پولیو مہم کی محنت کش بد نصیب ملالائیں
کراچی میں محسود قبائل کے انتہا پسندوں کا پولیو رضاکاروں پر حملہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
ملک کے دو صوبائی دارالحکومتوں کراچی اور پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے دوران انسداد پولیو ٹیموں پر حملوں میں پانچ لیڈی ہیلتھ ورکرز جاں بحق اور چار مرد اہلکار زخمی ہو گئے۔ کراچی کی چار خواتین کو سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا ،بدھ کی صبح بھی پشاور اور ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں پولیو ٹیموں پر قاتلانہ حملوں کی اطلاعات ملتی رہیں ، کوٹ سلطان میں پولیو ورکرز پر مسلح افراد نے حملہ کردیا، ورکر جان بچا کر بھاگے تاہم ایک اہلکار کو پکڑ کر بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔
کوئٹہ میں جب کراچی کی پولیو ورکرز کے قتل کی اطلاع پہنچی تو اس کے بعد بلوچستان میں جاری انسداد پولیو مہم روک دی گئی جب کہ25 دسمبر سے کوئٹہ بلاک میں شروع ہونے والی مہم بھی ملتوی کر دی گئی۔ یاد رہے پاکستان میں17 سے 19 دسمبر تک سال کی آخری پولیو مہم جاری ہے، تاہم پاکستان میں انسداد پولیو ٹیم کو دہشت گردوں نے ایک بار پھر اپنے اسلحے سے چپ کرانے اور پولیو مہم سے بالجبر پسپا ہونے کی بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے دنیا کو خرد دشمنی کا بہیمانہ پیغام دیا ہے۔طالبان کو لاکھ اپنے مذموم ایجنڈے پر ناز ہو لیکن ان نہتے ، پولیس و رینجرز سیکیورٹی سے محروم ،بے قصور محنت کش خواتین اور مرد رضاکاروں کو ہلاک اور زخمی کرکے انسانیت کے خلاف ایک منظم دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے ۔بربریت کا عالم یہ تھا کہ پشاور میں پندرہ منٹ کے اندر شہر کے مختلف علاقوں میں حملے کیے گئے ۔یہ حملے دہشت گردی کے وسیع تر تناظر میں ہو رہے ہیں ،بہانہ پولیو مہم کا ہو یا کسی اور باب میں انتہا پسند اور دہشت گردی پر کمر بستہ قوتوں نے وطن عزیز کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر رکھا ہے جس کا جواب بھی ارباب اختیار کو اسی شدت اور دو ٹوک انداز میں دینا چاہیے ۔ فوج اور دیگر فورسز نے دہشت گردی کے خاتمہ کی جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے تاہم قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اپوزیشن کی اس احتجاجی صدا پر ارباب بست وکشاد کو توجہ دینی چاہیے کہ صحیح طریقے سے دہشت گردی کے قلع قمع کی حکمت عملی وضع کی جاتی تو دہشت گرد کب کے ٹھکانے لگائے جاچکے ہوتے۔
طالبان کا پولیو مہم کے خلاف ہرزہ سرائی اور گمراہ کن پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں ، لیکن اب تو کراچی میں بھی محسود قبائل کے انتہا پسندوں کا پولیو رضاکاروں پر حملہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ حکام کو اصولاً ملک گیر پولیو مہم کی ابتدا کر نے سے پہلے خواتین اور مرد رضاکاروں کی زندگیوں کے تحفظ کے فول پروف اقدامات کرنے چاہیے تھے، اگر ایسا ہوتا تو ان سنگین وارداتوں کا سدباب ہوسکتا تھا ، دہشت گرد تو پولیوسمیت دیگر اہداف کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں مگر پولیو مہم سے مخاصمت طالبان کا ظالمانہ ہدف ہے، اس لیے کراچی سمیت ملک کے تمام حساس علاقوں میں انٹیلی جنس معلومات کی پیشگی شیئرنگ ناگزیر تھی۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ اسی روز نوشہرہ مردان روڈ پر رسالپور اکیڈمی کے مین گیٹ پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے دستی بم سے حملہ کردیا چھ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت انیس افراد شدید زخمی ہوگئے جنھیں سی ایم ایچ اسپتال رسالپور منتقل کر دیا گیا۔ منگل کی صبح اکیڈمی کے گیٹ نمبر 3پر نامعلوم موٹرسائیکل سوار افراد نے اچانک دستی بم سے حملہ کردیا ۔کراچی میں پہلا واقعہ گلشن بونیر میں پیش آیا جہاں مدیحہ اور فہمیدہ فائرنگ میں جاںبحق ہوئیں، فائرنگ کے اس واقعہ میں ایک میل ورکر بھی زخمی ہوا ، حملہ آور پیدل آئے تھے۔
