کیا مسئلہ کراچی کا حل فوجی آپریشن ہے
1992ء میں ڈکیتی اور رہزنی کی مجموعی طور پر 766 وارداتیں ہوئیں اور ایک ہزار 426 افراد اغواء کیے گئے تھے۔
ماضی قریب میں ''جناح پور'' بنانے کی بات ہو یا کراچی کو ''ہانگ کانگ'' بنانے کا شور و غوغا، ہر طرف سے اس وقت ایسے ایسے بیانات داغے گئے تھے کہ اس میں قومی حساسیت لسانیت میں دب کر رہ گئی تھی البتہ عسکری قوتوں نے قوم کو یہ احساس ضرور دلانے کی کوشش کی تھی کہ ''ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے'' لیکن اس وقت سے لے کر تا حال کراچی میں ہزاروں انسانی جانوں کے دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ جانے کے واقعات اس امر کا کھلا ثبوت ہیں کہ کم از کم کراچی کی حفاظت مضبوط ہاتھوں میں نہیں ہے۔
کراچی میں جاری وقتاً فوقتاً بدامنی کی ذمے دار کوئی ایک حکومت نہیں رہی ہے، 1985سے کراچی لہو لہان ہے، ذمے دار کوئی بھی ہو، عوام کو جانی و مالی تحفظ فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمے داری رہی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہی رٹ لگائی جا رہی ہے کہ ''حکومت ایک ہفتہ، ایک مہینے میں کراچی میں امن بحال کردے گی۔'' امن صرف وقتی طور پر بحال ہوتا رہا ہے، کراچی کی خونیں وارداتوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون رائج ہے جس کی پشت پر سیاسی قوتوں کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی سیاسی قوتیں کراچی میں امن کی بھی خواہاں نظر آتی ہیں۔ ''جنگ بھی ہو اور امن بھی رہے، کیا یہ ممکن ہے؟''
اب جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان از خود نوٹس کے تحت کراچی کی خونیں وارداتوں کے خلاف کراچی ہی میں سماعت کر رہی ہے اور دوسری طرف حکومت امن و امان کی بحالی کے لیے بذریعہ رینجرز و پولیس کے آپریشن کروا رہی ہے تاہم پیش نظر کراچی میں حکومتی رٹ بحال ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ نہ صرف کراچی کے شہریوں کی بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کی یہی دعا ہے کہ ''کراچی میں عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر امن و بھائی چارگی قائم ہو۔'' اس دیرپا امن کے قیام کے لیے شراکت دار سیاسی پارٹیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے اگر یہ چاہیں تو ایک دن میں کراچی پھر سے امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ کیونکہ اسلحے کی برآمدگی اور مجرموں کی گرفتاری مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے کیونکہ ''آپریشن کلین اپ 1992 ''کا منطقی انجام ایک واضح مثال ہے۔
یاد رہے کہ صوبہ سندھ کی مخدوش امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر 23 مئی 1992ء کو دستور کی شق 147 کے تحت آرمی نے سندھ میں ''آپریشن کلین اپ'' کا آغاز کیا تھا۔ اس دوران ٹنڈو بہاول میں 9 بے گناہ کسانوں کو ڈاکو قرار دے کر قتل کیا گیا تھا اور حقیقت آشکارہ ہونے کے بعد اس واقعے کے سب سے بڑے مجرم کو کال کوٹھڑی کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی میں 19 جون 1992ء سے شروع کیے جانے والے آرمی آپریشن کلین اپ کا خاتمہ 31 دسمبر 1994ء کو کر دیا گیا تھا۔ اس تمام عرصے میں کتنے بے گناہ، کتنے گناہ گار مارے گئے، کتنے گرفتار کیے گئے، کتنے گھروں کے روشن چراغ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر گل ہو گئے تھے، ان کے اعداد و شمار میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں۔ لوگوں کو یقیناً یہ بھی یاد ہو گا کہ آپریشن کلین اپ کے دوران قانون نافذ کرنے والوں نے 72 مطلوب افراد کی ایک فہرست اخبارات میں شایع کروائی تھی جس میں سندھ کے بڑے بڑے نامور افراد کے نام سر فہرست تھے۔ بعد ازاں اس فہرست کی حالت یہ ہوئی کہ آنے والی حکومتوں میں یہ 72 افراد وزیر و مشیر اور حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بن گئے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن مقاصد کے تحت سندھ میں آپریشن کلین اپ کیا گیا تھا اس کے منطقی انجام کا کیا بنا؟
لاتعداد آہنی گیٹ منہدم کیے گئے تھے جن کی تعداد 200 بتائی گئی تھی اس طرح لوگوں کی نقل و حرکت آزادانہ ہونے لگی تھی۔ اس وقت کی اطلاعات کے مطابق 1992ء میں ڈکیتی اور رہزنی کی مجموعی طور پر 766 وارداتیں ہوئیں اور ایک ہزار 426 افراد اغواء کیے گئے تھے۔ اسی طرح 1993ء میں ڈکیتی اور رہزنی کی مجموعی طور پر 790 وارداتیں ہوئیں۔ اس طرح 1992ء کے مقابلے میں چوری اور چھینی گئی 561 کاریں زیادہ برآمد کی گئی تھیں۔ تاہم 1994ء کے ابتدائی چار مہینے میں ایک بار پھر گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے کی وارداتیں تیزی سے بڑھ گئی تھیں اور اس عرصے میں 395 گاڑیاں برآمد ہوئی تھیں۔
غیر قانونی اسلحہ برآمد کیے جانے کی اس وقت کی تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے چاروں ڈویژنوں میں سے سب سے زیادہ اسلحہ اور ایمونیشن کراچی ڈویژن سے برآمد کیا گیا تھا۔ کراچی ڈویژن سے 7 ہزار 991 ہتھیار، ایک لاکھ 31 ہزار 261 ایمونیشن، حیدر آباد ڈویژن سے دو ہزار 395 ہتھیار، 92 ہزار 329 ایمونیشن، سکھر ڈویژن سے ایک ہزار 289 ہتھیار اور 32 ہزار 743 ایمونیشن، لاڑکانہ ڈویژن سے ایک ہزار 288 ہتھیار اور 41 ہزار 292 ایمونیشن شامل تھے۔ آپریشن کلین اپ کے دو سال کے دوران کراچی ڈویژن میں 14 ڈاکو ہلاک، 56 گرفتار، حیدرآباد ڈویژن میں 120 ڈاکو ہلاک، 412 گرفتار، سکھر ڈویژن میں 136 ڈاکو ہلاک، 403 گرفتار، لاڑکانہ ڈویژن میں 65 ڈاکو ہلاک اور 157 گرفتار ہوئے تھے۔ ان میں 47 ڈاکو ایسے تھے جن کے سروں کی بھاری قیمت مقرر تھی۔ اس طرح کراچی ڈویژن میں 6، حیدر آباد ڈویژن میں 325، سکھر ڈویژن میں 154، لاڑکانہ ڈویژن میں 82 پتھارے دار پکڑے گئے تھے۔ (بحوالہ: قومی اخبارات، کراچی 20؍ جون 1994ء) 23؍ مئی 1992ء تا 19؍جون 1994ء فوجی افسران 6، فوجی جوان 31، رینجرز جوان 28، سول آرمڈ فورسز کے جونیئر کمیشنڈ افسران 2، پولیس اہلکار27 شہید ہوئے تھے جب کہ مجموعی طور پر 94 اہلکار جاں بحق، مجموعی طور پر 335 ڈاکو ہلاک، مجموعی طور پر 1028 ڈاکو گرفتار، مجموعی طور پر 567 پتھارے دار گرفتار، مجموعی طور پر 2963 ہتھیار برآمد اور مجموعی طور پر 297620 ایمولیشن برآمد ہوئے تھے۔
