پاکستانی بچوں میں غذائی کمی کا بحران ذمہ دار کون

پانچ سال سے کم عمر 44 فی صد بچے اپنی عمر کے لحاظ سے قد میں چھوٹے ہیں جبکہ 31 فیصد بچے اپنی عمر کے لحاظ سے کم وزن ہیں

غذائیت کے بارے میں معلومات زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ ہم اپنے بچوں کو محفوظ اور خوشگوار صحت مند مستقبل دے سکیں۔ فوٹو: فائل

بچے ہر قوم کا انمول سرمایہ اور گھر کے آنگن کے پھول ہوتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹوں، شرارتوں سے گھر آباد ہوتے ہیں۔ لیکن یہی پھول اگر مالی کی غفلت و لاپروائی سے وقت سے پہلے مرجھانے لگ جائیں تو چمن کیسے آباد رہے گا جس طرح چمن کو ہرا بھرا و شاداب رکھنے کے لیے مالی کا ہوشیار ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح اپنے بچوں کو تندرست و توانا رکھنے کے لئے ہمارا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ بچوں کی غذائی ضروریات کیا ہیں اور ہم انہیں کیسے صحت مند اور شاداب رکھ سکتے ہیں۔

اگر ہم پاکستان کے ہیلتھ انڈیکٹرز پر نظر ڈالیں تو ہمارے چمن کی تصویر کچھ اس طرح نظر آتی ہے۔ پاکستان ڈیمو گرافک ہیلتھ سروے (PDHS) 2013 ء کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے 1000 بچوں میں سے 74 بچے یعنی ہر 14میں سے ایک بچہ اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے وفات پا جاتا ہے۔ زندہ پیدا ہونے والے 1000بچوں میں سے 55 بچے پیدائش کے پہلے 28 دنوں میں فوت ہو جاتے ہیں جو بچے موت کے منہ سے بچ جاتے ہیں۔

اگر ان کے حالات دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر 44 فی صد بچے اپنی عمر کے لحاظ سے قد میں چھوٹے ہیں جبکہ 31 فیصد بچے اپنی عمر کے لحاظ سے کم وزن ہیں اور 11 فیصد بچے سوکھے پن (سوکڑے)کا شکار ہیں۔ غذائی کمی کا شکار بچے نہ صرف جسمانی لحاظ سے پست رہ جاتے ہیں بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتیں بھی پوری طرح سے پروان نہیں چڑھتی اور ایسے بچے دوسرے صحت مند بچوں کی نسبت ترقی کے ہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے بچے آسانی سے بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جس سے ان میں مزید غذائی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

نیشل نیوٹریشن سروے(NNS) 2011 کے مطابق 62% بچے خون کی کمی کا جبکہ41% بچے وٹامن ڈی کی کمی اور 56% بچے وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔ وٹامن اے اور ڈی جہاں آنکھوں اور ہڈیوں کی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں اس کے ساتھ ساتھ بچے میں قوت مدافعت بھی پیدا کرتی ہیں۔ ان حیاتین کی کمی کے باعث بچے بار بار دست اور سانس کی بیماری میں مبتلاہوتے رہتے ہیں۔ وٹامن اے کی کمی بچوں میں اندھے پن کا باعث بنتی ہے۔

اس گھمبیر صورتحال کی وجوہات پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگرچہ غذائی کمی کی ایک بڑی وجہ غربت ہے لیکن اس کی ایک بنیادی وجہ عام آدمی کی غذا اور غذائیت کے بارے میں لاعلمی بھی ہے۔ اکثر افراد کو یہ علم نہیں کہ صحیح اور متوازن غذا کیا ہوتی ہے، کون کون سی غذا ہمیں کیا غذائی اجزاء مہیا کرتی ہے، غذائی کمی کو دور کرنے کے لیے کونسی اور کتنی خوراک لینی چاہیے اور کس طرح کی چیزوں سے ہمیں پرہیز کرنے چاہیے۔

