جلسوں میں لوٹ مار مگر کیوں

عوام بے بسی کے عالم میں سب دیکھ رہے ہیں گیس نہ لیں تو چولہا کیسے جلے۔ بجلی نہ لیں تو ایک دوسرے کو دیکھیں کیسے۔


Abdul Qadir Hassan December 19, 2012
[email protected]

KARACHI: پاکستانی قوم نے اپنے خون پسینے سے جو کچھ اور جتنا کچھ کمایا تھا عوام کی پارٹی نے گزشتہ تین چار برس کی حکومت میں کسی نہ کسی بہانے ان سے نکلوا لیا ہے اب بحث یہ چل رہی ہے کہ پاکستان میں ہر روز اتنے ارب کی کرپشن ہوتی ہے لیکن یہ بحث اپنی جگہ باقی ہے کہ حکمرانوں نے اپنے آپ کو بھی ارب پتی اور نہ جانے کیا کیا بنوا لیا ہے۔ کوئی رشوت ستانی میں نوکری سے نکل رہا ہے اور کوئی زیر مقدمہ پیشیاں بھگت رہا ہے یا زیر تفتیش ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے اپنا کام رواں دواں اور جاری ہے۔

مثلاً بیس روپے قیمت کی گیس اگر 92 روپے میں بک رہی ہے اور یہ حساب کتاب سپریم کورٹ نے لگایا ہے تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق تو تب پڑے گا جب کوئی ان لوگوں کی جیب سے اس رشوت کی وصولی کرے گا۔ عوام بے بسی کے عالم میں سب دیکھ رہے ہیں گیس نہ لیں تو چولہا کیسے جلے۔ بجلی نہ لیں تو ایک دوسرے کو دیکھیں کیسے۔ اللہ کی رحمت ہوئی اور ملک میں بارشیں ہو گئیں ورنہ آپ کو کیا معلوم ہے کہ پرندے بھی پیاس سے مر رہے تھے۔ میں نے بڑے خوبصورت پرندے سڑکوں کے قریب جہاں کبھی پانی جمع ہوا کرتا تھا وہاں مرے ہوئے دیکھے ہیں۔ مضطرب عوام حکمرانوں سے کسی زیادتی کا بدلہ نہیں لے سکتے، ہم ایک ایسے نظام حکومت اور سوسائٹی میں رہتے ہیں جہاں زیادتی اور ناانصافی قبول کرنی پڑتی ہے۔ پولیس اور عدالت کے پاس جائیں تو وہاں ایک اور نا انصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں چوری ڈاکے اور بدامنی اس لیے بڑھ رہی ہے کہ مظلوم اور مقہور لوگ قہر درویش برجان درویش والا درویش نہ بنیں تو کیا کریں مگر اب وہ اس سے تنگ آ گئے ہیں۔

ہمارے لیڈروں اور سیاستدانوں کے پیروکار اور ووٹر ان دنوں حسب توفیق تماشے دکھا رہے ہیں۔ ایک بڑا جلسہ ہوا جس میں حاضرین جلسہ نے تقریریں سنیں یا نہ سنیں وہ کرسیاں اور دریاں اٹھا کر بھاگ گئے۔ اسٹیج پر بیٹھے ان کے لیڈر اپنے لاکھوں ساتھیوں کا منہ دیکھتے رہ گئے، وہی لاکھوں ساتھی جن کے ہمراہ انھوں نے کسی پارٹی میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ انھوں نے لیڈر کی ہر چیز کو اپنا سمجھا اور لے اڑے خواہ یہ کرائے کی تھی تب بھی انھیں تو لیڈر کے گھر سے ملی تھی۔ یہ جلسہ آنے والے جلسوں کا پیش خیمہ اور ایک نمونہ بن گیا۔ اس کے بعد ملک بھر میں جو بھی جلسہ ہوتا ہے وہ سلامت نہیں جاتا۔

