ملائیشیا مزیدکچھ باتیں
۔کافی بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے مقامی خواتین سے شادی کرلی ہے اورSpouse visaپر ملائیشیا میں قیام پذیر ہیں۔
حالیہ دورہ ملائیشیا کے دوران وہاں کی بعض اہم سیاسی وسماجی شخصیات کے علاوہ پاکستان کے ہائی کمشنر ہزہائی نس مسعود خالد،پریس اتاشی حامد رضا خان وٹو سمیت ہائی کمیشن کے دیگرذمے داروں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ان چند پاکستانیوں سے بھی گفتگوکا موقع ملا، جو بسلسلہ روزگار ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ان ملاقاتوں میں ملائیشیا کی تیز رفتار ترقی کے علاوہ پاکستانیوں کو درپیش مشکلات اور بعض پاکستانیوں کے کرتوتوں کے بارے میں آگہی حاصل ہوئی۔
پچھلی جمعرات کو جب ہمارا اظہاریہ ''چند روز ملائیشیا میں'' شایع ہوا،توہائی کمیشن کے پریس اتاشی حامد رضاخان وٹو نے ہمیں کھانے پر مدعوکیا۔ وہاں کمیونٹی ویلفیئرکونسلرچوہدری ندیم اشرف،کمرشل کونسلر وجہیہ اللہ کنڈی اور میڈیاآفیسرآنسہ سلوا احمد موسانی سے ملاقات ہوئی ۔ہائی کمشنر ہزہائی نس مسعود خالد فارن سروس کے سینئر اور انتہائی تجربہ کارافسر ہیں۔ ان کا تبادلہ چین ہوگیا ہے اور وہ اگلے ہفتے اپنی نئی ذمے داریاں سنبھالنے چین روانہ ہونے والے ہیں۔مسعود خالد گو کہ الوداعی ملاقاتوں میں مصروف تھے۔
مگر اس کے باوجود انھوں نے ہمیں اچھا خاصا وقت دیا ۔ان کے ساتھ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال، خارجہ پالیسی میں پائے جانے والے سقم اور پاکستانی سفارت خانوں کی کارکردگی پر گفتگو ہوئی۔ایک ماہر ڈپلومیٹ ہونے کے ناتے انھوں نے سفارت خانوں کی کارکردگی پر ہماری تنقید کا بھر پور انداز میں دفاع کیا۔البتہ انھوں نے یہ تسلیم کیاکہ خارجہ پالیسی میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔یہ بھی معلوم ہواکہ وجہیہ اللہ کنڈی جوDMG گروپ کے افسرہیں، وہ بھی چند روز میں پاکستان واپس جاکر سکھر کے ڈپٹی کمشنرلگنے والے ہیں۔
حامد رضاخان وٹو ،سابق وفاقی وزیر یاسین وٹو کے قریبی عزیز اور مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔ان کا تعلق انفارمیشن سروسز سے ہے، وہ اپنے کام میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ خاصے فعال بھی ہیں۔ انھیں کتب بینی کا شوق ہے اور اچھا علمی وادبی ذوق رکھتے ہیں۔انھوں نے ہمیں بنگلہ دیش کے ایک سیاستدان شیخ شوکت حسین نیلو کی کتاب ''پاکستان سے بنگلہ دیش تک'' دی۔ یہ کتاب مصنف کے مطابق اس کے 43سالہ سیاسی مشاہدے پر مبنی ہے۔وٹوصاحب کے دفتر ہی میں ان کی ایک ماتحت میڈیا افسر سلوا احمد سے بھی ملاقات ہوئی، جو تین برس کی عمر میں کراچی سے اپنے والدین کے ساتھ کوالالمپور آئی تھیں ۔انھیں انگریزی اور اردو کے علاوہ ملائی زبان پر بھی خاصا عبور حاصل ہے۔
یہی سبب ہے کہ عام طور پر وہ ہائی کمیشن میں ہونے والی تقریبات میں مترجم کی ذمے داریاں اداکرنے کے ساتھ مختلف پروگراموں کی نظامت بھی کرتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کچھ روز قبل وفاقی وزیر ثناء اللہ زہری ملائیشیا تشریف لائے،توان کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی گئی، جس میں ملائیشیا کے وزیر تجارت بھی شریک ہوئے۔ زہری صاحب کی انگریزی کمزور ہونے کی وجہ سے انھیں ترجمہ کی ذمے داری دی گئی۔انھوں نے اردو سے ملائی میں براہ راست ترجمہ کرکے حاضرین کو حیران کردیا ۔تقریب کے اختتام پر شرکاء زہری صاحب کو چھوڑ کو ان کی بابت جاننے کی کوشش کرتے رہے۔