اس لا علمی کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی روایات رواج پا گئی ہیں جو اس غذائی کمی کی وبا کو پھیلنے میں مدد دے رہی ہیں۔ مثلاً بچوںکو ماں کا دودھ نہ دینا اور ڈبے کے دودھ کے استعمال کا بڑھتا ہوا فیشن،6 ماہ کی عمر سے بچوں کو اضافی خوراک نہ دینا یا مناسب مقدار یا اجزاء کے مطابق نہ دینا، چپس، سلانٹی، کولڈ ڈرنک، بیکری کی چیزیں برگر، شوارمہ کا بڑھتا ہوا استعمال، حاملہ کی مناسب خوراک کے بارے میں لاعلمی، سرد اور گرم خوراک کا تصور ، بچوں کو بر وقت حفاظتی ٹیکے نہ لگوانا۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کو غذا اور غذائیت کے بارے میں مفید معلومات فراہم کی جائیں اور ان میں اپنی صحت کا خود خیال رکھنے کا شعور بیدار کیا جائے تاکہ ہمارے بچے صحت مندو توانا رہیں اور ہمارا ملک ترقی یافتہ ہو، یہاں ذہین اور صحت مند بچے پروان چڑھیںاور ملک کی باگ ڈور سنبھالیں۔ حمل کے پہلے دن سے لے کر بچے کی دوسری سالگرہ تک کے تقریباً 1000دن غذائیت اور جسمانی و دماغی نشوونما کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔

اگر ان 1000دنوں میں حاملہ اور بچے کو متوازن اور غذائیت بخش خوراک ملے تو بچوں کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشوونما بھی بھر پور ہوتی ہے اور بچے بیماری کا بھی کم شکار ہوتے ہیں۔ ان ہزار دنوں میں ناقص غذائیت کے مضر اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ ان ہزار دنوں میں صحیح متوازن غذا سے ہم ہر سال دس لاکھ جانیں بچا سکتے ہیں اور بڑی حد تک بیماریوں سے بچوں کو بچا سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صحیح اور متوازن غذا کیا ہے؟ بہترین غذائیت کے لیے:

پہلا اہم پیغام

ماں بچے کو دو سال تک اپنا دودھ پلائے۔ دو سال کی عمر تک ماں کا دودھ پلانے سے بچے کی نشوونما بہتر ہوتی ہے اور وہ صحت مند اور مضبوط ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ غذا، تحفظ اور صحت کی ابتدا ہے اس میں وہ تمام اجزاء شامل ہیں جو بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ ماں کے دودھ کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ اشرف المخلوقات کے لیے خدا کاخاص تحفہ ہے۔ یہ قدرت کا ہیلتھ پلان ہے جو انسان کو نہ صرف بچپن بلکہ لڑکپن، جوانی اوربڑھاپے کی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے۔

دودھ پلانے والی ماؤں میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ہمیں یہ شعور اور رہنمائی عام کرنے کی ضرورت ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد سے ایک گھنٹے کے اندر اندر ماں کا دودھ شروع کروا دیا جاء۔ پیدائش کے ابتدائی گھنٹے میں بچہ زیادہ چست اور ہوشیار ہوتا ہے اور آسانی سے ماں کا دودھ لے سکتا ہے۔ ماں کا پہلا دودھ (کلوسٹرم) لحمیات، حیاتین اور مدافعتی اجزاء سے بھر پور ہوتا ہے۔ اس میں وٹامن اے کی کافی مقدار موجود ہوتی ہے۔ یہ بچے کا پہلا حفاظتی ٹیکہ ہے جو بچے کو مختلف بیماریوں سے بچاتا ہے۔

ماں کا دودھ شروع کروانے سے پہلے کسی قسم کی خوراک، گھٹی نہ دی جائے۔ چھ ماہ کی عمر تک بچوں کو صرف اور صرف ماں کا دودھ دیا جائے اور اس کے علاوہ کوئی بھی مائع یا ٹھوس چیز قطعاً نہ دی جائے حتی کہ پانی بھی نہیں۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پانی بچے کے لیے ضروری ہے خاص کر گرمیوں میں، مگر یہ بالکل ضروری نہیں کیونکہ ماں کے دودھ میں 87% پانی ہوتا ہے جو اس کی پانی کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔

اکثر مائیں صرف اس تصورسے کہ ان کا دودھ بچے کے لیے کافی نہیں ہے اوپری دودھ دینا شروع کر دیتی ہیں اوپری دودھ (جانور یا ڈبے کا) بالکل نہ دیا جائے کہ ماں کے دودھ کے ساتھ ساتھ اگر دوسرا دودھ شروع کروا دیا جائے تو بچہ الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور اوپری دودھ کے بعد بچہ ماں کا دودھ کم پیئے گا جس سے ماں کا دودھ اور کم ہو جائے گا۔ اوپری دودھ میں پانی کی ملاوٹ سے انفیکشن ہو سکتا ہے جس سے بچے کو دست اور غذائی کمی ہو جاتی ہے۔

دودھ پلانے والی ماؤں کو خود زیادہ خوراک لینی چاہیے۔ خوراک بڑھانا دودھ پلانے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اضافی خوراک سے روز مرہ کے کام کاج میں آسانی رہتی ہے اور ماں کی غذائی صورتحال درست رہتی ہے۔