اورنگی ٹاؤن اقبال مارکیٹ کے علاقے توری بنگش میں دوسرا واقعہ پیش آیا جہاں فائرنگ سے نسیم اختر جاں بحق اور اسرار زخمی ہو گیا۔ اتحاد ٹاؤن کے علاقے موچکو میں کنیزہ جاں بحق جب کہ ان کا ایک مرد ساتھی زخمی ہو گیا، چوتھے واقعے میں اتحاد ٹاؤن محمد خان کالونی میں فائرنگ میں شاہدہ اور ان کے ساتھی کامران زخمی ہو گئے۔ کراچی میں عالمی ادارہ صحت کا دفتر بھی بند کر دیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کراچی میں انسداد پولیو ٹیم پر حملے کے بعد مہم کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کو آگاہ کر دیا گیا ۔ ادھر پشاور میں یونین کونسل ڈاگ کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں کا قطرے پلانے والی ایک خاتون رضاکار14 سالہ فرزانہ کو ہلاک کرنا درد انگیز سانحہ ہے ۔اس واقعے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے پشاور سمیت صوبے بھر میں پولیو مہم ختم کرنے کی تجویز صوبائی حکومت کو دی ہے۔ تاہم محکمہ صحت کے مطابق انسداد پولیو مہم جاری رکھی جائے گی ۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کراچی اور پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں کے قتل کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو پولیو ٹیموں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے، انھوں نے ان واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے پولیو ٹیموں کی خدمات کو سراہا جب کہ صدر آصف علی زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بذریعہ ٹیلی فون ہدایت کی کہ پولیو کے حوالے سے تمام ٹیموں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے، اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ایکشن پلان ترتیب دیا جائے اور ان واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار کیا جائے ۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کے علاقہ لانڈھی گلشن بونیر کے رہائشی محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے کچھ لڑکے چاہتے تھے کہ علاقے کے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلائے جائیں، ان کا کہنا تھا کہ امریکا ایک سازش کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ یہ بات انسداد پولیو مہم گلشن بونیر کی انچارج گلناز نے بتائی۔ وہ یونین کونسل نمبر ایک گلشن بونیر کی انسداد پولیو مہم کی ایریا انچارج ہیں جب کہ مقتولہ مدیحہ اس کی بھانجی اور فہمیدہ بھابھی تھیں۔ دونوں گذشتہ 2 ماہ سے انسداد پولیو مہم میں بطور ورکرز کام کر رہی تھیں۔ گلناز نے بتایا کہ2ماہ قبل علاقے کے کچھ لڑکے جن کا تعلق محسود قبیلے سے ہے وہ ان کے پیچھے لگے تھے ۔ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے چلائی جانے والی انسداد پولیو مہم کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بننے والی رضاکار خواتین کو یومیہ250 روپے معاوضہ ملتا تھا۔ یہ حقیر سا معاوضہ پولیو مہم کے دوران تمام رضاکاروں کو ادا کیا جاتا ہے جب کہ انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پولیو مہم کا انتظار کرتی ہیں کہ مہم شروع ہو تو ان کوساڑھے 7سو روپے مل جائیں گے۔
ہماری حکمرانوں سے استدعا ہے کہ وہ ان غریب مگر جرات مند خواتین کو خراج عقیدت پیش کریں جو شعبہ صحت اور پولیو مہم کی نڈر ''ملالائیں '' تھیں جنھوں نے ایک قومی اور عالمی کاز کے لیے اپنی جان دی ہے ۔ یہ اپنے گھر کی کفیل تھیں، زخمی مرد رضاکار بھی معاوضہ اور دست گیری کے مستحق ہیں۔پولیو مہم کے دوران 100فیصد رضاکاروں کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ یہ رضاکار محکمہ صحت کے ملازم ہوتے ہیں نہ عالمی ادارہ صحت انھیں اپنا ملازم سمجھتا ہے ۔ ان کے گھروں کا چولہا بہر حال کبھی بجھنا نہیں چاہیے مگر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بچوں کو پولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا قومی فریضہ ادا کرنے والی خواتین رضاکار دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں لیکن افسوس محکمہ صحت سمیت کسی بھی ادارے نے ان کے اہلخانہ کی کفایت کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا ۔ ادھر بعد از مرگ واویلا کے مصداق آئی جی سندھ نے انسداد پولیو ٹیم مہم کے ورکرز پر حملے اور فائرنگ کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو روایتی ہدایات جاری کیں جب کہ ضرورت موثر پیشگی حفاظتی اقدامات اور دہشت گردوں کو وقوعہ سے پہلے پکڑنے کی تھی ۔ اب بھی وقت ہے کہ قاتلوں کو بچ کر نہ جانے دیا جائے۔
