ایک گیند پر تین وکٹیں
پہلے پکے سیاسی، دوسرے کرپٹ اور تیسرے بھولے۔ کیا یہ عمران کا کمال ہوگا کہ وہ لے سکیں گے ایک گیند پر تین وکٹیں؟
عمران خان ایک گیند پر تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنے کی بات کرتے ہیں، اس سے ان کی مراد آصف زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن ہوتے ہیں۔ عمران کو ان کھلاڑیوں کے بجائے کچھ اور تین وکٹیں لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے سیاسی میدان میں تین کھلاڑی ہیں جنھیں عمران کو آؤٹ کرنا چاہیے۔ یہ تین بیٹسمین ہیں جو عمران کی گیندوں پر چوکے چھکے لگا سکتے ہیں، کچھ کھلاڑی ایسے ہو سکتے ہیں جو کپتان کی گیندوں پر سنچری بھی بنا سکتے ہیں۔ آئیے ہم ان تین کھلاڑیوں کی بات کرتے ہیں جو عمران کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ ان کا دائرہ زرداری، شریف اور مولانا، جی ہاں! ان تینوں سے بڑھ کر ہے۔ آئیے دیکھیے کہ وہ کون سے تین کھلاڑی ہیں جو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے کھلاڑیوں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ عمران کو تین شخصیات کے بجائے ان تین گروہوں کی وکٹیں لینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پارٹی کے عہدوں پر ہیں یا اسمبلی کے ممبران ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جنھیں آنے والے دنوں میں کچھ ملنے کی توقع ہے۔ یہ لوگ پیسے اور وقت کی سرمایہ کاری ایک پارٹی میں کر چکے ہیں۔ یہ سیاسی کھلاڑی رائٹ میں بھی ہیں اور لیفٹ میں بھی، مذہبی بھی ہیں اور سیکولر بھی۔ مسلم لیگ کے بے شمار لوگ نواز شریف و شہباز شریف کی جلا وطنی کے دوران قربانیاں دے چکے ہیں۔ ایسے پکے لوگ کس طرح عمران کے نظریے کے حامی ہو سکتے ہیں؟ چوہدری شجاعت کے احسانوں کے بوجھ تلے لوگ انھیں چھوڑ کر کس طرح عمران کے طرفدار بن سکتے ہیں؟ جماعت اسلامی میں برسوں سے وقت کھپانے والے مخلص کارکنان کس طرح عمران کے خیالات کے حامی بن سکتے ہیں؟ مولانا فضل الرحمن کو سیاست کا دانشور سمجھنے والوں کو عمران کی دلیلیں کس طرح اپیل کر سکتی ہیں؟ طاہر القادری کے پرستار کیسے عمران کے فین بن جائیں گے؟ الطاف حسین کو پسند کرنے والے عمران کے خیالات کے کس طرح پرچارک بن سکتے ہیں؟ ''جئے بھٹو'' کے نعرے لگانے والے کیوں کر عمران کو پاکستان کے اہم لیڈر، وزیر، گورنر، سفیر بننے والے یا اہمیت پانے والے عمران کی باتوں کو قبول کرنے کو تیار نہ ہوں گے۔
ایک دفعہ ایک پارٹی کا طرفدار بن جانے والا بمشکل دوسری پارٹی کا حامی بن سکتا ہے۔ اس میں ہم ذاتی مفاد، عزت نفس اور ضد کو مورد الزام قرار دے سکتے ہیں۔ بات سمجھ میں آنے اور دل چاہنے کے باوجود انسانی نفسیات کسی بات کو آسانی سے قبول نہیں کر سکتی جب تک دو باتیں نہ ہو جائیں۔ ایک تو پہلے سے کسی پارٹی میں کام کرنے والے کی جگہ پرانی پارٹی میں برقرار نہ رہے، یوں وہ دوسری پارٹی کی جانب مائل ہو سکتا ہے، جو تحریک انصاف بھی ہو سکتی ہے، دوسری وجہ اخلاص اور سچا جذبہ ہو سکتا ہے۔ یہ زیادہ تر عام شہری اور ووٹرز میں ہو سکتا ہے جو سمجھتا ہو کہ عمران کی باتوں میں خلوص و سچائی ہے اور اسے تحریک انصاف کو ووٹ دینا چاہیے۔ مفاد اور ہٹ دھرمی ہو تو پہلی پارٹی کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے، ضد اور انا ایسے جذبے ہیں کہ آدمی مخالف کی سچی بات کو آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ پاکستان میں پرانی سیاسی پارٹیوں سے وابستہ لوگوں کا پہلا گروہ ہے جو کپتان کا مخالف ہے۔ عمران کی پہلی وکٹ ہر پارٹی سے وابستہ لوگوں کی وکٹ ہو سکتی ہے۔