دوسرا اہم پیغام

چھ ماہ کی عمر کے بعد بچوں کو دودھ کے علاوہ اضافی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھ ماہ کی عمر سے اضافی خوراک شروع کروانے سے بچہ غذائی کمی سے محفوظ رہتا ہے۔ بچے کو ایسی اضافی خوراک دی جائے جو بچے کو اُس کی ضرورت کے مطابق توانائی، غذائی اجزاء مثلاً لمحیات ، نشاستہ ،چکنائی، معدنیات اور حیاتین وغیرہ فراہم کرے۔ اور خوراک بچے کو بھوک اور طلب کے مطابق دی جائے اور کھانا دینے کے اوقات اور کھلانے کا طریقہ بچے کی عمر کے مطابق ہو۔

اکثر مائیں اضافی خوراک شروع کرنے میں یا تو دیر کرتی ہیں یا کم خوراک دیتی ہے جس کے نتیجے میں بچہ غذائی کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔ نیچے دیا گیا خوارک کے 4 گروپس کا خاکہ چیدہ چیدہ غذائیں ظاہر کرتا ہے۔ یاد رکھیںکہ بچے کو روزانہ خوراک کے چار گروپس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور کھلائیں۔ صرف ایک گروپ سے اضافی خوراک نہ دی جائے۔ اور دو سال تک ماں اپنا دودھ پلاتی رہے۔ چھوٹے بچوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ملی جلی اضافی خوراک کھائیں تاکہ خوراک کے عام اجزاء ایک کھانے میں مہیا ہو جائیں۔

نشاستہ والی خوراک

چاول ، گندم ، مکئی، آلو

 

حیاتین ، معدنیات والی خوراک

 

گہرے سبز پتے والی سبزیاں، ٹماٹر ، گاجر ، مالٹے، آم ، پپیتا، دیگر پھول

لحمیات والی خوراک


مچھلی، دال ، مٹر، دودھ ، دہی، پنیر ، گوشت، مرغی ، انڈہ

چکنائی والی خوراک

تیل، گھی، مکھن، چربی ، شکر

جانوروں سے ملنے والی غذائیں، گوشت، دودھ ، دہی پنیر، انڈے، لحمیات، معدنیات ، چکنائی سے بھری غذائیں ہیں۔ جانوروں سے ملنے والی غذائیں بچوں کے لیے اچھی ہوتی ہیں جو انہیں مضبوط اور چست بناتی ہیں۔ جانوروں سے ملنے والی غذا بچوں کو روزانہ دینی چاہیے۔ جب بچہ اضافی خوراک کھانا شروع کرتا ہے تو اُسے نئی خوراک کے ذائقے اور ساخت کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔ اس لئے شروع میں دن میں 2 سے 3 چھوٹے چمچ کھانے کے دیں اور باربار وہی ذائقہ متعارف کروائیں آہستہ آہستہ بچہ اس ذائقہ سے آشنا ہو جائے گا۔ اس دوران تحمل کا مظاہرہ کریں۔

بچہ کی حوصلہ افزائی کریں زبردستی نہ کریں۔ کھانے کے دوران بچے کے ساتھ بات کریں اور اس کی طرف متوجہ رہیں۔ اس طرح بچے آہستہ آہستہ کھانے کی مہارت حاصل کر لیں گے۔ اور زیادہ تنگ بھی نہیں کریں گے۔ اکثر مائیں بچوں کی آسانی کے لیے بہت پتلی خوراک دیتی ہیں یا بوتل کے ذریعے سے پتلی خوراک دیتی ہے۔ ایسا بالکل نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹے بچے کا معدہ بھی چھوٹا ہوتا ہے۔ آٹھ ماہ کے بچے کے معدے میں ایک وقت میں تقریباً ایک کپ ( ملی لیٹر 200 ) خوراک سما سکتی ہے۔ پتلی خوراک اور مشروبات اسے جلدی بھر دیتے ہیں لیکن غذائیت پوری نہیں دیتے۔

ایسی غذائیں جو بہت پتلی نہ ہوں جو اتنی گاڑھی ہوں کہ چمچ کے اندر ٹھہرسکیں بچے کو زیادہ توانائی دیتی ہیں۔ آٹھ ماہ کی عمر تک خوراک کو مسل کر کھلائیں۔ کُتری ہوئی خوراک 9-11 ماہ کی عمر میں دی جا سکتی ہے۔ ایک سال کے بعد چھوٹے چھوٹے ٹکرے دے سکتے ہیں۔ ماں کو چاہیے کہ خوراک تیار کرنے اور کھلانے سے پہلے اپنے اور بچے کے ہاتھ صابن سے دھو لے۔ بچے کو دی جانے والی خوراک کی مقدار اور تعداد درج ذیل جدول میں واضح کی گئی ہے۔