تاہنوز صوبہ سندھ کے حالات بالخصوص شہر کراچی کے حالات وقتاً فوقتاً اور دن بہ دن بدتر ہوتے چلے گئے، اہم مذہبی، سیاسی، سماجی، علمی، صحافتی، قانونی، شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات و ماہرین اور عام شہری ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے، ان میں 100سے زائد پولیس افسران و اہلکار بھی شامل تھے، اب رینجرز پر حملے ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے کراچی آپریشن کلین اپ میں متحرک کردار ادا کیا تھا۔ ان سب کا قاتل کون ہے؟ آیا بربریت میں ملوث عناصر گرفت میں آئے کہ نہیں، معلوم نہیں۔ البتہ اس دوران کسی بھی جانب سے حوصلہ افزاء نتائج نظر نہیں آئے، شہری عدم تحفظ کا شکار رہے، پورے شہر میں انجانے خوف کا سایہ چھایا رہا، ہر ایک اپنی اپنی بساط کے مطابق شہر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کرتا رہا اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ کراچی کو وزیرستان سے زیادہ خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔
کراچی کا مسئلہ صرف بھتہ نہیں ہے بلکہ بیک وقت سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، سماجی اور معاشی ہے ایسے میں اسلحے کے انبار نے کراچی کو آتش فشا ںبنا رکھا ہے، وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ مفاہمت کی سیاست نے ملک و قوم کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے، کیا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت چلائی نہیں جا سکتی؟ جب تک شہر کراچی میں اسلحے کی ترسیل کی راہداریوں کو بند نہیں کیا جاتا، جب تک سیاسی و مذہبی و دیگر تنظیموں و پارٹیوں کو ان کے اسلحہ بردار ونگز سے پاک نہیں کیا جاتا، جب تک حکومتی رٹ قائم نہیں کی جاتی، جب تک کراچی میں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کیا جاتا، جب تک ''ہم سب کا کراچی '' کا نعرہ بلند نہیں کیا جاتا، جب تک کراچی میں تعصب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، جب تک ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں کیا جاتا، جب تک کراچی کے حوالے سے میڈیا غیر جانبدار نہیں ہو گا، جب تک ہم لسانیت کی جگہ قومیت پاکستانی کو فروغ نہیں دیں گے کراچی مسائل کا شکار ہوتا رہے گا۔
کراچی میں جاری وقتاً فوقتاً بدامنی کی ذمے دار کوئی ایک حکومت نہیں رہی ہے، 1985سے کراچی لہو لہان ہے، ذمے دار کوئی بھی ہو، عوام کو جانی و مالی تحفظ فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمے داری رہی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہی رٹ لگائی جا رہی ہے کہ ''حکومت ایک ہفتہ، ایک مہینے میں کراچی میں امن بحال کردے گی۔'' امن صرف وقتی طور پر بحال ہوتا رہا ہے، کراچی کی خونیں وارداتوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون رائج ہے جس کی پشت پر سیاسی قوتوں کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہی سیاسی قوتیں کراچی میں امن کی بھی خواہاں نظر آتی ہیں۔ ''جنگ بھی ہو اور امن بھی رہے، کیا یہ ممکن ہے؟''
اب جب کہ سپریم کورٹ آف پاکستان از خود نوٹس کے تحت کراچی کی خونیں وارداتوں کے خلاف کراچی ہی میں سماعت کر رہی ہے اور دوسری طرف حکومت امن و امان کی بحالی کے لیے بذریعہ رینجرز و پولیس کے آپریشن کروا رہی ہے تاہم پیش نظر کراچی میں حکومتی رٹ بحال ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ نہ صرف کراچی کے شہریوں کی بلکہ ہر محب وطن پاکستانی کی یہی دعا ہے کہ ''کراچی میں عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر امن و بھائی چارگی قائم ہو۔'' اس دیرپا امن کے قیام کے لیے شراکت دار سیاسی پارٹیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے اگر یہ چاہیں تو ایک دن میں کراچی پھر سے امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ کیونکہ اسلحے کی برآمدگی اور مجرموں کی گرفتاری مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہے کیونکہ ''آپریشن کلین اپ 1992 ''کا منطقی انجام ایک واضح مثال ہے۔
یاد رہے کہ صوبہ سندھ کی مخدوش امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر 23 مئی 1992ء کو دستور کی شق 147 کے تحت آرمی نے سندھ میں ''آپریشن کلین اپ'' کا آغاز کیا تھا۔ اس دوران ٹنڈو بہاول میں 9 بے گناہ کسانوں کو ڈاکو قرار دے کر قتل کیا گیا تھا اور حقیقت آشکارہ ہونے کے بعد اس واقعے کے سب سے بڑے مجرم کو کال کوٹھڑی کا سامنا کرنا پڑا۔
کراچی میں 19 جون 1992ء سے شروع کیے جانے والے آرمی آپریشن کلین اپ کا خاتمہ 31 دسمبر 1994ء کو کر دیا گیا تھا۔ اس تمام عرصے میں کتنے بے گناہ، کتنے گناہ گار مارے گئے، کتنے گرفتار کیے گئے، کتنے گھروں کے روشن چراغ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر گل ہو گئے تھے، ان کے اعداد و شمار میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں۔ لوگوں کو یقیناً یہ بھی یاد ہو گا کہ آپریشن کلین اپ کے دوران قانون نافذ کرنے والوں نے 72 مطلوب افراد کی ایک فہرست اخبارات میں شایع کروائی تھی جس میں سندھ کے بڑے بڑے نامور افراد کے نام سر فہرست تھے۔ بعد ازاں اس فہرست کی حالت یہ ہوئی کہ آنے والی حکومتوں میں یہ 72 افراد وزیر و مشیر اور حکومتی سیٹ اپ کا حصہ بن گئے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن مقاصد کے تحت سندھ میں آپریشن کلین اپ کیا گیا تھا اس کے منطقی انجام کا کیا بنا؟
لاتعداد آہنی گیٹ منہدم کیے گئے تھے جن کی تعداد 200 بتائی گئی تھی اس طرح لوگوں کی نقل و حرکت آزادانہ ہونے لگی تھی۔ اس وقت کی اطلاعات کے مطابق 1992ء میں ڈکیتی اور رہزنی کی مجموعی طور پر 766 وارداتیں ہوئیں اور ایک ہزار 426 افراد اغواء کیے گئے تھے۔ اسی طرح 1993ء میں ڈکیتی اور رہزنی کی مجموعی طور پر 790 وارداتیں ہوئیں۔ اس طرح 1992ء کے مقابلے میں چوری اور چھینی گئی 561 کاریں زیادہ برآمد کی گئی تھیں۔ تاہم 1994ء کے ابتدائی چار مہینے میں ایک بار پھر گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے کی وارداتیں تیزی سے بڑھ گئی تھیں اور اس عرصے میں 395 گاڑیاں برآمد ہوئی تھیں۔
غیر قانونی اسلحہ برآمد کیے جانے کی اس وقت کی تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے چاروں ڈویژنوں میں سے سب سے زیادہ اسلحہ اور ایمونیشن کراچی ڈویژن سے برآمد کیا گیا تھا۔ کراچی ڈویژن سے 7 ہزار 991 ہتھیار، ایک لاکھ 31 ہزار 261 ایمونیشن، حیدر آباد ڈویژن سے دو ہزار 395 ہتھیار، 92 ہزار 329 ایمونیشن، سکھر ڈویژن سے ایک ہزار 289 ہتھیار اور 32 ہزار 743 ایمونیشن، لاڑکانہ ڈویژن سے ایک ہزار 288 ہتھیار اور 41 ہزار 292 ایمونیشن شامل تھے۔ آپریشن کلین اپ کے دو سال کے دوران کراچی ڈویژن میں 14 ڈاکو ہلاک، 56 گرفتار، حیدرآباد ڈویژن میں 120 ڈاکو ہلاک، 412 گرفتار، سکھر ڈویژن میں 136 ڈاکو ہلاک، 403 گرفتار، لاڑکانہ ڈویژن میں 65 ڈاکو ہلاک اور 157 گرفتار ہوئے تھے۔ ان میں 47 ڈاکو ایسے تھے جن کے سروں کی بھاری قیمت مقرر تھی۔ اس طرح کراچی ڈویژن میں 6، حیدر آباد ڈویژن میں 325، سکھر ڈویژن میں 154، لاڑکانہ ڈویژن میں 82 پتھارے دار پکڑے گئے تھے۔ (بحوالہ: قومی اخبارات، کراچی 20؍ جون 1994ء) 23؍ مئی 1992ء تا 19؍جون 1994ء فوجی افسران 6، فوجی جوان 31، رینجرز جوان 28، سول آرمڈ فورسز کے جونیئر کمیشنڈ افسران 2، پولیس اہلکار27 شہید ہوئے تھے جب کہ مجموعی طور پر 94 اہلکار جاں بحق، مجموعی طور پر 335 ڈاکو ہلاک، مجموعی طور پر 1028 ڈاکو گرفتار، مجموعی طور پر 567 پتھارے دار گرفتار، مجموعی طور پر 2963 ہتھیار برآمد اور مجموعی طور پر 297620 ایمولیشن برآمد ہوئے تھے۔
تاہنوز صوبہ سندھ کے حالات بالخصوص شہر کراچی کے حالات وقتاً فوقتاً اور دن بہ دن بدتر ہوتے چلے گئے، اہم مذہبی، سیاسی، سماجی، علمی، صحافتی، قانونی، شعبہ ہائے زندگی کی شخصیات و ماہرین اور عام شہری ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے، ان میں 100سے زائد پولیس افسران و اہلکار بھی شامل تھے، اب رینجرز پر حملے ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے کراچی آپریشن کلین اپ میں متحرک کردار ادا کیا تھا۔ ان سب کا قاتل کون ہے؟ آیا بربریت میں ملوث عناصر گرفت میں آئے کہ نہیں، معلوم نہیں۔ البتہ اس دوران کسی بھی جانب سے حوصلہ افزاء نتائج نظر نہیں آئے، شہری عدم تحفظ کا شکار رہے، پورے شہر میں انجانے خوف کا سایہ چھایا رہا، ہر ایک اپنی اپنی بساط کے مطابق شہر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کرتا رہا اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ کراچی کو وزیرستان سے زیادہ خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔
کراچی کا مسئلہ صرف بھتہ نہیں ہے بلکہ بیک وقت سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، سماجی اور معاشی ہے ایسے میں اسلحے کے انبار نے کراچی کو آتش فشا ںبنا رکھا ہے، وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ مفاہمت کی سیاست نے ملک و قوم کے مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے، کیا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت چلائی نہیں جا سکتی؟ جب تک شہر کراچی میں اسلحے کی ترسیل کی راہداریوں کو بند نہیں کیا جاتا، جب تک سیاسی و مذہبی و دیگر تنظیموں و پارٹیوں کو ان کے اسلحہ بردار ونگز سے پاک نہیں کیا جاتا، جب تک حکومتی رٹ قائم نہیں کی جاتی، جب تک کراچی میں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کیا جاتا، جب تک ''ہم سب کا کراچی '' کا نعرہ بلند نہیں کیا جاتا، جب تک کراچی میں تعصب کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، جب تک ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں کیا جاتا، جب تک کراچی کے حوالے سے میڈیا غیر جانبدار نہیں ہو گا، جب تک ہم لسانیت کی جگہ قومیت پاکستانی کو فروغ نہیں دیں گے کراچی مسائل کا شکار ہوتا رہے گا۔