وہ ایک شام
ہماری آستیں پر خون کے دھبے ابھی تازہ ہیں‘ سوکھے بھی نہیں۔
TANDO JAM:
ہر شام ہوئی صبح کو اک خواب فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
یگانہ کا یہ شعر کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان 'قوم' گروہ' معاشرے یا عہد کی زندگی میں کچھ شامیں ایسی ہوتی ہیں جو بے شمار صبحوں کے آنے جانے کے باوجود کسی نہ کسی حوالے سے یادوں میں ٹھہر سی جاتی ہیں اور ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ اجتماعی حوالے سے ہم پاکستانیوں کی زندگیوں میں بھی جو شامیں اس تخصیص کی حامل ہیں ان میں سے ایک شام 16 دسمبر 1971ء کی وہ شام ہے جس کے درد اور سنگینی کی مثال کسی حد تک جوش کے اس شعر سے دی جا سکتی ہے کہ
جہاں سے جھٹپٹے کے وقت اک تابوت اٹھا ہو
قسم اس شب کی جو پہلے پہل اس گھر میں آتی ہے
اکتالیس برس پہلے کی گزری ہوئی اس شام کو اس بار تقریباً تمام نیوز چینلز پر خصوصی پروگراموں کے ذریعے یاد کیا گیا ہے جو ایک اچھی بات ہے کہ بقول شخصے جو قومیں اپنی تاریخ کو یاد نہیں رکھتیں ان کا جغرافیہ ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے اور ہم تو اس خوفناک تجربے سے گزر بھی چکے ہیں ... میرا ارادہ اس کالم کو سولہ دسمبر ہی کی اشاعت کے لیے لکھنے کا تھا مگر بوجوہ اس میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ اس دوران میں، میں نے اپنی/ اپنے شعری کلیات میں اس زمانے کی نظموں پر ایک نظر ڈالی تو دسمبر 1971ء میں لکھی گئی تین اور اس کے تقریباً پانچ برس بعد کی ایک نظم ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم دیگر پیوست نظر آئیں پوری پوری نظمیں درج کرنے کی تو گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میں پہلی تین نظموں کے اقتباسات کے بعد(جو کم و بیش ایک ہی مہینے کے اندر لکھی گئی تھیں) آخری نظم گلیڈی ایٹرز مکمل شکل میں لکھ رہا ہوں کہ یہ مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر مربوط ہے کہ اس کا حق اسے ایک ساتھ پڑھنے ہی میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان چار شعری 'اظہاریوں' کو پڑھنے کے بعد آپ کو کسی مزید تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی اور آپ اس شام کو اپنے ذہن کے دریچے میں اسی طرح سے صاف' واضح اور موجود دیکھ سکیں گے جیسا کہ اس وقت میں دیکھ رہا ہوں۔
یہ پہلا اقتباس نظم ''بستیاں راکھ ہوئی ہیں لیکن...'' سے ہے جو سقوط ڈھاکا سے کچھ عرصہ قبل لکھی گئی تھی۔
بستیاں راکھ ہوئی ہیں لیکن
کس پہ الزام دھریں
جلنے والوں میں ہی شامل ہیں جلانے والے
مرنے والے ہی جہاں مارنے والے ہوں وہاں
کون بتلائے' کہاں ظلم ہوا' کس پہ ہوا' کس نے کیا؟
تیغ بردوش ہیں سب زخم دکھانے والے
سرخیٔ خوں سے مبرا کوئی دامان نہیں
اب یہاں ظالم و مظلوم کی پہچان نہیں
دوسری نظم کا عنوان ''شکست انا'' اور یہ سولہ اور سترہ دسمبر1971ء کی درمیانی رات میں لکھی گئی تھی۔
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سل نے مرے دل کی جگہ پائی ہے
ایسے لگتا ہے کہ جیسے مرا معمورۂ جاں
کسی سیلاب زدہ گھر کی زبوں حالی ہے
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انا کا شیشہ
مرا پندار مرے دل کے لیے گالی ہے
وحشت جاں کی طرف دیکھ کے یوں لگتا ہے
موت اس طرح کے جینے سے بھلی ہے جیسے
