مختصر لیکن اہم
دنیا کی تمام دولت جب تمام لوگوں کی ہے تو مالک بھی تمام لوگ ہیں۔ پھر تیرا میرا کاہے کا؟
بہت پہلے سے ڈاکٹر لال خان یہ کہتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت یعنی بجٹ کا 76 فیصد کالے دھن (ہیروئن، اسلحے کا کاروبار، کمیشن، رشوت جیسی کرپشن) پر مبنی ہے۔ یہ بات گزشتہ دنوں نیب کے چیئرمین نے ایک سوال کے جواب میں بتائی کہ پاکستان میں 10 سے 12 ارب روپے روزانہ کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے 173 منصوبوں میں اربوں روپے کی کرپشن کو روکا ہے۔ اب اس پر ذرا نظر ڈالیں کہ پارلیمنٹ کی چار رکنی کمیٹی نے نیب کے چیئرمین سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
انھیں یہ رپورٹ مانگنے سے پہلے عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ 2011 ء میں صدر سمیت 67 فیصد پارلیمنٹیرینز نے ٹیکس جمع نہیں کرایا جن میں پرویز الٰہی، رحمٰن ملک اور امین فہیم بھی کیوں شامل ہیں؟ ایک جانب پاکستان میں ہر روز بھوک سے 1132 بچے جان سے جاتے رہتے ہیں۔ کے ڈی اے اور کے ایم سی کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، دوسری جانب15 ججوں سمیت 123 نوکر شاہی (وردی بے وردی) کے پاس 2/2 پلاٹس ہیں۔ ووٹ کے ذریعے عوام کے مسائل کبھی بھی اور کہیں بھی حل نہیں ہوئے، ہاں پیوند کاریاں ضرور ہوئی ہیں۔ چونکہ ریاست سرمایہ داروں اور صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے اس لیے اس کے پہرہ دار سرمایہ دارانہ جمہوریت، وہ کبھی بھی عوام کی خدمت نہیں کر سکتے بلکہ خواص کی کرتے ہیں۔
کراچی میں اگر فوج ووٹروں کی تصدیق درست طور پر (جو ممکن نہیں) کر بھی لے تو کراچی سمیت ملک بھر میں 10 فیصد لوگوں سے زیادہ ووٹ ہی نہیں ڈالنے جاتے۔ ووٹ ڈالنے کے اعداد و شمار تو سرمایہ دارانہ نظام کی ماہرانہ ہیرا پھیری ہے اگر پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے تو سال میں 4380 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے (حقیقتاً اس سے کہیں زیادہ)۔ 10 روپے کی چیز 50 روپے میں اور 50 کی 150 میں فروخت کی جاتی ہے۔ رشوت کے بغیر کسی بھی محکمے میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ یو این او کا ذیلی ادارہ یونیسکو کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 10 فیصد سے زیادہ شرح تعلیم نہیں ہے جب کہ اسلحے کی پیداوار میں اور اس کی تجارت میں ہمارا دنیا میں 11 واں نمبر ہے۔ یہاں با اثر لوگ انتخابات میں جیتنے کے لیے اربوں روپے پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ جس پر حبیب جالبؔ نے خوب کہا ہے کہ ''وہی حالات ہیں فقیروں کے' دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے' ہر بلاول ہے دیش کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے''۔
گزشتہ دنوں روزنامہ ایکسپریس کراچی میں کسی نے مثال دی ہے کہ نیپال جیسے یہاں بھی اسمبلی میں مزدوروں اور کسانوں کو نمایندگی دی جائے۔ اب نیپال میں کس حد تک نمایندگی دی گئی ہے اور وہ اسمبلی مزدوروں اور کسانوں کے لیے کیا تیر مار رہی ہے' یہ ایک الگ بات ہے۔ مگر یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ نیپالی عوام نے بادشاہ کو فٹ پاتھ پر لا کھڑا کیا جو کام برطانیہ اور جاپان بھی نہ کر پایا۔ اس کے علاوہ اب بھی وہاں زمینوں اور تالابوں کی ایک بڑی تعداد خودکار انجمنوں کے پاس موجود ہیں۔ جسے پنچایتی نظام کے ذریعے کسان چلا رہے ہیں۔ مزدوروں، استادوں اور طلبا میں غیر طبقاتی نظام کے قیام کو ختم کر کے شہریوں کی پنچایت قائم کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ یہاں ''بنیا تولنے کو تیار نہیں ہم کہہ رہے ہیں کہ ذرا جھکا کے تولنا۔'' جب کہ پاکستان میں بڑے شہروں میں منظم سیاسی بھتہ خوروں اور دیہاتوں میں خونخوار وڈیروں کی خدائی ہے۔
آج بھی کراچی کا دکاندار بھتہ دیے بغیر کاروبار نہیں کر سکتا، ورنہ لاشیں بوریوں میں بند مل جاتی ہیں جب کہ گاؤں میں ہاری اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اس پر شکاری کتے چھوڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور خواتین اگر آزادی اور سچائی کی بات کرتی ہیں تو انھیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ 2001ء میں تقریباً5000 خواتین قتل ہوئیں۔ جیسے کوئی شہری نہ ہوں بلکہ گاجر مولی۔ تاجر زیادہ تر اپنے کاروبار کے مفادات اور منافعے کے اضافے میں ہر وقت مصروف عمل اور خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ سننے میں آتا ہے کہ ''خدا کی قسم یہ 200 روپے کی ہے' صرف آپ کے لیے 150 میں مل جائے گی۔'' جیسا کہ ہم ان کے برسوں پرانے دوست ہیں۔ اس لیے وہ جھگڑے لڑائی اور بھڑنے بھڑانے سے کتراتے ہیں۔ مگر اب پانی ناک تک پہنچنے پر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہم اب دہشت گردوں اور بھتہ خوروں سے مقابلہ کریں گے، ورنہ ٹیکس دینا اور بجلی کا بل دینا بند کر دیں گے۔
چاروں طرف سے محنت کشوں، کسانوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور ہیلتھ ورکروں کی عظیم جدوجہد میں سے کچھ لوگ کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئے ہیں جیسا کہ ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کے مطالبات تسلیم کیے گئے، مگر بڑے پاپڑ بیلنے اور ٹھکائی کے بعد۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال میں محنت کشوں نے بڑھ چڑھ کر حمایت کی، خاص کر پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپس (پی ٹی یوڈی سی) نے دامے درمے، سخنے جدوجہد میں نہ صرف ساتھ دیا بلکہ بہت سے مواقعے پر ان کی رہنمائی بھی کی۔ عالمی سطح پر ڈاکٹر لال خان، پاکستان کی سطح پر کامریڈ آدم پال اور کراچی کی سطح پر کامریڈ پارس جان اور ان کے کارکنوں نے بھرپور ساتھ دیا۔ آخر کار پنجاب کے جونیئر ڈاکٹروں کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے اور بلوچستان کے ماہر چشم ڈاکٹر معید خان کو بازیاب کرانے اور پی ایم اے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئی۔
2011ء میں 5000 خواتین قتل ہوئیں، 6000 لوگوں نے خودکشیاں کیں، جن میں ڈھائی ہزار بے روزگاری کی وجہ سے تھیں۔ بھوک سے روزانہ 1132 بچے پاکستان میں لقمہ اجل ہو رہے ہیں، جہاں تک دہشت گردی کی بات ہے تو پولیس نے اپنی جان پر کھیل کر گزشتہ تین برسوں میں (2009-2012) 250 مقدمات عدالت میں دائر کیے جب کہ ان میں صرف 29 کا فیصلہ ہوا اور 221 ملزم رہا ہو گئے۔ اب بھلا کس طرح سے ان کی بیخ کنی کی جائے گی؟ اس واقعے سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ پولیس پکڑتی ہے اور وزراء، پارٹیاں، ان کے لیڈران، وردی بے وردی نوکر شاہی انھیں رہا کرواتی ہے۔ جب دہشت گرد پہلے سے مطمئن ہوں کہ ان کا کچھ ہونے والا نہیں تو کیوں نہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کریں۔ ان کے علاوہ جی ایچ کیو، واہ فیکٹری، سرجن جنرل اور کامرہ میں فضائیہ کی بس پر خودکش حملوں کے مقدمات میں گرفتار ملزمان رہا کر دیے گئے۔ یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
بات تو یہاں تک پہنچ گئی کہ پشاور ہائی کورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ اغوا برائے تاوان میں اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد ابھی حال ہی میں الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے جس کی صدارت ترقی پسند دوست فخرالدین جی ابراہیم کی ۔ انھوں نے حسن ناصر شہید ڈے کے موقعے پر کراچی پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ''میں کراچی سینٹرل جیل میں حسن ناصر شہید سے ملاقات کر چکا ہوں، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ فوج کراچی، کوئٹہ اور فاٹا میں ووٹروں کی تصدیق کرے (اب کہاں تک کرے گی اور کرتی رہی یہ تو خدا کو ہی معلوم)۔ اس پر ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسی دوران توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری ہوا۔ جس پر ان کے بار بار اپیل کے باوجود کارکنوں نے سندھ بھر میں (خاصی حد تک) پرامن احتجاج کیا اور یہ احتجاج نواب شاہ سے کراچی تک ہوا۔ ٹھیک اسی ہڑتال کے روز پشاور ایئرپورٹ پر راکٹ حملے ہوئے۔ اس کا واحد حل محنت کشوں کا راج ہے، عوام کی آزادی، نجی ملکیت کا خاتمہ اور طبقاتی نظام کا انہدام ہے، اسمبلی، صدارت، وزارت، عدالت کا خاتمہ ہے۔ خود کار انجمنیں، محلہ کمیٹیاں، پنچایتیں اور دیہی کمیٹیاں، کسان اور مزدور کمیٹیاں اپنے کام کے انجام دیہی تک اسے قائم رکھیں۔ دنیا کی تمام دولت جب تمام لوگوں کی ہے تو مالک بھی تمام لوگ ہیں۔ پھر تیرا میرا کاہے کا؟
انھیں یہ رپورٹ مانگنے سے پہلے عوام کو یہ بتانا چاہیے کہ 2011 ء میں صدر سمیت 67 فیصد پارلیمنٹیرینز نے ٹیکس جمع نہیں کرایا جن میں پرویز الٰہی، رحمٰن ملک اور امین فہیم بھی کیوں شامل ہیں؟ ایک جانب پاکستان میں ہر روز بھوک سے 1132 بچے جان سے جاتے رہتے ہیں۔ کے ڈی اے اور کے ایم سی کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے، دوسری جانب15 ججوں سمیت 123 نوکر شاہی (وردی بے وردی) کے پاس 2/2 پلاٹس ہیں۔ ووٹ کے ذریعے عوام کے مسائل کبھی بھی اور کہیں بھی حل نہیں ہوئے، ہاں پیوند کاریاں ضرور ہوئی ہیں۔ چونکہ ریاست سرمایہ داروں اور صاحب جائیداد طبقات کی محافظ ہے اس لیے اس کے پہرہ دار سرمایہ دارانہ جمہوریت، وہ کبھی بھی عوام کی خدمت نہیں کر سکتے بلکہ خواص کی کرتے ہیں۔
کراچی میں اگر فوج ووٹروں کی تصدیق درست طور پر (جو ممکن نہیں) کر بھی لے تو کراچی سمیت ملک بھر میں 10 فیصد لوگوں سے زیادہ ووٹ ہی نہیں ڈالنے جاتے۔ ووٹ ڈالنے کے اعداد و شمار تو سرمایہ دارانہ نظام کی ماہرانہ ہیرا پھیری ہے اگر پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے تو سال میں 4380 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے (حقیقتاً اس سے کہیں زیادہ)۔ 10 روپے کی چیز 50 روپے میں اور 50 کی 150 میں فروخت کی جاتی ہے۔ رشوت کے بغیر کسی بھی محکمے میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ یو این او کا ذیلی ادارہ یونیسکو کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 10 فیصد سے زیادہ شرح تعلیم نہیں ہے جب کہ اسلحے کی پیداوار میں اور اس کی تجارت میں ہمارا دنیا میں 11 واں نمبر ہے۔ یہاں با اثر لوگ انتخابات میں جیتنے کے لیے اربوں روپے پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ جس پر حبیب جالبؔ نے خوب کہا ہے کہ ''وہی حالات ہیں فقیروں کے' دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے' ہر بلاول ہے دیش کا مقروض، پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے''۔
گزشتہ دنوں روزنامہ ایکسپریس کراچی میں کسی نے مثال دی ہے کہ نیپال جیسے یہاں بھی اسمبلی میں مزدوروں اور کسانوں کو نمایندگی دی جائے۔ اب نیپال میں کس حد تک نمایندگی دی گئی ہے اور وہ اسمبلی مزدوروں اور کسانوں کے لیے کیا تیر مار رہی ہے' یہ ایک الگ بات ہے۔ مگر یہ بات ناقابل فراموش ہے کہ نیپالی عوام نے بادشاہ کو فٹ پاتھ پر لا کھڑا کیا جو کام برطانیہ اور جاپان بھی نہ کر پایا۔ اس کے علاوہ اب بھی وہاں زمینوں اور تالابوں کی ایک بڑی تعداد خودکار انجمنوں کے پاس موجود ہیں۔ جسے پنچایتی نظام کے ذریعے کسان چلا رہے ہیں۔ مزدوروں، استادوں اور طلبا میں غیر طبقاتی نظام کے قیام کو ختم کر کے شہریوں کی پنچایت قائم کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ یہاں ''بنیا تولنے کو تیار نہیں ہم کہہ رہے ہیں کہ ذرا جھکا کے تولنا۔'' جب کہ پاکستان میں بڑے شہروں میں منظم سیاسی بھتہ خوروں اور دیہاتوں میں خونخوار وڈیروں کی خدائی ہے۔
آج بھی کراچی کا دکاندار بھتہ دیے بغیر کاروبار نہیں کر سکتا، ورنہ لاشیں بوریوں میں بند مل جاتی ہیں جب کہ گاؤں میں ہاری اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اس پر شکاری کتے چھوڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور خواتین اگر آزادی اور سچائی کی بات کرتی ہیں تو انھیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ 2001ء میں تقریباً5000 خواتین قتل ہوئیں۔ جیسے کوئی شہری نہ ہوں بلکہ گاجر مولی۔ تاجر زیادہ تر اپنے کاروبار کے مفادات اور منافعے کے اضافے میں ہر وقت مصروف عمل اور خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ عام طور پر یہ سننے میں آتا ہے کہ ''خدا کی قسم یہ 200 روپے کی ہے' صرف آپ کے لیے 150 میں مل جائے گی۔'' جیسا کہ ہم ان کے برسوں پرانے دوست ہیں۔ اس لیے وہ جھگڑے لڑائی اور بھڑنے بھڑانے سے کتراتے ہیں۔ مگر اب پانی ناک تک پہنچنے پر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ہم اب دہشت گردوں اور بھتہ خوروں سے مقابلہ کریں گے، ورنہ ٹیکس دینا اور بجلی کا بل دینا بند کر دیں گے۔