کمیونٹی ویلفیئرکونسلرچوہدری ندیم اشرف سے ہمیں ملائیشیا میں روزگار کے لیے گئے ہوئے پاکستانیوں کے بارے میں اچھی خاصی معلومات حاصل ہوئیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت28ہزارکے قریب مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی محنت کش ملائیشیا میںقانونی طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔یہ کارکن جنھیںجنرل ورکرزکہاجاتا ہے، تین سال کے کنٹریکٹ پر یہاں آتے ہیں، جس میں مزید تین سال کااضافہ ممکن ہوتا ہے۔ایسے تمام افرادکا مکمل ریکارڈ ہائی کمیشن کے پاس ہوتا ہے۔
لیکن کئی ہزار ایسے افراد بھی ہیں جو مختلف غیر قانونی ذرایع سے ملائیشیا پہنچتے ہیں اور ان کا ریکارڈ ہائی کمیشن کے پاس نہیں ہے۔ایسے لوگ کم اجرت پر مختلف جگہوں پر کام کررہے ہیں اور پکڑے جانے پر پولیس کو رشوت وغیرہ دے کر کام چلاتے ہیں۔ان میں زیادہ تر باورچی اور ہوٹلوں میں بیراگیری کرنے والے شامل ہیں۔کافی بڑی تعداد میں پاکستانیوں نے مقامی خواتین سے شادی کرلی ہے اورSpouse visaپر ملائیشیا میں قیام پذیر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آیندہ دو برسوں کے دوران محنت کشوں کی مختلف کیٹیگری میں75ہزار ویزے جاری ہونے کی توقع ہے۔
ملائیشیا میں پاکستانی کھانے خاصے مقبول ہیں۔کوالالمپور میںکئی پاکستانی ریستوران ہیں،جن میں خاص طورپر بلوچ، ڈیرہ پاکستان ،مہران اور لاہور ریستوران خاصے مقبول ہیں۔ان کی شہر میں کئی کئی شاخیں ہیں۔لاہور سے تعلق رکھنے والے فہیم چغتائی اورسیدہ عابدہ حسین کے قریبی عزیزسید عادل حسن شاہ نے نواس ماجو (اللہ کی رحمت)کے نام سے پاکستانی ریستوران کھولاہے، جہاں کلچے ، پراٹھے اور لسی خاص سوغات ہیں۔وہیں ہماری ملاقات سید منیرحسین شاہ سے ہوئی،جوسیدعادل شاہ کے چھوٹے بھائی ہیں اور اسٹیٹ ایجنٹ کے طور پرکام کرتے ہیں۔جب انھوں نے بتایاکہ وہ HRCPکے آئی اے رحمان صاحب کی بہن کے داماد ہیں، تو ان سے مزید قربت بڑھ گئی۔ان کے توسط سے ان پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی،جنہوں نے حالیہ دو تین برسوں کے دوران پاکستان کے مخدوش حالات کی وجہ سے اپنا کاروبار پاکستان سے ملائیشیا منتقل کیا ہے۔ان میں اکثریت کراچی سے تعلق رکھنے والے صنعتکاروں اور تاجروں کی ہے۔
اقبال ناتھانی کراچی میں تعمیرات کے شعبے سے وابستہ تھے،جب انھیں بھتے کی پرچیاں موصول ہونے لگیں تو وہ اپناکاروبار لپیٹ کر اہل خانہ کے ساتھ ملائیشیا منتقل ہوگئے۔وہاں انھوں نے پلاسٹک کا دانہ تیارکرنے کا کارخانہ لگایا ہے۔منظر فرید کا کراچی میں منگھوپیر روڈ پرماربل کا کارخانہ ہے۔ آئے دن کے ہنگاموں اور بھتہ مافیاکی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر انھوں نے کوالالمپور میں فرنیچراور ماربل ڈیکوریشن اشیاء کی دکان کھول لی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دانشور اور سیاسی رہنماء ان کے بارے میں چاہیے کچھ ہی کہیں، ہم تاجر پرویز مشرف کو بہت یاد کرتے ہیں،کیونکہ ان کے آٹھ سالہ دور میں کراچی میں خاصا امن تھا اور کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ بن قاسم کے قریب ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں لگی فیکٹریاں اس دور میں کبھی بند نہیں ہوئیں نہ اس علاقے میں امن وامان کی کوئی صورتحال پیداہوئی۔