عمران کی دوسری وکٹ کے حقدار کرپٹ لوگ ہیں۔ یہ سیاسی بھی ہو سکتے ہیں اور غیر سیاسی بھی، جاگیردار بھی ہو سکتے ہیں اور کاروباری بھی، سرکاری افسران بھی ہو سکتے ہیں اور صنعتکار بھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صلاحیت و قابلیت نہ ہونے کے باوجود اپنے حق سے زیادہ لے رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو محنت نہ کرنے کے باوجود بھی عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ بڑی تعداد ان کی ہے جو ٹیکس دینے کے بھی روادار نہیں۔ ایسے لوگ کبھی نہیں چاہیں گے کہ انصاف کا معاشرہ قائم ہو، تبدیلی آئے اور ان سے وہ چھین لیا جائے جو انھیں بائی چانس مل رہا ہے۔ ''اسٹیٹس کو '' کے حامی چاہیں گے کہ حالات جوں کے توں رہیں۔ تبدیلی کے خواہش مند عمران کی گیند پر چھکا لگانے کی کوشش کریں گے۔
یہ لوگ چونکہ مراعات یافتہ ہیں اور وسائل پر قابض ہیں اس لیے تبدیلی کے ہر جذبے کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ یہ پروپیگنڈے کا وہ طوفان کھڑا کریں گے کہ لوگ عمران سے بدظن ہو جائیں۔ یہ خزانے کے منہ کھول کر ہر حلقے سے اس امیدوار کی مدد کریں گے جو تحریک انصاف کے امیدوار کو ہرا سکتا ہے۔ تعلیمی نظام سے فائدہ اٹھانے والے کبھی نہیں چاہیں گے کہ سب کو ایک جیسی تعلیم ملے یا نصاب تعلیم ایک ہو جائے۔ امریکا کے حامی نہیں چاہیں گے کہ عمران کی انتظامیہ سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے آقاؤں کے لیے مسائل پیدا کرے۔ ٹیکس کی بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے والے جاگیردار کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کی آمدنی پر ٹیکس لگانے کی بات کرنے والا ملک کا وزیر اعظم بنے۔ پاکستان کو دہشت، نااہلی اور ٹھیکوں سے غریب کر دینے والے کرپٹ افسران اور کاروباری لوگ رکاوٹیں کھڑی کریں گے، حج اسکینڈل یا رینٹل پاور یا ایفی ڈرین سے پیسہ بنانے والے کیونکر کپتان کو آسانی سے اپنی وکٹ تھما کر آؤٹ ہو جائیں گے؟ ایسے لوگ امپائر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے۔
کام کیے بغیر پہلی تاریخ کو تنخواہ لے جانے والوں کو عمران کے آئیڈیاز سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ عمران کے جلسوں میں شریک ہونے والے نوجوان بڑی تعداد میں ہیں، یہ لوگ نہ کسی سیاسی پارٹی میں وقت لگا چکے ہیں اور نہ کرپٹ ہیں۔ یہ بہت بڑی تعداد میں ہیں اور انھیں اخلاص کے ساتھ عمران کی باتیں سمجھ میں اچھی طرح آ رہی ہیں۔ نوجوانوں کے علاوہ وہ مخلص و سمجھدار لوگ بڑی تعداد میں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں جو پچھلے چالیس برسوں میں برسراقتدار آنے والی پارٹیوں سے تنگ ہیں۔
ان دو وکٹوں کے علاوہ بھی ایک اور وکٹ بھی بڑی اہم ہے جو عمران کی فل ٹاس کی منتظر ہے۔
کپتان کی تیسری وکٹ بڑی مشکل اور عجیب و غریب ہے۔ یہ کھلاڑی نہ پارٹی سے کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور نہ کرپشن سے کچھ لینا چاہتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جسے ہم ''اندھا مقلد'' کہہ سکتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک پارٹی لیڈر کی حمایت کر دینے والا یا اسے ووٹ دے دینے والا، ایک مرتبہ کسی پارٹی کا جھنڈا اٹھا لینے والا یا لیڈر کے لیے نعرہ بلند کر دینے والا اب کچھ نہیں سوچنا چاہتا۔ مقدس کتابوں میں ایسے لوگوں کو اندھا، گونگا اور بہرہ قرار دیا گیا ہے۔ آنکھیں بند کر کے تقلید کرنے والوں کی بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو نہ تعلیم یافتہ ہیں اور نہ خوشحال۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ حکومتی معاملات سمجھتے ہیں اور نہ دنیا کے۔ دوسرے ملکوں کی ترقی کی ان کو نہ کچھ خبر ہے، اپنی دھن میں مگن اور اپنی دنیا میں مست یہ لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں کہ ان کی غربت کا سبب ان کے اپنے منتخب نمایندے ہیں۔ وہ کرپشن کی سچی داستانوں کو اپنے لیڈر کے خلاف پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں۔ ہم نے Blind Faith رکھنے والے ایسے لوگوں کو تیسری وکٹ قرار دیا ہے۔ ایسی وکٹ جسے آؤٹ کرنا بہت مشکل ہے۔
ایکسپریس کے قارئین اب عمران کی مخالفت کرنے والے تینوں گروہوں کو پہچان چکے ہوں گے۔ پہلے پکے سیاسی، دوسرے کرپٹ اور تیسرے بھولے۔ کیا یہ عمران کا کمال ہوگا کہ وہ لے سکیں گے ایک گیند پر تین وکٹیں؟