کوئٹہ میں جب کراچی کی پولیو ورکرز کے قتل کی اطلاع پہنچی تو اس کے بعد بلوچستان میں جاری انسداد پولیو مہم روک دی گئی جب کہ25 دسمبر سے کوئٹہ بلاک میں شروع ہونے والی مہم بھی ملتوی کر دی گئی۔ یاد رہے پاکستان میں17 سے 19 دسمبر تک سال کی آخری پولیو مہم جاری ہے، تاہم پاکستان میں انسداد پولیو ٹیم کو دہشت گردوں نے ایک بار پھر اپنے اسلحے سے چپ کرانے اور پولیو مہم سے بالجبر پسپا ہونے کی بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے دنیا کو خرد دشمنی کا بہیمانہ پیغام دیا ہے۔طالبان کو لاکھ اپنے مذموم ایجنڈے پر ناز ہو لیکن ان نہتے ، پولیس و رینجرز سیکیورٹی سے محروم ،بے قصور محنت کش خواتین اور مرد رضاکاروں کو ہلاک اور زخمی کرکے انسانیت کے خلاف ایک منظم دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے ۔بربریت کا عالم یہ تھا کہ پشاور میں پندرہ منٹ کے اندر شہر کے مختلف علاقوں میں حملے کیے گئے ۔یہ حملے دہشت گردی کے وسیع تر تناظر میں ہو رہے ہیں ،بہانہ پولیو مہم کا ہو یا کسی اور باب میں انتہا پسند اور دہشت گردی پر کمر بستہ قوتوں نے وطن عزیز کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر رکھا ہے جس کا جواب بھی ارباب اختیار کو اسی شدت اور دو ٹوک انداز میں دینا چاہیے ۔ فوج اور دیگر فورسز نے دہشت گردی کے خاتمہ کی جدوجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے تاہم قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اپوزیشن کی اس احتجاجی صدا پر ارباب بست وکشاد کو توجہ دینی چاہیے کہ صحیح طریقے سے دہشت گردی کے قلع قمع کی حکمت عملی وضع کی جاتی تو دہشت گرد کب کے ٹھکانے لگائے جاچکے ہوتے۔
طالبان کا پولیو مہم کے خلاف ہرزہ سرائی اور گمراہ کن پروپیگنڈا کوئی نئی بات نہیں ، لیکن اب تو کراچی میں بھی محسود قبائل کے انتہا پسندوں کا پولیو رضاکاروں پر حملہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ حکام کو اصولاً ملک گیر پولیو مہم کی ابتدا کر نے سے پہلے خواتین اور مرد رضاکاروں کی زندگیوں کے تحفظ کے فول پروف اقدامات کرنے چاہیے تھے، اگر ایسا ہوتا تو ان سنگین وارداتوں کا سدباب ہوسکتا تھا ، دہشت گرد تو پولیوسمیت دیگر اہداف کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں مگر پولیو مہم سے مخاصمت طالبان کا ظالمانہ ہدف ہے، اس لیے کراچی سمیت ملک کے تمام حساس علاقوں میں انٹیلی جنس معلومات کی پیشگی شیئرنگ ناگزیر تھی۔ یہ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ اسی روز نوشہرہ مردان روڈ پر رسالپور اکیڈمی کے مین گیٹ پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے دستی بم سے حملہ کردیا چھ سیکیورٹی اہلکاروں سمیت انیس افراد شدید زخمی ہوگئے جنھیں سی ایم ایچ اسپتال رسالپور منتقل کر دیا گیا۔ منگل کی صبح اکیڈمی کے گیٹ نمبر 3پر نامعلوم موٹرسائیکل سوار افراد نے اچانک دستی بم سے حملہ کردیا ۔کراچی میں پہلا واقعہ گلشن بونیر میں پیش آیا جہاں مدیحہ اور فہمیدہ فائرنگ میں جاںبحق ہوئیں، فائرنگ کے اس واقعہ میں ایک میل ورکر بھی زخمی ہوا ، حملہ آور پیدل آئے تھے۔