داغ رسوائی چھپائے سے نہیں چھپ سکتا
یہ تو یوں ہے کہ جبیں بول رہی ہے جیسے
اور پھر سال کی آخری شام کے ہنگامے میں لکھا گیا یہ ''فریب خوردہ نسل کا عہد نامہ'' کہ
ہم گنہگار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے جہاں تاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیںکہیں' خواب آنکھوں کے خوش بو قصیدے لکھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا' تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں' ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے ہم وہ سالار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
ہم گنہگار ہیں اے زمین وطن پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی
اب محافظ نما دشمنوں کے علم
ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم
تیرے دامن پہ رسوائیوں کے نشاں
آنسوؤں کے سمندر سے دھوئیں گے ہم
آخری مرتبہ اے متاع نظر
آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم
لیکن اس قسم کے چند ہی برس بعد لکھی گئی یہ نظم ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو مل کر ڈھونڈنا ہے۔
ہم اپنے قتل ہونے کا تماشا دیکھتے ہیں
تو اپنی تیز ہوئی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں
ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا ''میں نہیں تھا''
میں تو زندہ ہوں ... یہاں ... دیکھو
میری آنکھیں' میرا چہرہ' میرے بازو' سبھی کچھ تو سلامت ہے!
ابھی کل ہی کا قصہ ہے' سر مقتل ہمارے دست و بازو کٹ رہے تھے
پر ہم اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے ہوئے' ٹی وی کے قومی نشریاتی رابطے پر
سارے منظر دیکھتے تھے اور یہ کہتے تھے
''نہیں یہ ہم نہیں ہیں''
ہماری آستیں پر خون کے دھبے ابھی تازہ ہیں' سوکھے بھی نہیں۔
ہر شام ہوئی صبح کو اک خواب فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی
یگانہ کا یہ شعر کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان 'قوم' گروہ' معاشرے یا عہد کی زندگی میں کچھ شامیں ایسی ہوتی ہیں جو بے شمار صبحوں کے آنے جانے کے باوجود کسی نہ کسی حوالے سے یادوں میں ٹھہر سی جاتی ہیں اور ہمیشہ تازہ رہتی ہیں۔ اجتماعی حوالے سے ہم پاکستانیوں کی زندگیوں میں بھی جو شامیں اس تخصیص کی حامل ہیں ان میں سے ایک شام 16 دسمبر 1971ء کی وہ شام ہے جس کے درد اور سنگینی کی مثال کسی حد تک جوش کے اس شعر سے دی جا سکتی ہے کہ
جہاں سے جھٹپٹے کے وقت اک تابوت اٹھا ہو
قسم اس شب کی جو پہلے پہل اس گھر میں آتی ہے
اکتالیس برس پہلے کی گزری ہوئی اس شام کو اس بار تقریباً تمام نیوز چینلز پر خصوصی پروگراموں کے ذریعے یاد کیا گیا ہے جو ایک اچھی بات ہے کہ بقول شخصے جو قومیں اپنی تاریخ کو یاد نہیں رکھتیں ان کا جغرافیہ ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے اور ہم تو اس خوفناک تجربے سے گزر بھی چکے ہیں ... میرا ارادہ اس کالم کو سولہ دسمبر ہی کی اشاعت کے لیے لکھنے کا تھا مگر بوجوہ اس میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ اس دوران میں، میں نے اپنی/ اپنے شعری کلیات میں اس زمانے کی نظموں پر ایک نظر ڈالی تو دسمبر 1971ء میں لکھی گئی تین اور اس کے تقریباً پانچ برس بعد کی ایک نظم ایک ہی زنجیر کی کڑیوں کی طرح باہم دیگر پیوست نظر آئیں پوری