانہ بنے۔ ان میں سے سب زیادہ حادثات صوبہ سندھ میں ہوئے، یوں مجموعی طور پر ان دس برسوں میں 61882 افراد حادثات میں ہلاک ہوئے۔

ایک طرف ایک ایسی جنگ جس کیلئے آپریشن ضرب عضب کیا جارہا ہے، جو ایک صحیح فیصلہ اور وقت کی ضرورت ہے تو دوسری طرف بھی ایک ایسے ہی کامیاب آپریشن کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔ ہر سال ہزاروں پاکستانیوں ان ٹریفک حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہمارے نام نہاد جمہوری ادارے صرف کرپشن، لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ ہر گزرتے سال کے اس ساتھ اس شرح میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان بیورو اف اسٹیٹیکٹس کے مطابق ہر روز تقریبا 15 پاکستانی ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوتے ہیں۔ ہر صبح ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز ان حادثات کی ہوتی ہیں۔ صرف گزشتہ ہفتے دُھند کے باعث حادثات میں کئی افراد جاں بحق ہوئے۔

اس کے حل کے لئے حکومت کو سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ ٹرانسپورٹ پالیسی بنائی جائے اور سب سے بڑھ کر قانون پر عمل درآمد کروایا جائے۔ 2006 میں (UN) یونائٹیڈ نیشن نے روڈ سیفٹی ایکٹ کے نام سے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت سڑکوں کی تعمیر سے لیکر سگنلز کی تنصیب تک کچھ پیرامیٹرز طے کئے گئے۔ جس کے باعث حادثات میں کمی کی جاسکتی ہے ہم بھی اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ حکومت سمیت ہمیں انفرادی طور پر بھی ان حادثات کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔ اگر گھر بیٹھے گاڑیوں کے روڈ ٹیسٹ اور روٹ پرمٹ ''اوکے'' ہوتے رہے تو حادثات میں کمی نہیں زیادتی ہوگی۔ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جانے کا، ورنہ بقول جاوید چوہدری کے،
''ہمیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہم میں سے ہر شخص روڈ پر چلتا پھرتا خودکش بمبار ہے جو اپنے ساتھ کئی قیمتی جانوں کی موت جیب میں لئے پھرتا ہے''۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں