اب کے کوئی غلطی نہ ہو
ایک کے بعد ایک غلطی، اور آج ہماری قوم ہمارے نا اہل حکمرانوں کی غلطیوں کی گٹھڑی کو اٹھاتے اٹھاتے شل ہو چکی ہے۔
2012ء ختم ہونے کو ہے، یہ دسمبر کا مہینہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے، سرد اور خشک پورے سال کی تلخیاں آنکھوں کے گوشے نم کر دیتی ہیں تو آنے والا نیا برس دل میں کچھ خوشی کے رنگ بھر دیتا ہے، ان دنوں بھارتی مصنفین کی سقوط ڈھاکا کے المناک واقعے سے متعلق کتب نے پرانے زخموں کو کرید دیا۔ بہت سی یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں، غم، غصہ، تاسف بہت کچھ اس حادثے سے منسلک ہے۔ وہ جو کل اپنا تھا جدا ہو گیا، دشمنوں کی لگائی بجھائی نے چند چنگاریاں آشیانے میں ایسی گرائیں کہ شعلے بھڑک اٹھے، بدگمانیاں، شکوے، گلے، فسانے ابلنے لگے اور پھر دوریاں اتنی بڑھیں کہ پھر کم ہی نہ ہو سکیں، سرحدیں لکیروں میں تبدیل ہو گئیں۔
گزشتہ چار دسمبر کو نیوی ڈے کے موقعے پر بھارتی کمانڈر پردیپ میشرا نے نوجوان بھارتی کیڈٹوں سے اسی المناک حادثے سے متعلق کہا کہ ''1971ء کی جنگ کے دوران وہ بہت فیصلہ کن گھنٹہ تھا جب انڈین نیوی نے مغربی پاکستان سے تمام لاجسٹک اور ملٹری سپورٹ منقطع کرنے کے لیے تین دسمبر 1971ء کی درمیانی شب کو کراچی پورٹ پر حملہ کیا اور تین جنگی جہاز خیبر، محافظ چیلنج کو تباہ کیا جب کہ شاہجہان نامی جنگی جہاز کو نقصان پہنچایا، کراچی میں کیماڑی آئل ڈپو کے ساتھ آگ کے شعلے بھڑک اٹھے جنھیں سات دنوں میں بھی نہ بجھایا جا سکا۔''
پردیپ میشرا اپنی اس کامیابی پر بڑے مسرور تھے، تب ہی اس فخر سے اپنی کامیابی کا ذکر اپنی نوجوان نسل سے کر رہے تھے آج تک ہندوستانی قوم پاکستان سے اس کے ایک بازو کو علیحدہ کردینے پر بہت خوش ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کر کے انھوں نے مسلمانوں سے پاکستان کو ہندوستان سے علیحدہ کرنے کی سزا دی ہے، یہ سب اچانک تو نہیں ہوا تھا، سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔ وہ فوجی جنرل پارسی تھا، اپنے اصولوں کا پکا، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے پاکستان پر حملہ کرنے کے معاملے میں اس کی اندرا گاندھی سے خاصی بحث بھی ہوئی تھی۔ موصوفہ تو بس پاکستان کو پکڑ کر چت کر دینا چاہتی تھیں، پر وہ جنرل صاحب اپنی عقل و فہم سے مناسب وقت کی تلاش میں تھے۔
جنرل اپنی بات پر ڈٹا رہا، مجبوراً اندرا گاندھی کو اپنے حق سے دستبردار ہونا پڑا اور بات جنرل کی مانی گئی۔ یوں بھارت نے تیر مار لیا، میری نسل کے نوجوان اس درد سے آشنا نہیں ہیں جو اس وقت پاکستانی قوم کو خون کے آنسو رلا رہا تھا، لیکن اس درد سے اٹھنے والے ابال ابھی تک ہماری قوم کو سکھ کا سانس نہیں لینے دے رہے۔ اس لیے کہ ہم اب بھی انھی مسائل میں الجھے ہیں جو ہمیں ماضی میں درپیش تھے۔ ہم اپنے دشمنوں سے غافل ہیں۔ ماضی کو بھلا دینا ہماری روایت میں شامل ہو چکا ہے۔ ہمیں دھچکا لگتا ہے تو ہم سب کوششیں کرتے ہیں کہ مل جل کر حل کریں، کچھ تو سدباب کریں، گویا سر پر پڑی ہے تو نبٹنا ہی پڑے گا، لیکن جیسے ہی بات ذرا سنبھلی یا وقت کا دھارا تیزی سے چلتا گیا تو ہم سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔
آج حالات جدید انداز کی جنگ لیے ہوئے ہیں۔ اب پاکستان اور بھارت یا کسی نادیدہ قوت کو میدانوں میں جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اب نئی حکمت عملی آ چکی ہے، اب گلی گلی، محلہ محلہ ، شہر شہر، صوبہ صوبہ جنگ کھیلی جا رہی ہے۔ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، اس کی تمیز بھی اب اٹھتی جا رہی ہے، بلا وجہ ہی ہم اپنی تعریفیں کر کے اپنی ہی کمر ٹھونکتے رہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ 1971ء میں فضائی جنگ میں ہم نے برتری حاصل کی تھی، بھارتی اس بات کو نہیں مانتے، وہ اپنا سینہ پھلاتے ہیں۔ ہم نے میدانی جنگ میں تیر مارا، انھوں نے پانیوں سے زہر چھوڑا، ہم نے آسمانوں کو فتح کیا اور انھوں نے ہماری فتح کو اغواء کر لیا، ہم عموماً سچ کہنے سے کتراتے ہیں۔ سب سے بڑا سچ تو یہ ہے کہ ہم نے غلط حکمت عملی اور اتھلے پن اپنے ملک کی قسمت کا فیصلہ کیا اور آج بھی ہم اپنے ملکی مفاد اور مقاصد کو پس پیش ڈال کر خالی دیگ میں کفگیر چلا رہے ہیں۔
ہم غلطیاں کرنے کے عادی ہیں ایسی ہی ایک بڑی غلطی 1962ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے کی تھی۔ اس وقت بھارتی فوجی چینی افواج کی یلغار سے گھبرا کر آسام میں بوم ڈیلا اور دیگر علاقہ سے بھاگ رہے تھے، اس وقت چین نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو مقبوضہ کشمیر پر حملے کا مشورہ دیا تھا، لیکن پھر وہی شخصی فیصلے ہمارے فیلڈ مارشل صاحب کو چین کا یہ مشورہ پسند نہ آیا اور انھوں نے کشمیر پر حملے کی بجائے اسلام آباد میں پنڈت جواہر لال نہرو سے مصافحہ کر لیا، نجانے ان کے ذہن میں کیا مصلحت تھی جو انھوں نے کشمیر کو نظر انداز کر دیا اور یوں آج بھی وہ مسئلہ وہیں اٹکا ہوا ہے۔ کاش! چین کا مشورہ مان لیا جاتا تو آج کشمیری بھائی آزاد ہوتے اور شاید پاکستان میں دہشت گردی کی یہ جنگ یوں عام نہ ہوتی۔
1962ء اور 1971ء کی باتیں دل دکھانے والی ہیں۔1971ء کے حوالے سے حمود الرحمن رپورٹ نے ایک عرصے تک تہلکہ مچائے رکھا اور سوائے جنرل گل حسن کے سب کے دامن داغدار نکلے۔
آج کے جدید دور میں ہم بھی جنگ کی حالت میں ہیں، ہمارے دشمنوں کی شکلیں بدلی سی نظر آتی ہیں لیکن حقیقتاً ان کے پیچھے وہی پرانی شکلیں ہیں جو برسوں پہلے ہمارے خون کی پیاسی تھیں۔
جولائی، اگست 2001ء میں بھارتی وزارت داخلہ کے کلچرل سیل کی جانب سے بیرونی پرنٹ میڈیا میں ایسے اشتہارات شایع ہوئے جن کی نشاندہی خود بہت سے بھارتی اخبارات نے کی، جن میں ایسے نوجوانوں کو ملازمتوں کی پیشکش کی گئی تھی جو پشتو، فارسی، بلوچی اور سندھی زبانوں پر دسترس رکھتے ہوں، ظاہر ہے کہ ایسے نوجوانوں سے بھارت میں بچوں کو پشتو، فارسی، بلوچی اور سندھی تو پڑھوانی نہیں تھی، ایسے نوجوان جو ملازمت کے متلاشی، حالات کے مارے ہوں انھیں بے تحاشا آمدنی کے سبز باغ دکھا کر کیا کچھ نہیں کیا جا سکتا اور آج جو خودکش حملہ آور زندہ پکڑے گئے ہیں ، ان میں فرینچ اور انگریزی بولنے والے تو ہوتے نہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب بھارت کے وزیر خارجہ و دفاع جسونت سنگھ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ وہ کشمیریوں کی حمایت ترک کردے ورنہ اس کا حشر افغانستان جیسا کیا جائے گا۔ اسی دور میں انٹرنیٹ پر ایک انتہائی خفیہ رپورٹ کا انکشاف ہوا تھا جس میں بھارتی وزارت داخلہ اور دہشت گرد ایجنسی ''را'' کے منصوبے شامل تھے۔ جس سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے نئے پروجیکٹ شامل تھے۔ آج جو کچھ بھی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس میں ہماری اپنی غلطیاں شامل ہیں اور ہم غلطی پہ غلطی کرنے کے عادی ہیں۔ ایک کے بعد ایک غلطی، اور آج ہماری قوم ہمارے نا اہل حکمرانوں کی غلطیوں کی گٹھڑی کو اٹھاتے اٹھاتے شل ہو چکی ہے۔ خدارا !