جتنا کچھ جس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے وہ اسے لے اڑتا ہے چنانچہ ٹی وی والے ایک آدھ کیمرہ جلسے کے حاضرین کے لیے الگ سے لے جاتے ہیں جو حاضرین کی اس لوٹ مار کو ریکارڈ کرتا ہے اور قوم کو دکھاتا ہے اس دعوے کے ساتھ کہ کیمرے کی آنکھ جھوٹ نہیں بولتی سچ دکھاتی ہے اس لیے آپ بھی جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ سچ ہے ایک واقعہ ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جلسوں میں بدنظمی تو ہوتی رہتی ہے جلسوں کو الٹایا جاتا ہے اور برصغیر کی سیاسی سرگرمیوں کا یہ ایک حصہ رہا ہے کہ کبھی جلسہ گاہ میں بھینس چھوڑ دی'کبھی سانپ سانپ کی آواز لگا دی لیکن جلسوں کو الٹانے کے بجائے جلسوں کو لوٹنے کا سلسلہ اب شروع ہوا ہے اور یہ اس ناانصافی کا انتقام ہے جو ان حکمران سیاستدانوں کے ہاتھوں عوام کے ساتھ روا رکھی گئی ہے۔ ایک کرسی لوٹ کر لے جانے سے کسی گھر کا کوئی مالی مسئلہ حل نہیں ہو جاتا لیکن اندر کا غصہ تو نکلتا ہے اور بعض اوقات اتنا بھی بہت ہوتا ہے۔

جلسوں کا سازو سامان لوٹنا اپنی جگہ اب کھانا لوٹنے کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے۔ لیڈر اپنے بعض جلسوں میں کھانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں اور سامعین جلسہ کی نظریں اپنے لیڈروں پر نہیں دیگوں پر ہوتی ہیں کہ کہاں رکھی ہیں اور کس حال میں پڑی ہیں۔ تیار ہیں یا کچھ کسر باقی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک جلسہ میں جب لیڈروں کی تقریروں سے گونج رہا تھا تو حاضرین دیگوں کو دیکھ رہے تھے اور ان میزوں کو جن پر برتن لگائے جا رہے تھے اس دوران کسی شرارتی یا ناراض کارکن نے اپنا بدلہ یوں لیا کہ دوران جلسہ آواز لگا دی کھانا کھل گیا ہے۔ یہ خوش کن نعرہ سنتے ہی حاضرین دیگوں اور دیگچوں پر ٹوٹ پڑے۔ پہلے انھوں نے ڈونگے اور پلیٹیں بھر لیں پھر دیگیں اٹھا کر پارٹی کے جلسے میں لہراتے ہوئے پرچموں کو اتارا اور ان میں چاول باندھ لیے اور یہ چھوٹی بڑی گٹھڑیاں لے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ رپورٹروں نے بتایا کہ اس لوٹ مار کے دوران بھی جلسہ جاری رہا کیونکہ پروگرام کے مطابق جلسہ کے اختتام پر کھانا پیش خدمت کرنا تھا لیکن کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ عقلمندی اسی میں تھی کہ موقع ہاتھ سے جانے نہ پائے اور جتنا کچھ قابو میں آتا ہے وہ لوٹ لیا جائے۔ لوٹنے کا اپنا ہی ایک مزا ہے۔

قارئین کرام بتائیں کہ اس ماحول میں ووٹر خواتین و حضرات جس موڈ میں ہیں کیا وہ الیکشن والا موڈ ہے لیکن ارباب حل و عقد کی نیت اگر درست ہے تو اس ذہنی کیفیت پر کسی تبلیغ سے نہیں بلکہ کسی دوسرے زبردست قسم کی مصروفیت سے ہی قابو پایا جا سکتا ہے اور یہ ہے الیکشن کا اعلان اور اس کی تیاری، اس طرح لیڈر حضرات کچھ خرچ کریں گے مزید کھانا پینا شروع ہو گا کارکن کسی کام میں لگ جائیں گے اور ان کے جذبات اور ناراضگیوں کا رخ بدل جائے گا وہ اپنا غصہ کسی پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر اور کسی کی حمایت کر کے اس کی کسی نیکی کا بدلہ دیں گے۔ میرے خیال میں خراب حالات اور وسیع بدامنی کا علاج الیکشن کی سرگرمیوں کا آغاز ہے۔ بے چین اور مضطرب قوم کو کسی زبردست ہوشربا سرگرمی کی ضرورت ہے لیکن مجھے شبہ ہے کہ اس ملک کی بعض بڑی پارٹیاں الیکشن نہیں کچھ اور ہی چاہتی ہیں۔ ان کے قائدین کے ذاتی مسئلے حل ہیں اور یہ ملک معاف کیجیے ان کے لیے ایک کھیل کود کا میدان یعنی بازیچہ اطفال ہے شاید اس لیے وہ اپنے بچوں کو بھی سیاست میں آگے لا رہے ہیں اور ملک کو تماشا بنا لیا ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ چند ہی دنوں میں ایسی آوازیں اور نعرے سنیں گے جن میں سے الیکشن نہیں نکلے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں