ایک عہد ساز ہیرو کی یاد
وحید مراد نے اداکار بننے کا فیصلہ غصے اور ایک شدید ردعمل کے طور پر کیا تھا
اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں ''چاکلیٹی ہیرو''کے نام سے شہرت بلکہ بے پناہ شہرت پانے والے لیجنڈری اداکار وحید مراد ہی تھے۔ غالباً 1962 میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کرنے والے وحید مراد کی ہیرو ورشپ ''ارمان'' اور ''ہیرا اور پتھر'' جیسی فلموں سے شروع ہوئی۔
یہ بات بھی اب دلیپ کمار اور وحید مراد کی طرح بہت پرانی ہوچکی ہے کہ دلیپ کمار کے بعد برصغیر پاک و ہند میں وحید مراد ہی وہ واحد اداکار تھے جن کا ہیئر اسٹائل ضرب المثل بنا حتیٰ کہ اس زمانے کے اکثر لڑکے وحید مراد کے اسٹائل کے بال بنایا کرتے تھے اور بیشتر لڑکیاں تو ان کے فوٹو اپنے پرس میں رکھا کرتی تھیں، بلاشبہ وحید مراد کی پاپولیرٹی خواتین کے حلقوں میں حد درجہ زیادہ تھی۔اسی بنا پر انھیں ''لیڈی کلر'' اور ''شہنشاہ رومانس'' جیسے لقب بھی الاٹ ہوئے تھے۔
وحید مراد نے اداکار بننے کا فیصلہ غصے اور ایک شدید ردعمل کے طور پر کیا تھا وگرنہ انھیں فن اداکاری یا ہیرو بننے کا ہرگزکوئی شوق نہ تھا انھیں اپنے والد نثار مراد کے فلم بزنس کی جانچ پڑتال سے ہی غرض تھی اور وہ اکاؤنٹس وغیرہ کا کام دیکھتے تھے، جن دنوں اپنے وقت کے مشہور ہیرو درپن وحید مراد کے والد کی فلم میں ہیرو کاسٹ ہونے کے بعد انھیں خوب تنگ کر رہے تھے اور ان کے ہاتھ نہ آرہے تھے تو وحید مراد ان کی اس حرکت سے تنگ آکر انھیں اپنے والد کی فلم سے کٹ کروا کے خود کام کرنے کا چیلنجنگ فیصلہ کر بیٹھے۔
وحید مراد کا سب سے پہلا اور بڑا المیہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ انھیں ہیرو بننے کا قطعی شوق نہیں تھا لیکن جب وہ ہیرو بن گئے تو کسی صورت وہ اس ''پوسٹ'' کو چھوڑنے پر آمادہ دکھائی نہ دیے اور جب ہر کسی نے انھیں ہیرو کاسٹ کرنا بند کردیا تو انھوں نے ''ہیرو'' کے نام سے خود فلم پروڈیوس کرکے فلمی صنعت کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی سعی کی کہ وہ ہیرو تھے اور ہیرو ہی رہیں گے، حالانکہ یہ وحید مراد کا المیہ ہی نہیں فاش غلطی بھی تھی۔
لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے یہ خوبصورت اور من موہے ہیرو صرف 45 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ کراچی میں انتقال کرگئے اور ان کی وفات کے 27 سال بعد نومبر 2010 میں انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے ''ستارہ امتیاز'' دینے کی رسم ادا کی گئی اورکسی اچھے اور پاپولر آرٹسٹ کے انتقال کے 27 سال بعد اس کی صلاحیتوں کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی فلمی ہیروکی فلمی عمر محدود ہوتی ہے اور یہی ''ہیروورشپ'' کی ازل سے تاریخ چلی آرہی ہے وقت کے مقبول ہیرو کوکسی نوخیز ہیرو کے آنے اور چھا جانے پر جگہ خالی کرنی پڑتی ہے اور اسے ہیرو سے ہیرو کے بڑے بھائی، باپ یا دوسرے کریکٹر کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ دلیپ کمار سے لے کر امیتابھ بچن اور محمد علی سے لے کر جاوید شیخ پر طائرانہ نظریں ڈالیں آپ کو یہی سچائی دیکھنے میں آئے گی۔
وحید مراد انتہائی نفیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیے ہوئے تھے، انتہائی دولت مند گھرانے کے اکلوتے چشم و چراغ تھے اور ہر قسم کی دنیاوی آسائشیں ان کے ہم رکاب تھیں لیکن انھوں نے وقت کے اور لوگوں کے بدلتے مزاج کو فالو نہ کیا بلکہ اس سے صرف نظر کیا، فلم کا ہیرو ہی انھوں نے خود کو سمجھا اور چاہا کہ تمام لوگ بھی انھیں وقت گزرجانے کے بعد بھی ہیرو سمجھیں۔فلم سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہر اداکار کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ محض ناچنے گانے اور رومانس کرنے والا ہیرو نہیں رہتا، اسے بالآخر میچورکردارکرنے پڑتے ہیں (پاکستان کے پہلے رومانوی ہیرو سنتوش کمار نے بھی ایسا ہی کیا تھا) اور یہی اس کا دوسرا جنم ہوتا ہے۔ افسوس وحید مراد دوسرا جنم نہ لے سکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
وحید مراد نے دراصل کم عمری میں ہی سب کچھ حاصل کرلیا تھا اور جلدی جلدی فلم کے بیشتر اہم اور بڑے شعبوں تک رسائی یا دسترس بھی حاصل کرلی تھی اور پھر وہ صرف 45 سال میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، زمین کیسے کیسے نازک بدنوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، موت کیسے کیسے لوگوں کو چاٹ جاتی ہے پھر وحید مراد زمین کا رزق کیوں نہ بنتے؟وحید مراد نے جن حالات میں اس دنیا سے کوچ کیا اور جس طرح وہ اپنے مال وسائل کو بروئے کار نہ لائے اسے بھی ان کے المیے ہی سے تعبیر کیا جائے گا انھوں نے کوئی وسیلہ استعمال نہ کیا اور لوگوں کو بے مروت اور مطلبی جان کر اپنے آپ کو مکمل طور پر پہلے ڈپریشن اور پھر موت کے حوالے کردیا۔
وقت کی سچائی یہی ہے کہ عروج کے بعد عروج نہیں زوال آتا ہے جس طرح دن کے بعد رات۔ یہ المیہ صرف ایک انسان یا اس کے کسی شعبے تک محدود نہیں ایسے نظارے ہر شعبہ حیات میں پاکستان کی روایت کا لازمی حصہ بن چکے ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں کسی میدان میں بھی کوئی قابل فخر یا ناقابل فراموش انسان نظر نہیں آتا۔
وحید مراد کی ہیرو ورشپ کی اننگز طویل تر نہ صحیح لیکن قابل رشک اور قابل تقلید ضرور کہی جاسکتی ہے انھوں نے 125 کے قریب فلموں میں کام کیا جن میں سے اکثر فلمیں سپرہٹ ہوئیں ان کی یادگار فلموں میں اولاد، دامن، ارمان، ہیرا اور پتھر، احسان، دوراہا، دل میرا دھڑکن تیری، دیور بھابی، کنیز، سمندر، سالگرہ، مستانہ ماہی، رشتہ ہے پیار کا، افشاں، بندگی، عندلیب، انجمن، ناگ منی، تم ہی ہو محبوب میرے، نیند ہماری خواب تمہارے، بہارو پھول برساؤ،آہٹ، دولت اور دنیا، تم سلامت رہو، جب جب پھول کھلے، وقت، آواز، شمع، شبانہ، سہیلی، حقیقت، دیدار، خدا اور محبت، نذرانہ، پرکھ اور ہیرو وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان کی فلمیں خواتین میں ترجیحی بنیادوں پر دیکھی جاتی تھیں اور صنف نازک میں ان کی مقبولیت کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین نے ایک بار ان کی سفید گاڑی کو بوسے دے دے کر اسے اپنی لپ اسٹک سے سرخ کردیا تھا اور یہ بھی مبالغہ نہیں کہ پاکستان میں جنون کی حد تک جس ہیرو کو پسند کیا گیا وہ وحید مراد ہی تھے دوسرا کوئی نہیں۔ وحید مراد کی مخصوص رومانوی اداکاری اور قدرت سے ملی نشیلی آنکھیں اوپر سے رومانوی مکالموں کو ادائیگی کے وقت وحید مراد کی خمار آلود آواز ہرکس و ناکس کو مبہوت کرکے رکھ دیتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ وحید مراد کو ہر قسم کے گلوکاروں کے ہر قسم کے گیتوں کو خود پر پکچرائز کروانے میں بھی ملکہ حاصل تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں یہ فن وحید مراد سے شروع ہوکر وحید مراد پر ہی ختم ہوگیا تو بے جا نہ ہوگا۔آج وحید مراد کو اس فانی دنیا سے گئے 33 سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے، لیکن وحید مراد کی ذات یا ان کا سحر کا وجود لوگوں اور بالخصوص ان کے چاہنے والے لاکھوں دلوں میں زندہ اور رگوں میں خون کی طرح موجزن ہے، پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ وہ اب اپنے مالک حقیقی سے جاملے ہیں مگر ہم سب کے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنی فلموں کے حوالے سے تاقیامت اس دنیا میں رہیں گے۔