مگر اب چار برسوں سے اس علاقے میں بھی صنعتکار اورکاروباری لوگوں کو اغواء برائے تاوان اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہے،جس کی وجہ سے کاروباری لوگ خاصے پریشان ہیں۔ان کے مطابق 80فیصد لوگوں نے کراچی میں اپنا کاروبار بند کردیا ہے۔ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ زیادہ ترلوگ بنگلہ دیش منتقل ہوئے ہیں ،جب کہ دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سری لنکا اورملائیشیا آئی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ ملائیشیا میں کاروبار کا روشن مستقبل ہے اور یہاں وہ خاصے سکون کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایک سازش کے تحت پاکستان میں صنعتوںکو تباہ کیا جا رہا ہے۔
2005ء تک ملائیشیا پہنچنے پر ویزا لگتا تھا، مگر 2006ء سے ویزا لے کر جانا پڑتا ہے۔ سید منیر حسن کے مطابق اس کے کئی اسباب ہیں۔اول،پاکستان کی کمزورخارجہ پالیسی۔دوئم غیر قانونی طور پر آنے والوں کی بھرمار اور سوئم،ملائیشیا میں داخل ہونے کے بعد پاسپورٹ ضایع کرکے مستقل رہنے کی کوشش شامل ہیں۔اس کے علاوہ پاکستانی ہائی کمیشن بھی پاکستانیوں کی اس طرح داد رسی نہیں کرتا جس طرح کی بھارت یا کسی دوسرے ملک کے سفارت خانے اپنے شہریوں کی مدد کرتے ہیں۔ان کا موقف تھا کہ دیگر ممالک سے آنے والے اپنے ہم وطنوں کی مدد کرتے ہیں، جب کہ پاکستانی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ فراڈ اور دھوکہ دہی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ بیشترغیر قانونی تارکین وطن یہاں غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوکرملک کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔انھوں نے بتایاکہ انھیں اطلاعات مل رہی ہیں کہ ملائیشیا کی حکومت پاکستانیوں کے حوالے سے اپنی ویزا پالیسی مزید سخت کرنے والی ہے۔
جس کے باعث روزگار کے لیے اپنا وطن چھوڑکرآنے والوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا اور کم آمدنی پرکام کرنے والے پاکستانی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔مگر پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ اس سلسلے میں کوئی واضح اور مربوط پالیسی مرتب کرنے میں ابھی تک ناکام ہے۔ واپسی پر دوران پرواز جہاز کے عملہ کے ایک رکن سے گفتگو کے دوران یہ انکشاف ہواکہ قومی ائیر لائن کے عملہ کے بعض اہلکار بھی اپنے ہم وطنوں کو ملائیشیا کا ویزا دلانے کا جھانسا دے کر ان سے بھاری رقم اینٹھ رہے ہیں اور سادہ لوح مزدور ان کے جھانسے میں آکر اپنی جمع شدہ پونجی لٹارہے ہیں۔یہ صورتحال بھی خاصی تشویشناک ہے اور قومی ائیر لائن کے ذمے داروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
بہر حال ہمارا یہ حالیہ دورہ خاصا معلوماتی رہا اور بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔لیکن پاکستانیوںکی حالت زار دیکھ کر خاصا دکھ ہوا جن کی اکثریت خراب حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔لیکن اپنے وطن میں روزگار کے ذرایع سکڑنے اور امن وامان کی صورتحال مخدوش ہونے کی وجہ سے لوگ ادھر ادھر جانے پر مجبور ہیں۔ مگر دیار غیر میں بھی ان کے سفارت خانے ان کی داد رسی اور مسائل کے حل میں تعاون نہیں کر رہے،جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ خدا ہمارے رہنمائوں اور پالیسی سازوں کو توفیق دے کہ وہ عوام اور ترقی دوست پالیسیاں مرتب کرسکیں ۔