انفرادیت خاندانی نظام میں نقب
والدین کہتے ہیں کہ ’’ہمارے بچے ہماری نہیں سنتے‘‘تو یہ ایک دور، ایک زمانے اور ایک نسل کا نوحہ اور رائیگانی کا دکھ ہے۔
جب بچے اڑان بھرنا سیکھ جاتے ہیں تو نت نئے تجربات کا نشہ انھیں مخمور کر دیتا ہے، بسیط فضائیں نئی توانائی گود بھرنے کو بے تاب ہوتی ہے، ایسے جولانیوں بھرے موسم میں عمر رسیدہ شکستہ ہڈیوں والے والدین سے ایک فاصلہ رونما ہو جانے کا ستم گویا وقت کی ایک چال ٹھہرتی ہے، جسے نئے لفظوں میں جنریشن گیپ کا نام دیا جاتا ہے۔ نئے پرندے، نئے وقت اور نئی پرواز کی لگن میں اس قدر مگن اور بے حال ہوئے جاتے ہیں جنھیں رستی ہوئی توانائی کے حاصل تجربے سے کچھ خاص سروکار نہیں ہوتا۔ گزرے وقت اور گئے زمانے کا طعنہ ایک طرح سے ایک زندگی کو رد کرنے کا تحقیر بھرا رویہ ہوتا ہے، خون کی گرمی جس کی کربناکی کا احساس بھی نہیں ہونے دیتی۔
سر کے بل دنیا میں وارد ہونے والا انسان ساری عمر زندگی کی دھوپ میں بگٹٹ دوڑتا رہتا ہے اور اس کڑی مشقت میں سر دھڑ کی بازی لگانے والے انسان کے حصے میں کیا آتا ہے؟ محض نسلوں کا تصادم اور عدم برداشت و قبولیت کا رویہ! جب کہ اپنی اپنی جگہ سب ہی وقت کے خلا میں تیر رہے ہیں جہاں نہ کوئی ماضی ہے اور نہ حال، مگر بصیرت کا اندھیرا بڑی ظالم شے ہے جو انسانی انا کو نہ صرف مجسم کر دیتا ہے بلکہ متحرک بھی اور پھر اس کے بعد انسانی شعور کا ہاتھ فطرت کے لمس سے محروم ہو جاتا ہے، یہ فضا کے ہاتھوں چاروں خانے چت ہوتا ہے مگر وہی سر کے بل گرنے کے بعد ! جب شاید عقل بھی ٹھکانے آ بیٹھتی ہو مگر دیر ہو جاتی ہے کہ عالم اطراف میں وقت کی گردش کا چلن نہیں ہوتا۔سچائی کیا ہے؟ کیا تجربہ اپنا اپنا ہوتا ہے۔
کیا گزرے ہوئے وقت کی کوئی ٹھوس حقیقت نہیں ہوتی؟ کیا نسلوں کے تجربات کی کڑیاں آپس میں جوڑنا ایک لا حاصل عمل ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر انسان کی اس بے اصل اور بے نسل پود کا انسانیت پر کیا احسان، اس کے تو خمیر میں ہی خود غرضی کی پھپھوندی لگی ہوئی ہے جسے ترقی کی زبان میں سیلف میڈ کہا جاتا ہے معاشرے کی یہ اکائی کتنی ویران اور تنہا ہے یہ تو تصور بھی اتنا ہولناک ہے جس کی انسانی تہذیب متحمل نہیں ہو سکتی۔ مگر انسان مادی ترقی کے زعم میں اس کا بار اٹھا رہا ہے۔ بظاہر مطمئن بھی نظر آتا ہے لیکن اس ترقی یافتہ انسان کی آنکھیں تو دیکھیں جیسے کسی بلیک ہول کے مشابہ ہیں جہاں انسانیت کے شہاب ثاقب گرتے جھڑتے رہتے ہیں۔
انسانی نسل کی مثال جادوگر کے اس رومال کی سی ہے جو وہ گرہ در گرہ منہ سے اگلے جا رہا ہے، ہم سب تسلسل کے عمل کا ایک حصہ ہی تو ہیں۔ انسانی تمدن کو اسی وقت مہذب مانا جا سکتا ہے جہاں افراد معاشرہ اکائیوں کے با وصف ایک مربوط نظام زندگی سے بہم منسلک ہوں، اس مربوط نظام زندگی کے عملی نمونے کو خاندان کہا جا سکتا ہے جو اصولی طور پر نہ صرف انسان کی تربیت کا اولین ادارہ کہلایا جا سکتا ہے بلکہ وسیع تناظر میں اسے معاشرے کی مختصر تصویر اور اکائی بھی سمجھنا چاہیے، جو معاشرے انسان کو محض ایک مادی پرزہ بنانے پر مضر ہیں وہ ''انفرادیت کے تصور'' سے خاندان کے نظام میں نقب لگاتے ہیں، اس نقب زنی کے اثرات انسانی معاشروں میں رفتہ رفتہ بالغ انسان کے حقوق، انفرادی آزادی، بے بی ڈے کیئر سینٹرز اور اولڈ ہومز کی صورت میں ظاہر ہو چکے ہیں۔ ہم بھی ایسے ہی سیلف میڈ معاشروں میں بکھری مسرت حاصل کرنے کے لیے اپنے سفر کا آغاز کر چکے ہیں، جہاں انسان کی انفرادی آزادی کا شوق کسی آسیب کی مانند بسیرا کیے نظر آتا ہے یہ الگ بات ہے کہ انفرادی آزادی کے عبرت انگیز نمونوں کے گواہ شب و روز کی خاموش سسکیوں کو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شور میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ایک ماں اپنے ننھے بچے سے جس بے معنی زبان میں گفتگو کرتی ہے وہ سراسر اس کی ممتا اور اس ممتا کے لاڈ کی زبان ہوتی ہے جسے یا تو ماں سمجھتی ہے اور یا پھر اس کا بچہ۔ بچے کا پیار سے ہمکنا اور ہاتھ پاؤں چلانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ممتا کی اس فطری زبان کے معنی و مفہوم یعنی محبت سے پوری پوری طرح آگاہ ہے۔ اسی طرح رشتوں کے مابین جو فطری انسیت اور تعلق ہوتا ہے اس گداز پن کو وہی دل اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں جو فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں۔ رشتوں کے احساس سے ناآشنا اور محروم افراد اور قومیں گھروں کو ماتم کدہ بنانے میں کوئی لرزش محسوس نہیں کرتیں۔ اکہرے پن کا المیہ ان کے خمیر کا عارضہ ہوتا ہے، اس کے برعکس انسانی رشتوں کی مٹھاس جن کی گھٹّی میں شامل ہوتی ہے وہ نسلوں اور زمانوں کے اختلاف کو ٹکراؤ میں تبدیل نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے آنکھیں پھیرتے ہیں بلکہ اسے جذب کرتے ہیں اور اسے قبول کرتے ہیں، رشتوں کی یہ اپنائیت اکائیوں کی ایک مضبوط زنجیر بناتی ہے وہ زنجیر جو تہذیبوں کو بے لگام ہونے سے روکتی ہے اور اسے اخلاقیات کی حدود میں رہنے کے آداب سکھاتی ہے۔
مشینی دور کے بچوں کی سمجھ کے آگے والدین بے چارے معصوم اور نابلد، سنی سنائی باتوں اور تابعدار سی زندگی سے کیسا اکتساب؟ مگر والدین ہیں اولاد کو کہنا' روکنا' ٹوکنا تو فطرت کا ایک حصہ ہے سو اس رشتے کے بل بوتے پر اولاد کے معاملوں میں ٹانگ اڑانے کی جسارت کر ہی بیٹھتے ہیں' مگر آج کی جہاں دیدہ اور چشیدہ نسل والدین کے اس بھرم کو کہاں خاطر میں لاتی ہے سو ''اپنے کام سے کام رکھیے' آپ کو کیا پتہ'' جیسے جملے اس کے جواب کا عموماً ابتدائی حصہ ہوتے ہیں اور اس کے بعد والدین کی عقل سمجھ کا ماتم اور حسب توفیق عقل دینے کی تقریر، جسے سننا اور ماننا والدین کی ذمے داری ہے کیونکہ اولاد جوان ہو چکی ہے۔ اس کے لیے تو والدین پرانے خراب ریڈیو کی طرح ہوتے ہیں جس کے گھرر شرر کا شور سماعت کو ناگوار گزرتا ہے ایسے بے کار ناکارہ ڈبے کا خاموش رہنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اولاد کی جھڑکیوں سے والدین کو بھی اپنی حیثیت کا بخوبی علم ہوتا ہے لیکن کیا کریں والدین ہیں اور والدین ایسے ہی ہوتے ہیں ناسمجھ سے۔ یہ بھی تو محبت کا المیہ ہی ہوتا ہے جو ایک طرف والدین کی انا کو مٹی کر دیتا ہے اور دوسری جانب اولاد کو زیادتی کا مجرم بنا دیتا ہے۔
احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے اور احسان میں وہ وقت اہم ہوتا ہے جب امداد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے بعد ازاں مادی ناپ تول سے احسان کو نہیں ناپا جا سکتا اور نہ ہی کسی مادی وسیلے سے احسان کا بدل ممکن ہے۔ دو نسلوں اور دو زمانوں کی خلیج پاٹنے کا آفاقی فلسفہ صرف ایک لفظ ''احترام'' میں پوشیدہ نظر آتا ہے۔ اس ایک لفظ میں کتنی خوبصورتی، حکمت اور نفاست سے نسلوں اور زمانوں کے تصادم کو لپیٹ دیا گیا ہے۔ حکم ہوتا ہے کہ ''اپنے والدین کو اُف تک بھی نہ کہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کی عمر کو پہنچیں۔'' والدین کی جانب محبت بھری نظر کو صدقہ اور عبادت قرار دے دیا گیا۔
والدین اور اولاد کے اختلافات اور ذہنی رویوں کا فرق حقیقت ہے، لیکن کتنا سادہ نسخہ بتا دیا گیا کہ ان کا احترام کرو اور اس لفظ ''احترام'' میں معانی کے کتنے جہان سمیٹ دیے، اس میں برداشت بھی ہے اور بے ادبی کی مخالفت بھی! یہیں پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ والدین کی اطاعت اور احترام کو اولاد کے فرائض اور والدین کے حقوق میں داخل کر دیا یعنی یہ وہ امور ہیں جن کی باز پرس اور جواب طلبی لازمی ہے۔ ایسے میں فرد کو اکائیوں میں بانٹنے کے فلسفے کیسے درست قرار دیے جا سکتے ہیں، خواہ انھیں وقت کی ضرورت کا نام ہی کیوں نہ دیا جائے۔ فطرت بہلاووں سے نہیں سنبھلتی اگر والدین یہ کہتے ہیں کہ ''ہمارے بچے ہماری نہیں سنتے'' تو یہ ایک عمر، ایک دور، ایک زمانے اور ایک نسل کا نوحہ اور رائیگانی کا دکھ ہے۔ اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے اس لیے بھی کہ انسان جب فطری قوانین سے روگردانی کرتا ہے تو شیطانی جبڑے پھیل جاتے ہیں اور اس کی کھلی باچھوں سے جھانکتے نوکیلے دانت وجدان کی آنکھیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