اورنگی ٹاؤن اقبال مارکیٹ کے علاقے توری بنگش میں دوسرا واقعہ پیش آیا جہاں فائرنگ سے نسیم اختر جاں بحق اور اسرار زخمی ہو گیا۔ اتحاد ٹاؤن کے علاقے موچکو میں کنیزہ جاں بحق جب کہ ان کا ایک مرد ساتھی زخمی ہو گیا، چوتھے واقعے میں اتحاد ٹاؤن محمد خان کالونی میں فائرنگ میں شاہدہ اور ان کے ساتھی کامران زخمی ہو گئے۔ کراچی میں عالمی ادارہ صحت کا دفتر بھی بند کر دیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کراچی میں انسداد پولیو ٹیم پر حملے کے بعد مہم کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے صوبائی حکومتوں کو آگاہ کر دیا گیا ۔ ادھر پشاور میں یونین کونسل ڈاگ کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں کا قطرے پلانے والی ایک خاتون رضاکار14 سالہ فرزانہ کو ہلاک کرنا درد انگیز سانحہ ہے ۔اس واقعے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے پشاور سمیت صوبے بھر میں پولیو مہم ختم کرنے کی تجویز صوبائی حکومت کو دی ہے۔ تاہم محکمہ صحت کے مطابق انسداد پولیو مہم جاری رکھی جائے گی ۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کراچی اور پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں کے قتل کی انکوائری کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ حکام کو پولیو ٹیموں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے، انھوں نے ان واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے پولیو ٹیموں کی خدمات کو سراہا جب کہ صدر آصف علی زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بذریعہ ٹیلی فون ہدایت کی کہ پولیو کے حوالے سے تمام ٹیموں کو سیکیورٹی فراہم کی جائے، اس مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ایکشن پلان ترتیب دیا جائے اور ان واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار کیا جائے ۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کے علاقہ لانڈھی گلشن بونیر کے رہائشی محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے کچھ لڑکے چاہتے تھے کہ علاقے کے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلائے جائیں، ان کا کہنا تھا کہ امریکا ایک سازش کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ یہ بات انسداد پولیو مہم گلشن بونیر کی انچارج گلناز نے بتائی۔ وہ یونین کونسل نمبر ایک گلشن بونیر کی انسداد پولیو مہم کی ایریا انچارج ہیں جب کہ مقتولہ مدیحہ اس کی بھانجی اور فہمیدہ بھابھی تھیں۔ دونوں گذشتہ 2 ماہ سے انسداد پولیو مہم میں بطور ورکرز کام کر رہی تھیں۔ گلناز نے بتایا کہ2ماہ قبل علاقے کے کچھ لڑکے جن کا تعلق محسود قبیلے سے ہے وہ ان کے پیچھے لگے تھے ۔ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے چلائی جانے والی انسداد پولیو مہم کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بننے والی رضاکار خواتین کو یومیہ250 روپے معاوضہ ملتا تھا۔ یہ حقیر سا معاوضہ پولیو مہم کے دوران تمام رضاکاروں کو ادا کیا جاتا ہے جب کہ انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پولیو مہم کا انتظار کرتی ہیں کہ مہم شروع ہو تو ان کوساڑھے 7سو روپے مل جائیں گے۔
ہماری حکمرانوں سے استدعا ہے کہ وہ ان غریب مگر جرات مند خواتین کو خراج عقیدت پیش کریں جو شعبہ صحت اور پولیو مہم کی نڈر ''ملالائیں '' تھیں جنھوں نے ایک قومی اور عالمی کاز کے لیے اپنی جان دی ہے ۔ یہ اپنے گھر کی کفیل تھیں، زخمی مرد رضاکار بھی معاوضہ اور دست گیری کے مستحق ہیں۔پولیو مہم کے دوران 100فیصد رضاکاروں کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ یہ رضاکار محکمہ صحت کے ملازم ہوتے ہیں نہ عالمی ادارہ صحت انھیں اپنا ملازم سمجھتا ہے ۔ ان کے گھروں کا چولہا بہر حال کبھی بجھنا نہیں چاہیے مگر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بچوں کو پولیو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا قومی فریضہ ادا کرنے والی خواتین رضاکار دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں لیکن افسوس محکمہ صحت سمیت کسی بھی ادارے نے ان کے اہلخانہ کی کفایت کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا ۔ ادھر بعد از مرگ واویلا کے مصداق آئی جی سندھ نے انسداد پولیو ٹیم مہم کے ورکرز پر حملے اور فائرنگ کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو روایتی ہدایات جاری کیں جب کہ ضرورت موثر پیشگی حفاظتی اقدامات اور دہشت گردوں کو وقوعہ سے پہلے پکڑنے کی تھی ۔ اب بھی وقت ہے کہ قاتلوں کو بچ کر نہ جانے دیا جائے۔