عمر - 6 سے 8 ماہ

تعداد - 2 سے 3 کھانے، اس کے علاوہ ماں کا دودھ جاری رکھیں

ایک وقت کھانے کی مقدار - دو سے تین چمچ سے شروع کریں اور آہستہ آہستہ بڑھاتے ہوئے تقریباً آدھا بھرا ہوا پیالہ

عمر - 9 سے 11 ماہ

تعداد - 4 سے 3 کھانے، ماں کا دودھ جاری رکھیں

ایک وقت کھانے کی مقدار - آدھا بھرا ہوا پیالہ

عمر - 12 سے 23 ماہ

تعداد - 4 سے 3 کھانے،ماں کا دودھ جاری رکھیں

ایک وقت کھانے کی مقدار - تین چوتھائی بھرا ہوا پیالہ

بچوں کو بیماری (بخار اور اسہال )کے دوران زیادہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ بیماری کا مقابلہ کر سکیں۔ بیمار بچے کو بھوکا مت رکھیں۔ بلکہ صبر و تحمل سے متواتر تھوڑی تھوڑی مقدار میں خوراک دینے کی کوشش کرتے رہیں۔ ماں کا دودھ پلاتے رہیں بیمار بچے ماں کا دودھ زیادہ مانگتے ہیں۔ بیماری کے بعد بچے کو معمول سے ایک خوراک زائد دیں تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی توانائی اور وزن دوبارہ حاصل کر سکے۔

تیسرا اہم پیغام

بچوں کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بروقت حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرا یا جائے۔ یہ حفاظتی ٹیکے بچوں میں بیماریوں سے لڑنے کی قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں اور انہیں غذائی کمی سے بچاتے ہیں کیونکہ بار بار بیمار ہونے سے بچے غذائی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چوتھا اہم پیغام

غذائی کمی کا شکار بچوں کو بر وقت علاج کے لیے مستند علاج گاہ میں لے کر جائیں۔ اکثر والدین سوکڑے کے بچوں کے علاج کے لیے پیر و فقیروں کے چکر میں پڑ کر وقت اور پیسہ ضائع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات بچے کی جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔ حکومت پنجاب کی طرف سے سوکڑے اور غذائی کمی کے شکار بچوں کے علاج کیلئے تقریباً ہر ضلع میں سنٹرز کھولے جا رہے ہیں۔ جنہیں (SC)STABILIZATION CENTRE کہا جاتا ہے۔

لاہور میں اس وقت 4سنٹر کام کر رہے ہیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی گنگا رام ہسپتال ، میو ہسپتال،شاہدرہ اور چلڈرن ہسپتال میں یہ سنٹرز موجودہیں۔ یہاں اضافی خوراک اور ادویات کے ذریعے غذائی کمی کے شکار بچوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ آگاہی دینا ضروری ہے والدین بر وقت علاج کے لیے ایسے مستند سنٹرز سے رجوع کریں۔ ڈیپارٹمنٹ آف پریونٹیو پیڈز فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی ، گنگا رام ہسپتال میں ہر سال تقریباً 150 سے 100 غذائی کمی کا شکار بچے صحت یاب ہوتے ہیں۔ اس ڈیپارٹمنٹ میں Lactation Clinic بھی ہے جہاں دودھ پلانے والی ماؤں کو درپیش مشکلات کو حل کیا جاتا ہے۔ اور مفید مشورے دیے جاتے ہیں۔ لہذا ایسی مائیں جنہیں دودھ پلانے کے متعلق کوئی مشورہ یا مدد لینی ہو وہ یہاں رجوع کر سکتی ہیں۔

SC کے علاوہ صوبے بھر میں OTP سنٹر بھی موجود ہیں جہاں غذائی کمی والے بچوں کے علاج کے لیئے خاص غذا دی جاتی ہے جو بچے گھر پر جاری رکھتے ہیں۔ اور ہر ہفتہ 2 ہفتہ بعد فالو اپ کے لیے سنٹر آتے ہیں جہاں ان کی بڑھوتری کو ناپا جاتا ہے۔ ایسے بچے تقریباً2 ماہ میں صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ غذائی کمی کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہمارامزید فرض بنتا ہے کہ ہم غذائیت کے بارے میں معلومات زیادہ سے زیادہ عام کریں تاکہ ہم اپنے بچوں کو محفوظ اور خوشگوار صحت مند مستقبل دے سکیں۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کِھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
Load Next Story