پوری نظمیں درج کرنے کی تو گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے میں پہلی تین نظموں کے اقتباسات کے بعد(جو کم و بیش ایک ہی مہینے کے اندر لکھی گئی تھیں) آخری نظم گلیڈی ایٹرز مکمل شکل میں لکھ رہا ہوں کہ یہ مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر مربوط ہے کہ اس کا حق اسے ایک ساتھ پڑھنے ہی میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان چار شعری 'اظہاریوں' کو پڑھنے کے بعد آپ کو کسی مزید تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں ہو گی اور آپ اس شام کو اپنے ذہن کے دریچے میں اسی طرح سے صاف' واضح اور موجود دیکھ سکیں گے جیسا کہ اس وقت میں دیکھ رہا ہوں۔
یہ پہلا اقتباس نظم ''بستیاں راکھ ہوئی ہیں لیکن...'' سے ہے جو سقوط ڈھاکا سے کچھ عرصہ قبل لکھی گئی تھی۔
بستیاں راکھ ہوئی ہیں لیکن
کس پہ الزام دھریں
جلنے والوں میں ہی شامل ہیں جلانے والے
مرنے والے ہی جہاں مارنے والے ہوں وہاں
کون بتلائے' کہاں ظلم ہوا' کس پہ ہوا' کس نے کیا؟
تیغ بردوش ہیں سب زخم دکھانے والے
سرخیٔ خوں سے مبرا کوئی دامان نہیں
اب یہاں ظالم و مظلوم کی پہچان نہیں
دوسری نظم کا عنوان ''شکست انا'' اور یہ سولہ اور سترہ دسمبر1971ء کی درمیانی رات میں لکھی گئی تھی۔
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سل نے مرے دل کی جگہ پائی ہے
ایسے لگتا ہے کہ جیسے مرا معمورۂ جاں
کسی سیلاب زدہ گھر کی زبوں حالی ہے
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انا کا شیشہ
مرا پندار مرے دل کے لیے گالی ہے
وحشت جاں کی طرف دیکھ کے یوں لگتا ہے
موت اس طرح کے جینے سے بھلی ہے جیسے
داغ رسوائی چھپائے سے نہیں چھپ سکتا
یہ تو یوں ہے کہ جبیں بول رہی ہے جیسے
اور پھر سال کی آخری شام کے ہنگامے میں لکھا گیا یہ ''فریب خوردہ نسل کا عہد نامہ'' کہ
ہم گنہگار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
ہم نے نظموں میں تیرے چمکتے ہوئے بام و در کے جہاں تاب قصے لکھے
پھول چہروں پہ شبنم سی غزلیںکہیں' خواب آنکھوں کے خوش بو قصیدے لکھے
تیرے کھیتوں کی فصلوں کو سونا گنا' تیری گلیوں میں دل کے جریدے لکھے
جن کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں' ہم نے تیری جبیں پر وہ لمحے لکھے
جو تصور کے لشکر میں لڑتے رہے ہم وہ سالار ہیں
اے زمین وطن ہم گنہگار ہیں
ہم گنہگار ہیں اے زمین وطن پر قسم ہے ہمیں اپنے اجداد کی
اب محافظ نما دشمنوں کے علم
ان کے کالے لہو سے بھگوئیں گے ہم
تیرے دامن پہ رسوائیوں کے نشاں
آنسوؤں کے سمندر سے دھوئیں گے ہم
آخری مرتبہ اے متاع نظر
آج اپنے گناہوں پہ روئیں گے ہم
لیکن اس قسم کے چند ہی برس بعد لکھی گئی یہ نظم ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو مل کر ڈھونڈنا ہے۔
ہم اپنے قتل ہونے کا تماشا دیکھتے ہیں
تو اپنی تیز ہوئی سانس کے کانوں میں کہتے ہیں
ابھی جو ریت پر لاشہ گرا تھا ''میں نہیں تھا''
میں تو زندہ ہوں ... یہاں ... دیکھو
میری آنکھیں' میرا چہرہ' میرے بازو' سبھی کچھ تو سلامت ہے!
ابھی کل ہی کا قصہ ہے' سر مقتل ہمارے دست و بازو کٹ رہے تھے
پر ہم اپنے گھروں میں مطمئن بیٹھے ہوئے' ٹی وی کے قومی نشریاتی رابطے پر
سارے منظر دیکھتے تھے اور یہ کہتے تھے
''نہیں یہ ہم نہیں ہیں''
ہماری آستیں پر خون کے دھبے ابھی تازہ ہیں' سوکھے بھی نہیں۔