چاروں طرف سے محنت کشوں، کسانوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور ہیلتھ ورکروں کی عظیم جدوجہد میں سے کچھ لوگ کامیابی سے ہمکنار بھی ہوئے ہیں جیسا کہ ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کے مطالبات تسلیم کیے گئے، مگر بڑے پاپڑ بیلنے اور ٹھکائی کے بعد۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال میں محنت کشوں نے بڑھ چڑھ کر حمایت کی، خاص کر پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپس (پی ٹی یوڈی سی) نے دامے درمے، سخنے جدوجہد میں نہ صرف ساتھ دیا بلکہ بہت سے مواقعے پر ان کی رہنمائی بھی کی۔ عالمی سطح پر ڈاکٹر لال خان، پاکستان کی سطح پر کامریڈ آدم پال اور کراچی کی سطح پر کامریڈ پارس جان اور ان کے کارکنوں نے بھرپور ساتھ دیا۔ آخر کار پنجاب کے جونیئر ڈاکٹروں کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے اور بلوچستان کے ماہر چشم ڈاکٹر معید خان کو بازیاب کرانے اور پی ایم اے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئی۔
2011ء میں 5000 خواتین قتل ہوئیں، 6000 لوگوں نے خودکشیاں کیں، جن میں ڈھائی ہزار بے روزگاری کی وجہ سے تھیں۔ بھوک سے روزانہ 1132 بچے پاکستان میں لقمہ اجل ہو رہے ہیں، جہاں تک دہشت گردی کی بات ہے تو پولیس نے اپنی جان پر کھیل کر گزشتہ تین برسوں میں (2009-2012) 250 مقدمات عدالت میں دائر کیے جب کہ ان میں صرف 29 کا فیصلہ ہوا اور 221 ملزم رہا ہو گئے۔ اب بھلا کس طرح سے ان کی بیخ کنی کی جائے گی؟ اس واقعے سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ پولیس پکڑتی ہے اور وزراء، پارٹیاں، ان کے لیڈران، وردی بے وردی نوکر شاہی انھیں رہا کرواتی ہے۔ جب دہشت گرد پہلے سے مطمئن ہوں کہ ان کا کچھ ہونے والا نہیں تو کیوں نہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کریں۔ ان کے علاوہ جی ایچ کیو، واہ فیکٹری، سرجن جنرل اور کامرہ میں فضائیہ کی بس پر خودکش حملوں کے مقدمات میں گرفتار ملزمان رہا کر دیے گئے۔ یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
بات تو یہاں تک پہنچ گئی کہ پشاور ہائی کورٹ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ اغوا برائے تاوان میں اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد ابھی حال ہی میں الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے جس کی صدارت ترقی پسند دوست فخرالدین جی ابراہیم کی ۔ انھوں نے حسن ناصر شہید ڈے کے موقعے پر کراچی پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ''میں کراچی سینٹرل جیل میں حسن ناصر شہید سے ملاقات کر چکا ہوں، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ فوج کراچی، کوئٹہ اور فاٹا میں ووٹروں کی تصدیق کرے (اب کہاں تک کرے گی اور کرتی رہی یہ تو خدا کو ہی معلوم)۔ اس پر ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اسی دوران توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری ہوا۔ جس پر ان کے بار بار اپیل کے باوجود کارکنوں نے سندھ بھر میں (خاصی حد تک) پرامن احتجاج کیا اور یہ احتجاج نواب شاہ سے کراچی تک ہوا۔ ٹھیک اسی ہڑتال کے روز پشاور ایئرپورٹ پر راکٹ حملے ہوئے۔ اس کا واحد حل محنت کشوں کا راج ہے، عوام کی آزادی، نجی ملکیت کا خاتمہ اور طبقاتی نظام کا انہدام ہے، اسمبلی، صدارت، وزارت، عدالت کا خاتمہ ہے۔ خود کار انجمنیں، محلہ کمیٹیاں، پنچایتیں اور دیہی کمیٹیاں، کسان اور مزدور کمیٹیاں اپنے کام کے انجام دیہی تک اسے قائم رکھیں۔ دنیا کی تمام دولت جب تمام لوگوں کی ہے تو مالک بھی تمام لوگ ہیں۔ پھر تیرا میرا کاہے کا؟