یہ بات بھی اب دلیپ کمار اور وحید مراد کی طرح بہت پرانی ہوچکی ہے کہ دلیپ کمار کے بعد برصغیر پاک و ہند میں وحید مراد ہی وہ واحد اداکار تھے جن کا ہیئر اسٹائل ضرب المثل بنا حتیٰ کہ اس زمانے کے اکثر لڑکے وحید مراد کے اسٹائل کے بال بنایا کرتے تھے اور بیشتر لڑکیاں تو ان کے فوٹو اپنے پرس میں رکھا کرتی تھیں، بلاشبہ وحید مراد کی پاپولیرٹی خواتین کے حلقوں میں حد درجہ زیادہ تھی۔اسی بنا پر انھیں ''لیڈی کلر'' اور ''شہنشاہ رومانس'' جیسے لقب بھی الاٹ ہوئے تھے۔
وحید مراد نے اداکار بننے کا فیصلہ غصے اور ایک شدید ردعمل کے طور پر کیا تھا وگرنہ انھیں فن اداکاری یا ہیرو بننے کا ہرگزکوئی شوق نہ تھا انھیں اپنے والد نثار مراد کے فلم بزنس کی جانچ پڑتال سے ہی غرض تھی اور وہ اکاؤنٹس وغیرہ کا کام دیکھتے تھے، جن دنوں اپنے وقت کے مشہور ہیرو درپن وحید مراد کے والد کی فلم میں ہیرو کاسٹ ہونے کے بعد انھیں خوب تنگ کر رہے تھے اور ان کے ہاتھ نہ آرہے تھے تو وحید مراد ان کی اس حرکت سے تنگ آکر انھیں اپنے والد کی فلم سے کٹ کروا کے خود کام کرنے کا چیلنجنگ فیصلہ کر بیٹھے۔
وحید مراد کا سب سے پہلا اور بڑا المیہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ انھیں ہیرو بننے کا قطعی شوق نہیں تھا لیکن جب وہ ہیرو بن گئے تو کسی صورت وہ اس ''پوسٹ'' کو چھوڑنے پر آمادہ دکھائی نہ دیے اور جب ہر کسی نے انھیں ہیرو کاسٹ کرنا بند کردیا تو انھوں نے ''ہیرو'' کے نام سے خود فلم پروڈیوس کرکے فلمی صنعت کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی سعی کی کہ وہ ہیرو تھے اور ہیرو ہی رہیں گے، حالانکہ یہ وحید مراد کا المیہ ہی نہیں فاش غلطی بھی تھی۔
لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے یہ خوبصورت اور من موہے ہیرو صرف 45 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ کراچی میں انتقال کرگئے اور ان کی وفات کے 27 سال بعد نومبر 2010 میں انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے ''ستارہ امتیاز'' دینے کی رسم ادا کی گئی اورکسی اچھے اور پاپولر آرٹسٹ کے انتقال کے 27 سال بعد اس کی صلاحیتوں کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا گیا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی فلمی ہیروکی فلمی عمر محدود ہوتی ہے اور یہی ''ہیروورشپ'' کی ازل سے تاریخ چلی آرہی ہے وقت کے مقبول ہیرو کوکسی نوخیز ہیرو کے آنے اور چھا جانے پر جگہ خالی کرنی پڑتی ہے اور اسے ہیرو سے ہیرو کے بڑے بھائی، باپ یا دوسرے کریکٹر کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ دلیپ کمار سے لے کر امیتابھ بچن اور محمد علی سے لے کر جاوید شیخ پر طائرانہ نظریں ڈالیں آپ کو یہی سچائی دیکھنے میں آئے گی۔
وحید مراد انتہائی نفیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیے ہوئے تھے، انتہائی دولت مند گھرانے کے اکلوتے چشم و چراغ تھے اور ہر قسم کی دنیاوی آسائشیں ان کے ہم رکاب تھیں لیکن انھوں نے وقت کے اور لوگوں کے بدلتے مزاج کو فالو نہ کیا بلکہ اس سے صرف نظر کیا، فلم کا ہیرو ہی انھوں نے خود کو سمجھا اور چاہا کہ تمام لوگ بھی انھیں وقت گزرجانے کے بعد بھی ہیرو سمجھیں۔فلم سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ ہر اداکار کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ محض ناچنے گانے اور رومانس کرنے والا ہیرو نہیں رہتا، اسے بالآخر میچورکردارکرنے پڑتے ہیں (پاکستان کے پہلے رومانوی ہیرو سنتوش کمار نے بھی ایسا ہی کیا تھا) اور یہی اس کا دوسرا جنم ہوتا ہے۔ افسوس وحید مراد دوسرا جنم نہ لے سکے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
وحید مراد نے دراصل کم عمری میں ہی سب کچھ حاصل کرلیا تھا اور جلدی جلدی فلم کے بیشتر اہم اور بڑے شعبوں تک رسائی یا دسترس بھی حاصل کرلی تھی اور پھر وہ صرف 45 سال میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، زمین کیسے کیسے نازک بدنوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، موت کیسے کیسے لوگوں کو چاٹ جاتی ہے پھر وحید مراد زمین کا رزق کیوں نہ بنتے؟وحید مراد نے جن حالات میں اس دنیا سے کوچ کیا اور جس طرح وہ اپنے مال وسائل کو بروئے کار نہ لائے اسے بھی ان کے المیے ہی سے تعبیر کیا جائے گا انھوں نے کوئی وسیلہ استعمال نہ کیا اور لوگوں کو بے مروت اور مطلبی جان کر اپنے آپ کو مکمل طور پر پہلے ڈپریشن اور پھر موت کے حوالے کردیا۔
وقت کی سچائی یہی ہے کہ عروج کے بعد عروج نہیں زوال آتا ہے جس طرح دن کے بعد رات۔ یہ المیہ صرف ایک انسان یا اس کے کسی شعبے تک محدود نہیں ایسے نظارے ہر شعبہ حیات میں پاکستان کی روایت کا لازمی حصہ بن چکے ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں کسی میدان میں بھی کوئی قابل فخر یا ناقابل فراموش انسان نظر نہیں آتا۔
وحید مراد کی ہیرو ورشپ کی اننگز طویل تر نہ صحیح لیکن قابل رشک اور قابل تقلید ضرور کہی جاسکتی ہے انھوں نے 125 کے قریب فلموں میں کام کیا جن میں سے اکثر فلمیں سپرہٹ ہوئیں ان کی یادگار فلموں میں اولاد، دامن، ارمان، ہیرا اور پتھر، احسان، دوراہا، دل میرا دھڑکن تیری، دیور بھابی، کنیز، سمندر، سالگرہ، مستانہ ماہی، رشتہ ہے پیار کا، افشاں، بندگی، عندلیب، انجمن، ناگ منی، تم ہی ہو محبوب میرے، نیند ہماری خواب تمہارے، بہارو پھول برساؤ،آہٹ، دولت اور دنیا، تم سلامت رہو، جب جب پھول کھلے، وقت، آواز، شمع، شبانہ، سہیلی، حقیقت، دیدار، خدا اور محبت، نذرانہ، پرکھ اور ہیرو وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ان کی فلمیں خواتین میں ترجیحی بنیادوں پر دیکھی جاتی تھیں اور صنف نازک میں ان کی مقبولیت کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین نے ایک بار ان کی سفید گاڑی کو بوسے دے دے کر اسے اپنی لپ اسٹک سے سرخ کردیا تھا اور یہ بھی مبالغہ نہیں کہ پاکستان میں جنون کی حد تک جس ہیرو کو پسند کیا گیا وہ وحید مراد ہی تھے دوسرا کوئی نہیں۔ وحید مراد کی مخصوص رومانوی اداکاری اور قدرت سے ملی نشیلی آنکھیں اوپر سے رومانوی مکالموں کو ادائیگی کے وقت وحید مراد کی خمار آلود آواز ہرکس و ناکس کو مبہوت کرکے رکھ دیتی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ وحید مراد کو ہر قسم کے گلوکاروں کے ہر قسم کے گیتوں کو خود پر پکچرائز کروانے میں بھی ملکہ حاصل تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں یہ فن وحید مراد سے شروع ہوکر وحید مراد پر ہی ختم ہوگیا تو بے جا نہ ہوگا۔آج وحید مراد کو اس فانی دنیا سے گئے 33 سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے، لیکن وحید مراد کی ذات یا ان کا سحر کا وجود لوگوں اور بالخصوص ان کے چاہنے والے لاکھوں دلوں میں زندہ اور رگوں میں خون کی طرح موجزن ہے، پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ وہ اب اپنے مالک حقیقی سے جاملے ہیں مگر ہم سب کے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنی فلموں کے حوالے سے تاقیامت اس دنیا میں رہیں گے۔